انسان کی مادی زندگی میں علت و معلول کا مسئلہ تب سے ہی موجود ہے جب سے انسان نے کسی وجود کے اسباب پر سوچنا شروع کیا ہے. اگر ہم تخلیق کائنات پر غور کریں تو لا تعداد موجودات ، مخلوقات اس کائنات کا حصہ ہیں۔ اور یہ تمام کی تمام کسی نہ کسی درجہ " معلولات " میں سے ہیں۔ یعنی ہر معلول کی ایک علت ہے۔ ہر مخلوق کا ایک خالق ہے، ہر مصنوع کا ایک صانع ہے اور ہر لاحق کو ایک سابق کی ضرورت ہوتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسانی دماغ اور شعور نے اتنی پیچیدہ علمی فکر تک کیسے رسائی کی! اور ان لا تعدادت موجودات (معلولات) کی لا تعداد علتوں کے جاننے کا حاصل و حصول کیا ٹھہرا اور کیا انسان کسی پہلی علت تک پہنچ سکا ۔؟ اگر پہنچا تو نتیجہ کیا اخذ کیا گیا ؟
اس علم کی جستجو شکوک کا سمندر ہے ، ایسے سوالات کا حیرت کدہ کہ جس کے جوابات ہمیں کسی Divine Guidance کے بغیر ملنا نا ممکن ہیں۔ یہ بات تو یقینی ہے کہ عقل ، شعور ، علم ، ادراک علم ،فکر ، تدبر ، فقاہت سب کا تعلق " انسانی دل و دماغ " سے ہے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ عقل اور علم و شعور اس مادی دنیا میں معلول ہیں، اور انسانی دل و دماغ علت ہیں۔ اور جب سے انسان بنا ہے اس نے موجودات کو اپنے سامنے پایا ہے۔ یہاں پر ایک عجیب کشمکس پیدا ہو جاتی ہے کہ موجودات جو لا تعداد ہیں اگر وہ معلول ہیں تو ان کی علت کیا ہے؟
ملحدین سے سوال کیا جائے ؟ کہ موجودات کائنات کی علت کیا ہے ؟ تو وہ بھی کسی تذبذب اور تشکیک کا شکار ہو کر کسی حد تک بگ بینگ تھیوری کو ہی کائنات کی ابتداء یا موجودات کی علت قرار دیں گے۔ یعنی مادے کا وہ زور دار دھماکہ جس سے یہ کائنات وجود میں آ گئی ، اب یہاں پر ایک فلسفیانہ سوال کہ مادے کی پہلی شکل یعنی ابتداء کیسے ہوئی ؟
تو ملحدین اکثر یہ جواب دے دیتے ہیں کہ " مادہ " ہمیشہ سے تھا ۔ لیکن جب ان سے سوال کیا جائے کہ آپ اس کائنات کو ازلی مانتے ہیں یا حادث تو کہتے ہیں کائنات حادث ہے، یعنی اس کی ابتداء ہوئی ہے۔ یہاں پر ایک جھگڑا شروع ہو جاتا ہے ۔ اہل ایمان سوال کرتے ہیں : اگر کائنات کی ابتداء ہوئی ہے تو وہ ازلی کیسے ہوئی ہے ؟ کیونکہ کائنات اگر معلول ہے، اور اس کی علت اگر مادہ ہے تو مادہ کی علت کیا ہو گی ؟ ملحدین اس کا جواب دینے سے قاصر ہیں ۔
یہاں پر تضادات کا ایک وسیع سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔ مادہ اگر ازلی ہے تو بگ بینگ تھیوری یعنی کائنات کے ابتدائی دھماکے کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ؟ اگر مادہ مخلوق نہیں تو کیا مادہ کی علت " عدم " ہے ؟ اگر عدم ہے تو مادہ ازلی کس طرح ہو گیا ؟ اور اگر عدم ازلی ہے تو مادہ کی ابتداء کے حوالے سے ملحدین کے پاس کوئی بھی Rational Evidence کیوں موجود نہیں ؟
اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ مادہ کو مخلوق نہیں مانتے اور خالق کا انکار کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودات کائنات کی علت کوئی Conscious Being باشعور وجود ہوتی ہے تو " مادہ " کو عدم سے وجود بخشنے کے پیچے کوئی با شعور وجود کیوں نہیں ہو سکتا ؟ کائنات کی مادیت اگر علت و معلول سے خالی نہیں تو مادہ کی ابتداء علت و معلول سے خالی کیوں؟ ہمیں ماننا ہو گا کہFirst Cause Theory یعنی پہلی علت کا وجود ہے۔ جو باشعور ہے, باقدرت ہے, اور اشیاء کو ، مادہ کو "عدم سے وجود " بخش سکتی ہے۔ ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ "عدم" معدومیت کو کہا جاتا ہے۔ یعنی نیستی ، یعنی کچھ نہ ہونا ، کسی امر کا نہ ہونا ۔
