ہوم << شک و یقین کے درمیان معلق روحوں کے لیے فیصلہ کی گھڑی - عاطف ہاشمی

شک و یقین کے درمیان معلق روحوں کے لیے فیصلہ کی گھڑی - عاطف ہاشمی

سورہ اعراف انسانیت کے سب سے بنیادی مسئلے—یقین و شک، حق و باطل اور ایمان و انکار—پر روشنی ڈالتی ہے۔ یہ سورت خاص طور پر اگناسٹک یا متشکک افراد کے لیے ایک فکری آئینہ بن کر آتی ہے، جو ایمان و کفر سے متعلقہ نظریات کو غیرجانبداری سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور کسی قسم کی فیصلہ کن رائے اختیار کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اگناسٹک لوگ عموماً اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کی جلدی نہیں، اور وہ ہر بات کو شک کی نظر سے دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

سورہ اعراف اس طرز فکر کو بطور خاص چیلنج کرتی ہے اور اس بات کو پوری طرح واضح کرتی ہے کہ حق کا انکار یا اس پر شک کرنا ایک سنگین مسئلہ ہے، اور ایسا کرنے والے لوگوں کے لیے دنیا اور آخرت میں سخت نتائج ہیں۔ اس سورت کی آیات ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ سابقہ امتوں کے بارے میں جو لوگ حقیقت کے سامنے آ کر بھی شک یا غفلت میں مبتلا رہے، ان کا کیا حال ہوا۔

"اعراف" کا مطلب ایک بلند مقام ہے جہاں قیامت کے دن وہ لوگ کھڑے ہوں گے جو دنیا میں شک اور تذبذب میں رہے، نہ ایمان کی راہ کو مکمل اختیار کیا اور نہ کھلے کفر کا اظہار کیا۔ ان کا یہ رویہ قیامت کے دن انہیں معلق کر دے گا، یہ وہ مقام ہے جہاں حسرتیں اپنے عروج پر ہوں گی، کیونکہ جنت کے اندر مؤمنین کو دیکھ کر یہ پکاریں گے، مگر ان کے پاس داخلے کا پروانہ نہیں ہوگا۔
1. قرآن کا دوٹوک پیغام: ایمان کا مطالبہ
سورہ اعراف کی ابتدائی آیات میں ہی قرآن نے یقین اور ایمان کے بارے میں ایک دوٹوک پیغام دیا ہے۔ قرآن نے آیات کی واضح دلیلیں پیش کرتے ہوئے کہا:
"الٓمٓصٓ ۝ كِتَابٌ أُنزِلَ إِلَيْكَ فَلَا يَكُن فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنذِرَ بِهِ وَذِكْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ" (الاعراف 1-2) ”ا،ل،م،ص۔ یہ ایک کتاب ہے جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے،1 پس اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، تمہارے دل میں اس سے کوءی جھجک نہ ہو۔2 اس کے اُتارنے کی غرض یہ ہے کہ تم اس کے ذریعہ سے ﴿منکرین کو﴾ ڈراؤ اور ایمان لانے والے لوگوں کو یاد دہانی ہو۔“
یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ قرآن ایک مکمل اور واضح کتاب ہے، جس پر ایمان لانا اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے. تذبذب کے اسیروں اور شکوک و شبہات میں مبتلا رہنے والوں کے لیے یہ آیت ایک واضح پیغام ہے کہ اگر دلائل واضح ہوں تو شک و تذبذب میں رہنا کسی صورت جائز نہیں۔

2. فیصلہ کا وقت: غیرجانبداری کا کوئی فائدہ نہیں:
سورہ اعراف میں یوم الحشر کے بارے میں ایک ایسی آیت ہے جو یہ بتاتی ہے کہ غیرجانبداری کا کوئی فائدہ نہیں:
"وَالْوَزْنُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ ۚ فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُو۟لَـٰئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ ۝ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُو۟لَـٰئِكَ ٱلَّذِينَ خَسِرُوٓا۟ أَنفُسَهُم بِمَا كَانُوا۟ بِـَٔايَـٰتِنَا يَظْلِمُونَ" (الاعراف 8-9) ”اور وزن اس روز عین حق ہوگا۔ جن کے پلڑے بھاری ہوں گے، وہی فلاح پائیں گے،اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے، وہی اپنے آپ کو خسارے میں مبتلا کرنے والے ہوں گے، کیونکہ وہ ہماری آیات کے ساتھ ظالمانہ برتاوٴ کرتے رہے تھے۔“
یہ آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ دنیا میں فیصلہ کرنا ضروری ہے۔ غیرجانبداری یا شک میں رہنا ایک سنگین غلطی ہے۔ اگناسٹک لوگ اکثر مزید دلائل کے منتظر رہتے ہیں، مگر قرآن کہتا ہے کہ اللہ کی آیات پر ایمان لانا ضروری ہے۔

3. شیطان کی اگناسٹک ذہنیت: جانتے ہوئے انکار
"وَلَقَدْ خَلَقْنَـٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَـٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَـٰٓئِكَةِ ٱسْجُدُوا۟ لِـَٔادَمَ فَسَجَدُوٓا۟ إِلَّآ إِبْلِيسَ لَمْ يَكُن مِّنَ ٱلسَّـٰجِدِينَ" (الاعراف 11) ”ہم نے تمہاری تخلیق کی ابتدا کی، پھر تمہاری صورت بنائی، پھر فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو،10 اس پر سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا۔“
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ابلیس کے انکار کو بیان کیا ہے، جو جانتے ہوئے انکار کرتا ہے۔ ابلیس نے سچائی کو پہچانا تھا، لیکن اس کے باوجود وہ ایمان نہیں لایا۔ یہ ان لوگوں کے لیے ایک سبق ہے جو حقیقت کو جانتے ہوئے بھی شک میں مبتلا رہتے ہیں اور اس کا انکار کرتے ہیں۔

4. سابقہ امتوں کی مثالیں: شک کا انجام:
سورۃ الأعراف میں مختلف اقوام اور ان کے انبیاء کے قصے بیان کیے گئے ہیں، جو اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ تاریخ میں ہمیشہ دو گروہ ہی رہے ہیں—ایک وہ جو ایمان لائے اور نجات پا گئے، اور دوسرے وہ جو جھٹلانے والے تھے اور ہلاک کر دیے گئے۔ لیکن تیسرا گروہ، جو خاموش، لاتعلق یا تذبذب کا شکار رہا، ہمیشہ بے حیثیت ہو گیا۔

قوم نوح: حق قبول کرنے میں تردد کا انجام!
نوح علیہ السلام کی قوم نے طویل عرصے تک شک اور انکار کے درمیان وقت گزارا۔ انہوں نے نوح علیہ السلام کی بات سنی، مگر اس پر عمل نہیں کیا، کہتے رہے کہ "اگر واقعی عذاب آئے گا تو دیکھا جائے گا۔"
لیکن قرآن بتاتا ہے کہ جب طوفان آیا، تو پھر "سوچنے اور دیکھنے" کا وقت ختم ہو چکا تھا.

قوم عاد: طاقت بھی کسی کام نہیں آئی:
قوم عاد، جو اپنی جسمانی طاقت اور ترقی پر فخر کرتی تھی، یہ سمجھتی تھی کہ وہ اپنے دم پر زندہ رہ سکتی ہے۔ ان کے لیے اصل سوال یہ تھا کہ کیا واقعی کوئی اعلیٰ طاقت ہمیں پکڑ سکتی ہے؟ یہ وہی سوال ہے جو آج کا متشکک ذہن اٹھاتا ہے:
"اگر واقعی کوئی خدا ہے، تو وہ ہمیں کوئی واضح نشانی کیوں نہیں دیتا؟"
قوم عاد نے بھی یہی مطالبہ کیا، اور جب ان پر قہر آیا تو انہیں اندازہ ہوا کہ نشانی کا انتظار کرنے کے بجائے پہلے ہی سچ کو قبول کرنا چاہیے تھا۔

قوم ثمود: نشانی مانگنے کے بعد بھی شک؟
قوم ثمود نے صالح علیہ السلام سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی نبوت کا کوئی ثبوت پیش کریں۔ انہیں معجزہ ملا—ایک اونٹنی، جو کھلے عام اللہ کی قدرت کی نشانی تھی۔ مگر یہ لوگ پھر بھی قائل نہ ہوئے، اور اپنے شبہات میں الجھے رہے.

قوم لوط: اخلاقی انحراف اور تذبذب:
قوم لوط کی سب سے بڑی غلطی کیا تھی؟ وہ فطری قوانین کو توڑ کر غیر فطری طرز زندگی میں مبتلا ہو گئے، جب انہیں سیدھے راستے کی دعوت دی گئی تو انہوں نے مزاحمت نہیں کی، مگر قبول بھی نہیں کیا۔

اصحاب السبت: اگناسٹک رویے کی تصویر:
آیت 163 میں"وَسْـَٔلْهُمْ عَنِ ٱلْقَرْيَةِ ٱلَّتِى كَانَتْ حَاضِرَةَ ٱلْبَحْرِ إِذْ يَعْدُونَ فِى ٱلسَّبْتِ" (الاعراف 163) ”اور ذرا اِ ن سے اُس بستی کا حال بھی پوچھو جو سمندر کے کنارے واقع تھی۔ اِنہیں یاد دلاؤ وہ واقعہ کہ وہاں کے لوگ سَبْت ﴿ہفتہ﴾ کے دن احکامِ الٰہی کی خلاف ورزی کرتے تھے.“
یہاں بنی اسرائیل کے تین گروہ سامنے آتے ہیں:
1. ایک وہ جو کھلے عام اللہ کی نافرمانی کرتے ہیں۔
2. دوسرا وہ جو ان کو روکنے کی کوشش کرتا ہے۔
3. اور تیسرا وہ جو نہ برائی میں شریک ہوتے ہیں اور نہ اسے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اللہ نے پہلے گروہ کو عذاب دیا، دوسرے کو نجات دی، مگر تیسرے کا ذکر نہیں کیا، کہ حق و باطل کے معرکے میں غیر جانبدار رہنے والے اس قابل ہی نہیں کہ ان کا تذکرہ کیا جائے. یہ واقعہ اس سورت کا خلاصہ ہے کہ اگر آپ کفر اور ایمان کے درمیان کھڑے ہیں، تو آپ کا کوئی مقام نہیں۔

5. اصحابِ اعراف: اگناسٹک لوگوں کا مقام
"وَبَيْنَهُمَا حِجَابٌ ۚ وَعَلَى ٱلْأَعْرَافِ رِجَالٌ يَعْرِفُونَ كُلًّۭا بِسِيمَىٰهُمْ" (الاعراف 46) ” ان دونوں گروہوں کے درمیان ایک اوٹ حائل ہوگی جس کی بلندیوں ﴿اَعراف﴾ پر کچھ اور لوگ ہوں گے۔ یہ ہر ایک کو اس کے قیافہ سے پہچانیں گے.“
اصحابِ اعراف کی مثال ہمیں بتاتی ہے کہ وہ لوگ جو شک اور تذبذب میں مبتلا رہے، قیامت کے دن معلق رہیں گے۔ یہ اگناسٹک افراد کے لیے ایک سخت وارننگ ہے۔

6. بے خبری سے بچنے کی تلقین
"وَلَا تَكُن مِّنَ ٱلْغَـٰفِلِينَ" (الاعراف 205) ” تم اُن لوگوں میں نہ ہو جاوٴ جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں.“
یہ آیت اگناسٹک لوگوں کے لیے ایک آخری وارننگ ہے کہ اگر وہ غفلت کا شکار رہیں گے اور فیصلہ کرنے میں ناکام رہیں گے، تو ان کا انجام خطرناک ہوگا۔ اس لیے عافیت اسی میں ہے کہ غفلت کی چادر اتار پھینکی جائے، ساتھ ہی عملی قدم طور پر خدا کے حضور سربسجود ہونے کا حکم ہے تاکہ فیصلہ کرنے میں مزید تاخیر نہ ہو جائے. قرآن کریم کے 14 سجدوں میں سے سب سے پہلے سجدے کا حکم اسی موقع پر دیا گیا ہے.

حقیقت سے نظریں چرانا ممکن نہیں:
سورہ اعراف تذبذب میں مبتلا ذہنوں کے لیے ایک آئینہ ہے۔ اگر آپ حقیقت کے قریب پہنچ چکے ہیں تو مزید تذبذب اور شک کا شکار نہ ہوں۔ حق کا انکار یا شک کرنا ایک غلط فیصلہ ہے اور اس کا اختتام تباہی پر ہوتا ہے۔ یہ سورت ان لوگوں کو دعوت فکر دیتی ہے جو حقیقت سے نظریں چرا کر غفلت میں مبتلا ہیں اور انہیں فوری طور پر فیصلہ کن پوزیشن اختیار کرنے کی تلقین کرتی ہے. کیا اتنی کھلی نشانیوں کے بعد بھی شک میں مبتلا رہنے کا کوئی جواز بچتا ہے؟

Comments

عاطف ہاشمی

عاطف ہاشمی قطر میں مقیم محقق اور مترجم ہیں، سپریم جوڈیشل کونسل قطر میں ترجمانی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں. اسلامی و سماجی علوم، عربی ادب اور ترجمہ دلچسپی کے موضوعات ہیں۔ کتاب "تیس نشستیں: قرآن کریم کے ساتھ" قرآن کے موضوعات میں باہمی ربط کے حوالے سے ایک اہم تصنیف ہے، جو پاکستان کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بھی شائع ہو چکی ہے۔

Click here to post a comment