ہوم << کائنات کی تخلیق سائنس، ریاضی اور حکمت الٰہی کا امتزاج - عارف علی شاہ

کائنات کی تخلیق سائنس، ریاضی اور حکمت الٰہی کا امتزاج - عارف علی شاہ

موجودہ دور میں سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی نے ہمیں کائنات کے رازوں اور اُس کی بے مثال ترتیب سے روشناس کرایا ہے۔ حالیہ تحقیقات، خاص طور پر ہارورڈ یونیورسٹی کے معروف ماہر فلکیات ڈاکٹر ولی سون کی تحقیق، یہ واضح کرتی ہیں کہ کائنات کی تخلیق محض اتفاق یا حادثہ نہیں بلکہ ایک عمدہ منصوبہ بندی اور منظم نظام کا نتیجہ ہے۔ ڈاکٹر ولی سون کے مطابق، کائنات کے فطری قوانین اتنے جامع اور نازک انداز میں ترتیب دیے گئے ہیں کہ اُن میں کسی بھی قسم کی بے ترتیبی یا اتفاق کا امکان نہیں رہتا۔ اس تحقیق میں یہ دلیل پیش کی گئی ہے کہ ریاضی کے اصولوں اور کائناتی مستقلات کی بے عیب ہم آہنگی ہمیں اِس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ایک اعلیٰ درجے کے ریاضی دان اور دانشمند خالق کا وجود ناگزیر ہے۔

جدید فلکیات اور طبیعیات کی تحقیقات سےروز بروز یہ بات ثابت ہوتی جا رہی ہے کہ کائنات کے بنیادی قوانین اور مستقلات اتنے منظم ہیں کہ اُن میں معمولی سی بھی تبدیلی کائنات کی موجودہ حالت کو ناممکن بنا دیتی۔ فائن ٹیوننگ آرگیومنٹ اسی بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ جیسے قدرتی قوتوں اور کائناتی مستقلات (مثلاً ثقل کی طاقت، برقی مقناطیسی قوت، نیوکلیئر فورس وغیرہ) کا ایک نازک توازن موجود ہے، ویسے ہی یہ ترتیب کسی بے ترتیب عمل یا اتفاق کا نتیجہ نہیں ہو سکتی۔ کیمبرج کے مشہور ریاضی دان پال ڈیریک نے بھی 1963 میں کائناتی قوانین کی ترتیب کی تعریف کی اور کہا کہ ایسا منظم توازن کسی اعلیٰ ذہانت کے بغیر ممکن نہیں۔

ڈاکٹر ولی سون کا کہنا ہے کہ کائنات کے راز ریاضی کے فارمولوں میں پوشیدہ ہیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایک عظیم ریاضی دان نے کائنات کو نہایت عمدہ انداز میں تخلیق کیا ہے۔ اس نظریے کے مطابق، ریاضی نہ صرف قدرتی مظاہر کو بیان کرنے کا ذریعہ ہے بلکہ یہ ایک ایسے منظم نظام کی عکاسی کرتا ہے جو کسی عظیم خالق کی موجودگی کا ثبوت پیش کرتا ہے۔

ریاضی کے اصول اور فارمولے کائنات کے مختلف پہلوؤں میں جھلکتے ہیں۔ چاہے وہ کہکشاؤں کی ترتیب ہو یا ذرات کی حرکت، ہر جزو ایک جامع اور متوازن نظام کا حصہ ہے۔ سائنسدانوں کا استدلال ہے کہ اگر کائناتی مستقلات میں تھوڑی سی بھی تبدیلی واقع ہو جائے تو کائنات میں زندگی کی موجودگی ممکن نہیں رہے گی۔ یہی وہ حقیقت ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ کائنات میں موجود ہر شے، چاہے وہ اتنی معمولی سی کیوں نہ ہو، ایک پیچیدہ اور مدبر منصوبے کا حصہ ہے۔

یہ ریاضیاتی ترتیب ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کائنات محض اتفاقی حادثات کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک ایسی دانشمند حکمت کا نتیجہ ہے جسے سمجھنا انسان کی عقل و فہم کی بلندیاں چیر کر رکھ دیتا ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق یہ اصول ہمیں اُس اعلیٰ درجے کے منظم خالق کی طرف متوجہ کرتے ہیں، جو نہ صرف اس کائنات کو تخلیق کرنے والا ہے بلکہ اُس کی تمام پیچیدگیوں کو بھی ترتیب دیتا ہے۔