اب دہریوں سے یہاں چند سوالات کرنا ضروری ہیں :
کیا معدومیت میں " تفکر " کی صلاحیت ہوتی ہے ؟ اگر نہیں تو مادہ کو ڈیزائن کرنے والا کون تھا ؟
کیا معدومیت " کلام " کر سکتی ہے ؟
کیا " معدومیت " کے پاس سماعت ، و بصارت کی صفات ہوتی ہیں؟
کیا معدومیت کے ہاتھ ، پاؤں ہوتے ہیں یعنی " معدومیت مجسم" ہوتی ہے۔؟
جس طرح مادی کائنات میں کسی ایجاد و دریافت کا خالق کوئی باشعور وجود ہوتا ہے، اسی طرح مادے کی ابتداء کے لیے یعنی عدم سے وجود بخشنے کے لیے کسی باشعور خالق کا ہونا ضروری کیوں نہیں ہے۔
یہاں پر ہمیں ایک فرق سمجھنا ضروری ہے۔ انسان کسی چیز کا خالق ہو سکتا ہے، لیکن وہ جو بھی تخلیق کرتا ہے پہلے سے پائی جانے والی مخلوقات یعنی میٹریل کی مدد سے تخلیق کرتا ہے۔ انسان میں یہ قدرت نہیں کہ وہ کسی چیز کو عدم سے وجود بخشے۔ یہ اللہ کی صفت خالق ہے، اور اصل خالق کہا بھی اسے ہی جائے گا۔ انسان کو خالق کہنا حقیقت میں تشبیہ و تمثیل ہے، جو شرک کے زمرے میں آتا ہے ۔ انسان کو میٹیریل کا Transformer یعنی شکل کو تبدیل کرنے والا کہا جا سکتا ہے، خالق نہیں۔
ہمیں اللہ کی صفات کے متعلق کچھ عقائد سمجھنے کی ضرورت ہے ۔
اللہ کے نام سب سے اچھے نام ہیں۔
اللہ کی صفات تمام کی تمام مثبت ہیں، منفی نہیں۔
اللہ کی ذات اور صفات کی کوئی تشبیہ نہیں دی جا سکتی۔
اللہ کی ذات اور صفات کی کوئی تمثیل نہیں دی جا سکتی۔
اللہ کی ذات اور صفات کی کوئی کیفیت نہیں بیان کی جا سکتی۔
اللہ کی صفات کو ویسا ہی بیان کیا جائے گا جیسا اسے اللہ نے خود بیان فرمایا یا اس نے اپنے محبوب پیمغمبر جناب محمد رسول اللہ ﷺ کو بتایا۔
اللہ تعالیٰ کے اچھے نام ۔
وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا۪-وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ اَسْمَآىٕهٖؕ-سَیُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (الاعراف)
اور بہت اچھے نام اللہ ہی کے ہیں تو اسے ان ناموں سے پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں حق سے دور ہوتے ہیں ، عنقریب اُنہیں ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔
اس کی مثال سب سے اعلیٰ اور بلند ہے ۔
لِلَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ مَثَلُ السَّوْءِۚ-وَ لِلّٰهِ الْمَثَلُ الْاَعْلٰىؕ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ وَ لَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَّا تَرَكَ عَلَیْهَا مِنْ دَآبَّةٍ وَّ لٰـكِنْ یُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّىۚ-فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ (النحل)
جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے انہیں کا بر ا حال ہے اور اللہ کی شان سب سے بلند اور وہی عزت و حکمت والا ہےاور اگر اللہ لوگوں کو ان کے ظلم پر گرفت کرتا تو زمین پر کوئی چلنے والا نہیں چھوڑتا لیکن انہیں ایک ٹھہرائے وعدے تک مہلت دیتا ہے پھر جب ان کا وعدہ آئے گا نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹیں نہ آگے بڑھیں
اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات میں اسکی کوئی مشابہت و مثل نہیں ۔
فَاطِرُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ جَعَلَ لَکُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ اَزۡوَاجًا وَّ مِنَ الۡاَنۡعَامِ اَزۡوَاجًا ۚ یَذۡرَؤُکُمۡ فِیۡہِ ؕ لَیۡسَ کَمِثۡلِہٖ شَیۡءٌ ۚ وَ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ (الشوریٰ)
وہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے اس نے تمہارے لئے تمہاری جنس کے جوڑے بنا دیئے ہیں اور چوپایوں کے جوڑے بنائے ہیں تمہیں وہ اس میں پھیلا رہا ہے اس جیسی کوئی چیز نہیں وہ سننے اور دیکھنے والا ہے۔
اب ہم ارسطو کی کتاب Metaphysics میں اس کی پیش کی جانے والی" علل اربعہ" پر تبصرہ کرتے ہیں۔
نمبر 1: مادی علت ۔ Material cause
جس کا معنی ہے کہ کون سی چیز کس چیز سے بنی۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ کرسی اور میز لکڑی سے بنی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کرسی اور میز معلول ہیں اور ان کی علت لکڑی ہے۔ اب یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کائنات کا ابتدائی مادہ کیسے تخلیق کیا گیا ۔ اس کے لئے ہم اصول واضح کر چکے ہیں کہ مادہ یا معدومیت پہلی علت نہیں ہو سکتیں چونکہ ملحدین اس کائنات کی ابتداء کو تسلیم کرتے ہیں تو ہمیں ماننا چاہیئے کہ کوئی ایسی ذات موجود تھی جس پر اس کائنات کے موجودہ زمان و مکاں کا اصول یا محتاجگی لاگو نہیں ہوتی ۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے در تعارض العقل والنقل میں اس گھتی کو سلجھایا کہ اس کائنات کا زمان و مکان سورج اور چاند ، دن اور رات کی حرکت کے بعد پیدا ہوا ۔ اس لئے اس کا تعلق اللہ کے عرش پر موجود زمانے سے نہیں ہو سکتا ۔ اس لئے مادہ چونکہ لاحق ہے ابتدائی ہے اس لئے اس کے لئے ایسے لاحق کا ہونا ضروری ہے جو قادر مطلق ہو ، معدومیت اس کے لئے کوئی کمزوری نہ ہو اور وہ کسی بھی شے کو عدم سے وجود دے سکتا ہو۔
اللہ قرآن میں ارشاد فرماتا ہے۔
اَوَ لَمۡ یَرَوۡا کَیۡفَ یُبۡدِئُ اللّٰہُ الۡخَلۡقَ ثُمَّ یُعِیۡدُہٗ ؕ اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرٌ (العنکبوت)
کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ مخلوق کی ابتدا کس طرح اللہ نے کی پھر اللہ اس کا اعادہ کرے گا یہ تو اللہ تعالٰی پر بہت ہی آسان ہے ۔
بعض مخلوقات کے میٹیریل کا ذکر خود اللہ نے فرمایا ۔ جیسے ہر جاندار اشیاء کو پانی سے پیدا کرنا ۔
اَوَ لَمۡ یَرَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ کَانَتَا رَتۡقًا فَفَتَقۡنٰہُمَا ؕ وَ جَعَلۡنَا مِنَ الۡمَآءِ کُلَّ شَیۡءٍ حَیٍّ ؕ اَفَلَا یُؤۡمِنُوۡنَ (الانبیاء)
کیا کافر لوگوں نے یہ نہیں دیکھا کہ آسمان و زمین باہم ملے جلے تھے پھر ہم نے انہیں جدا کیا اور ہر زندہ چیز کو ہم نے پانی سے پیدا کیا ، کیا یہ لوگ پھر بھی ایمان نہیں لاتے؟
اسی طرح انسان کو اللہ نے مٹی سے پیدا فرمایا ۔۔
وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ اِذَاۤ اَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُوْنَ(الروم)
اور اس کی نشانیوں سے ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر جبھی تم انسان ہوجو دنیا میں پھیلے ہوئے ہو۔سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إن آدم خلق من ثلاث ترابات سوداء وبيضاء وخضراء: ”بیشک آدم علیہ السلام کو تین قسم کی مٹی سے پیدا کیا گیا کالی، سفید اور سبز۔“ حدیث نمبر: 3822 سلسلہ احادیث صحیحہ ۔
اگر یہ کہا جائے کہ اللہ نے قرآن میں " علت مادیہ " کو بھی بیان فرمایا ہے تو غلط نہ ہو گا ۔
نمبر 2 : رسمی علت : Formal cause ۔
رسمی علت سے مراد وہ ماڈل یا نمونہ جو کسی چیز کو دوسری چیزوں سے ممتاز کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، ایک میز میں برابر لمبائی کی چار ٹانگیں ہیں، لہذا اس کا ڈیزائن میز کی رسمی وجہ ہے.
اللہ کو کسی نے نہیں بنایا ۔ بلکہ اس نے اس کائنات کی ہر چیز کی ایک مقدار بنائی ہے ۔ سورج اور چاند کی حرکت کا ایک وقت ہے ۔ بارش اور پانی سے کھیتیاں پیدا ہوتی ہیں ، انسان پیاس بھجاتا ہے اور اناج اور چوپائیوں کے گوشت سے اپنا پیٹ بھرتا ہے ۔
اِنَّا كُلَّ شَىْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ وَمَآ اَمْرُنَـآ اِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْـحٍ بِالْبَصَرِ وَلَقَدْ اَهْلَكْنَـآ اَشْيَاعَكُمْ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِـرٍ (القمر)
بے شک ہم نے ہر چیز اندازے سے بنائی ہے۔ اور ہمارا حکم تو ایک ہی بات ہوتی ہے جیسا کہ پلک جھپکنا۔ اور البتہ ہم تمہارے جیسوں کو غارت کر چکے ہیں پھر کیا کوئی سمجھنے والا ہے۔
اس کائنات کی "رسمی علت " اس کی موجودات کی محدودیت اور اختتام ہے ۔ جو اس کے ڈیزائن کو اس لئے ممتاز کرتا ہے کہ یہ کائنات انسان کی آزمائش کے لئے پیدا کی گئی اور روز قیامت ختم کر دی جائے گی ۔ اور انسانوں کو سزا و جزاء کے لئے جنت اور جہنم میں بسایا جائے گا جہاں ہمیشگی ہو گئی ۔ موت نہیں ہو گی ۔ جس میں محدودیت نہیں ہو گی ۔ انسانوں کا مر جانا ، بیمار ہونا ، عمروں کا گھٹنا ، اشیاء کی قلت کا ہونا یہ سب اس بات کا اشارہ ہے کہ یہ کائنات انسان کی آزمائش گا ہے ۔
نمبر 3: موثر علت : Efficient cause
تبدیلی کا محرک یا نقطہ آغاز۔ مثال کے طور پر، ایک بڑھئی نے میز بنایا، لہذا بڑھئی میز کی موثر وجہ ہے۔
چونکہ اس علت کا تعلق بھی دنیاوی مادیت سے ہے اس لئے یہاں پر مادے کی ابتداء اور ازلی نہ ہونے کے قانون نے معدومیت میں نقص پیدا کر دیا ہے۔
جب یہ کائنات ہے تو اصولی طور پر اس کا خالق بھی ہے ۔ اور یہی اس کی موثر علت ہے ۔
قُلْ سِيْـرُوْا فِى الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَيْفَ بَدَاَ الْخَلْقَ ۚ ثُـمَّ اللّـٰهُ يُنْشِئُ النَّشْاَةَ الْاٰخِرَةَ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ (العنکبوت )
کہہ دو ملک میں چلو پھرو پھر دیکھو کہ اس نے کس طرح مخلوق کو پہلی دفعہ پیدا کیا، پھر اللہ آخری دفعہ بھی پیدا کرے گا، بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
اور اسی طرح فرمایا :
اِنَّ فِىْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّـهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِىْ تَجْرِىْ فِى الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللّـٰهُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّآءٍ فَـاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِـهَا وَبَثَّ فِيْـهَا مِنْ كُلِّ دَآبَّةٍۖ وَتَصْرِيْفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ لَاٰيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ (البقرہ)
بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں، اور رات اور دن کے بدلنے میں، اور جہازوں میں جو دریا میں لوگوں کی نفع دینے والی چیزیں لے کر چلتے ہیں، اور اس پانی میں جسے اللہ نے آسمان سے نازل کیا ہے پھر اس سے مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے اور اس میں ہر قسم کے چلنے والے جانور پھیلاتا ہے، اور ہواؤں کے بدلنے میں، اور بادل میں جو آسمان اور زمین کے درمیان حکم کا تابع ہے، البتہ عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔
اور پھر فرمایا
اَمۡ خُلِقُوۡا مِنۡ غَيۡرِ شَىۡءٍ اَمۡ هُمُ الۡخٰلِقُوۡنَؕ اَمۡ خَلَـقُوا السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَۚ بَلْ لَّا يُوