ہوم << صدائے عشق - رفیعہ شیخ

صدائے عشق - رفیعہ شیخ

سورج کی کرنیں دھیرے دھیرے زمین پر بکھر رہی تھیں، جیسے کسی نازک ہاتھ نے زعفرانی رنگ کو آسمان کی وسعتوں سے اتار کر خاک پر چھڑک دیا ہو۔ صبح کے سائے ابھی مکمل معدوم نہیں ہوئے تھے، اور پرندے، جو کچھ دیر پہلے کسی انجانے راز پر چہک رہے تھے، اب یکدم خاموش ہو چکے تھے۔ درختوں کی سرسراہٹ میں کسی ان کہی کہانی کی سرگوشیاں شامل تھیں، اور فضا میں بادام اور زیتون کے درختوں کی مدھم مہک تھی—وہی مہک، جو پرانی داستانوں کے بوسیدہ کتبوں سے آتی ہے، وہی مہک جو گزرتے وقت کے زخموں سے اٹھتی ہے۔

اسی سرسبز وادی میں، ایک قدیم چٹان پر ایک عورت بیٹھی تھی۔ اس کی آنکھوں میں گہرے سمندروں کی سی وسعت تھی، اور پیشانی پر وقت کے نوشتہ تحریر تھے۔ اس کے ہاتھوں کی پشت پر نرم جھریاں تھیں، جیسے کسی کاتب نے صدیوں کی کہانیاں ان میں رقم کر دی ہوں۔ اس کی خاموشی کسی مقدس صحیفے کی طرح تھی—وہ خاموشی، جو طوفانوں سے پہلے کی ہوتی ہے، جو قربانی سے پہلے کی ہوتی ہے، جو صدیوں سے سنائی نہیں دی مگر ہمیشہ موجود رہی۔

تبھی، ایک سایا حرکت میں آیا۔ ایک بوڑھا، جس کی آنکھوں میں تھکے ہوئے آسمانوں کا عکس تھا، جس کے ہاتھوں میں وقت کے زخموں کی گواہی تھی، آہستہ آہستہ اس کے قریب آیا۔ وہ ایسا لگتا تھا جیسے خود وقت نے ایک انسانی قالب میں جنم لے لیا ہو۔ اس کی آواز میں شکستہ حروف کی بازگشت تھی، اور اس کے قدموں میں صدیوں کی تھکن۔
"تم کون ہو؟"
عورت نے نگاہ اٹھائی۔ اس کی آنکھوں میں وہ روشنی تھی جو جلنے کے بعد پیدا ہوتی ہے، جو درد کی انتہا کے بعد آنکھوں میں اترتی ہے۔ وہ مسکرائی—ایک ایسی مسکراہٹ جس میں زخموں کا لمس بھی تھا اور امر ہونے کا یقین بھی۔
"میں وہ ہوں، جس کا وجود ہر صدی میں پنپتا رہا، میں وہ ہوں جسے تم نے کئی نام دیے، مگر کبھی پہچانا نہیں۔ میں وہ ہوں جسے کبھی دروازوں کے پیچھے قید رکھا گیا، کبھی دیوی بنا کر پوجا گیا، کبھی تماشہ بنا کر بازار میں پیش کیا گیا، اور کبھی تخت پر بٹھا کر دنیا کے فیصلے کرنے پر مجبور کیا گیا۔ میں وہ ہوں، جو ہر روپ میں رہی، مگر ہمیشہ اپنی تلاش میں سرگرداں رہی۔"

بوڑھا لمحہ بھر کو خاموش رہا، جیسے اس کے حروف کمزور پڑ گئے ہوں، جیسے کوئی بھولا ہوا خواب دوبارہ یاد آ گیا ہو۔ پھر اس نے آہستہ سے کہا:
"مگر تم تو کمزور ہو۔ تم تو وہ ہو جسے نرمی اور محبت کے نام پر قربانی کا درس دیا گیا، تم تو وہ ہو جس کے جذبات کو اس کی سب سے بڑی کمزوری بنا دیا گیا، جسے کہا گیا کہ محبت کرنا ہی تمہاری اصل طاقت ہے، چاہے اس محبت میں تمہاری ذات ہی کیوں نہ مٹ جائے۔"
عورت نے ایک لمحے کو آسمان کی طرف دیکھا، جیسے روشنی کو اپنے اندر جذب کر رہی ہو، جیسے وہ کسی مقدس لمحے میں کھڑی ہو۔ پھر اس نے گہری سانس لی، اور کہا:
"ہاں، مجھے کمزور کہا گیا۔ مگر کیا تم جانتے ہو کہ کمزوری اور طاقت کے معانی ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں؟ میں وہ ہوں، جس نے جنگ کے میدانوں میں مرہم دیا، جس نے ٹوٹے ہوئے گھروں کو سنبھالا، جس نے رات کی تنہائیوں میں امید کے چراغ جلائے۔ میں وہ ہوں جس نے اپنی کوکھ میں وقت کے سب سے بڑے فاتحین کو پروان چڑھایا، میں وہ ہوں جس نے اپنے زخموں کو زمین کی زرخیزی بنا دیا، میں وہ ہوں جس نے رونے میں بھی صبر پایا اور صبر میں بھی بغاوت کا سراغ نکالا۔ میں کمزور نہیں، میں صدا ہوں، میں عشق ہوں۔"

بوڑھا خاموش ہو گیا۔ وقت اس کے اندر کہیں لرزنے لگا تھا، جیسے پہلی بار کسی نے اسے اس کا سچ آئینے میں دکھا دیا ہو۔
مگر وہ پھر بھی ہارا نہیں۔ ایک آخری سوال اس کے ہونٹوں پر تھا۔
"مگر تمہارے نام مٹا دیے گئے، تمہاری کہانیاں بدل دی گئیں، تمہارے خوابوں کو وقت کی خاک میں دفنا دیا گیا۔ تم کیسے کہہ سکتی ہو کہ تم جیتی ہو؟"

عورت نے دھیرے سے زمین پر انگلی پھیری، جیسے کچھ تلاش کر رہی ہو۔ پھر اس نے ایک گہری سانس لی، اور کہا:
"ہاں، میرے نام بدلے گئے، میری کہانیاں چرائی گئیں، مگر تم جانتے ہو؟ میں ہر بار ایک نئے نام سے، ایک نئی روشنی کے ساتھ، ایک نئے چہرے میں زندہ ہو گئی۔ میں سیتا بنی تو اگنی پریکشا میں جل کر بھی امر رہی، میں فاطمہ بنی تو علم کی مشعل بن گئی، میں زلیخا بنی تو انتظار کی آزمائش میں بھی محبت کا استعارہ بن گئی، میں رضیہ بنی تو تلوار اٹھائی، میں جان آف آرک بنی تو جنگ کی خاک میں بھی تاریخ لکھ گئی۔ میں وہ ہوں جو ہر صدی میں زندہ رہی، میں وہ ہوں جسے فنا نہیں کیا جا سکتا۔ میں وہ ہوں، جو ہر بار اپنی راکھ سے دوبارہ جنم لیتی ہے، جو مٹی میں دفن ہو کر بھی خوشبو بن جاتی ہے، جو دریا میں بہا دی جائے تو بھی لہروں کا ترانہ بن جاتی ہے۔"

بوڑھے کی آنکھوں میں ایک نئی روشنی جھلکنے لگی، جیسے پہلی بار اسے یقین آ گیا ہو کہ وقت سے زیادہ طاقتور بھی کچھ ہو سکتا ہے۔
ہوا میں زیتون اور بادام کی خوشبو مزید گہری ہو گئی۔ پرندے دوبارہ چہچہا اٹھے، جیسے اس عورت کی بات کو آسمان نے سچ مان لیا ہو۔
اور وہ عورت؟ وہ مسکرائی، اور ایک نئی راہ پر چل پڑی۔ وہ جا رہی تھی، مگر اس کی صدا باقی تھی—ہوا میں، وقت میں، اور ہر اس دل میں، جہاں محبت نے کبھی سانس لی ہو۔
یہ صدا مٹنے والی نہیں۔
یہ صدا، عشق کی صدا ہے۔

ٹیگز