اسلامی تعلیمات میں کائنات کی تخلیق کو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ قرآن مجید کی متعدد آیات میں اللہ کی قدرت اور حکمت کا ذکر موجود ہے، جو ہمیں کائنات کی بے مثال ترتیب کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ" (سورۃ آل عمران: 190)؛ یعنی آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اللہ کی نشانیوں کا مجموعہ موجود ہے جسے سمجھنے والے ہی عقل کے مالک ہیں۔
اسی تناظر میں ایک اور قرآنی آیت بھی سامنے آتی ہے۔اللہ رب العزت سورہ الملک میں فرماتے ہیں۔
"فَارِجِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَى مِن فُطُورٍ"
یہ آیت مبارکہ لوگوں کو دعوت دیتی ہے کہ وہ غور سے دیکھیں کہ کیا کائنات کی تخلیق میں کوئی خلل یا رکاوٹ موجود ہے؟ فطور سے مراد ایسی کوئی عیب یا خلل ہے جس کی وجہ سے نظامِ کائنات میں بے ترتیبی یا عدم توازن ہو۔ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اگر ہم اپنی آنکھوں سے کائنات کو دیکھیں تو ہمیں اس کی بے عیب ترتیب اور ہم آہنگی میں کوئی بھی خلل نظر نہیں آتا۔

یہ قرآنی بیان اس بات کا مظہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کو نہایت عمدہ اور منظم انداز میں تخلیق کیا ہے، جس میں ہر جزو ایک دوسرے کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ یہ بالکل اُس نظریے سے ہم آہنگ ہے جو سائنسدان فائن ٹیوننگ آرگیومنٹ میں پیش کرتے ہیں، جس میں کائنات کی نازک ترتیب کو ایک عظیم خالق کی نشانی قرار دیا گیا ہے۔

یہ آیت مبارکہ ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ کائنات کی تشکیل میں کسی بھی قسم کی بے ترتیبی یا خلل کا کوئی امکانی ثبوت موجود نہیں، بلکہ ہر شے میں مکمل ہم آہنگی اور توازن پایا جاتا ہے۔ اس حقیقت کو سمجھ کر انسان نہ صرف سائنس کی دنیا میں تحقیق کی طرف راغب ہوتا ہے بلکہ روحانی بیداری کی طرف بھی متوجہ ہوتا ہے۔

اسلامی تصورِ توحید کے مطابق اللہ تعالیٰ واحد اور بے نظیر خالق ہے جس نے کائنات کی تخلیق نہ صرف ایک منظم نظام کے تحت کی بلکہ ہر جزو کو ایک مخصوص مقصد اور حکمت کے تحت ترتیب دیا۔ قرآن اور حدیث کی روشنی میں ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ کائنات کی ترتیب میں اللہ تعالیٰ کی حکمت اور علم کا اظہار موجود ہے۔

اسلامی علماء جیسے ابنِ سینا اور امام غزالی نے بھی کائنات کی ترتیب کو ایک ایسی نشانی قرار دیا ہے جو انسان کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور عظمت کا ادراک کراتی ہے۔ اُن کے مطابق ہر شے میں موجود منظم ترتیب اور ریاضیاتی ہم آہنگی ایک ایسے منصوبے کی عکاسی کرتی ہے جس میں خالق کی موجودگی اور اُس کی بے پناہ حکمت واضح طور پر نظر آتی ہے۔

فائن ٹیوننگ آرگیومنٹ کا بنیادی مفروضہ یہی ہے کہ کائناتی مستقلات اور طبیعی قوانین اتنے نازک اور متوازن ہیں کہ اُن میں معمولی سی بھی تبدیلی زندگی کے وجود کو ناممکن بنا دیتی ہے۔ سائنسدان اس نازک توازن کو دیکھ کر یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ کائنات محض اتفاق یا حادثے کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک عمدہ منصوبہ بندی کا ثبوت ہے۔

ڈاکٹر ولی سون کے مطابق، ریاضی اور کائنات کے درمیان موجود بہترین ہم آہنگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ کائنات کی تخلیق میں ایک اعلیٰ درجے کے ریاضی دان کا ہاتھ موجود ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے بھی یہی بات سامنے آتی ہے اللہ تعالیٰ کی صفت الحکیم یعنی عالمِ حکمت ہمیں یہ باور کراتی ہے کہ ہر شے کو ایک عمدہ حکمت اور منصوبہ بندی کے تحت پیدا کیا گیا

آیات مبارکہ ہمیں دعوت دیتی ہیں کہ ہم کائنات کی باریک ترتیب پر غور کریں اور دیکھیں کہ ہر جزو کس قدر عمدگی سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اس ترتیب کا مطالعہ نہ صرف سائنسی تحقیق کا محرک ہے بلکہ یہ روحانی بیداری کا بھی باعث بنتا ہے، جس سے انسان اپنے خالق کی بے پناہ حکمت اور علم کا ادراک کر پاتا ہے۔

اسلامی تاریخ میں مسلمانوں نے نہ صرف مذہبی علوم میں بلکہ سائنس اور فلسفے میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ عباسی دور میں مسلمانوں نے ریاضی، فلکیات اور طبیعیات میں اہم ترقیات کیں اور کائنات کے رازوں کو سمجھنے کے لیے گہرائی سے تحقیق کی۔ ابنِ سینا اور امام غزالی جیسے عظیم اسلامی فلسفیوں نے کائنات کی ترتیب کو نہ صرف ایک طبیعی حقیقت بلکہ ایک الٰہی نشانی کے طور پر بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ کائنات کی ہر شے میں اللہ تعالیٰ کی حکمت کی جھلک موجود ہے اور اس ترتیب کا مطالعہ انسان کو اُس عظیم خالق کی یاد دلاتا ہے جس نے اسے ایک بے مثال منصوبہ بندی کے تحت پیدا کیا ہے۔ اسلامی فلسفہ اور سائنس کے جدید نظریات میں ایک مضبوط ہم آہنگی موجود ہے، جہاں دونوں نقطہ نظر ہمیں کائنات کی بے عیب ترتیب کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔

آج کے دور میں جب سائنس اور ٹیکنالوجی میں روزانہ نئی دریافتیں ہو رہی ہیں، تب بھی یہ سوال کہ کائنات کا اصل منبع کیا ہے؟ انسان کے ذہن میں اُبھرتا رہتا ہے۔ ڈاکٹر ولی سون کی تحقیق اور فائن ٹیوننگ آرگیومنٹ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ کائنات کا نظام ایک منظم منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔

اسلامی نقطہ نظر سے بھی یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ہر جزو کو ایک مخصوص حکمت اور مقصد کے تحت تخلیق کیا گیا ہے۔ مستقبل کی تحقیق ہمیں کائنات کی گہرائیوں میں چھپے رازوں کو بہتر انداز میں سمجھنے میں مدد دے گی اور ساتھ ہی یہ بھی واضح کرے گی کہ انسانی عقل اور سائنس کی کامیابیاں دراصل اللہ تعالیٰ کی عظمت اور حکمت کا ثبوت ہیں۔ اسی طرح آج کے دور میں جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی نے بے شمار راز افشا کیے ہیں، وہاں یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ سائنس اور مذہب ایک دوسرے کے متصادم نہیں بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں علم حاصل کرنے کی بھرپور تاکید کی گئی ہے اور کائنات کی باریک ترتیب کو سمجھنے کی دعوت دی گئی ہے۔

ڈاکٹر ولی سون کی تحقیق اور اُن کا کہنا کہ ریاضی اور کائنات کے درمیان بہترین ہم آہنگی موجود ہے اسی بات کا ثبوت ہے کہ یہ نظام محض اتفاقی نہیں بلکہ ایک عمدہ منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ ان آیات اور سائنسی دلائل سے یہ سمجھ آتا ہے کہ کائنات کے ہر جزو میں اللہ تعالیٰ کی بے پناہ حکمت، علم اور منصوبہ بندی کی جھلک موجود ہے۔ یہ حقیقت نہ صرف انسان کو اپنی تحقیق اور سائنسی ترقی کی طرف مائل کرتی ہے بلکہ روحانی بیداری کا بھی باعث بنتی ہے، جس سے انسان اپنے خالق کی عظمت اور اُس کے بے مثال نظامِ کائنات کا ادراک کر پاتا ہے۔ یہ تصور ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم نہ صرف سائنسی تحقیق کی روشنی میں کائنات کی ترتیب کا مطالعہ کریں بلکہ قرآن مجید کی رہنمائی سے بھی یہ سمجھیں کہ ہر شے میں اللہ تعالیٰ کی نشانی چھپی ہوئی ہے۔ یہی وہ جامع پیغام ہے جو سائنس اور ایمان دونوں کی بنیاد پر ہمیں اپنی زندگی کو ایک نئے نظریے اور عزم کے ساتھ گزارنے کی دعوت دیتا ہے۔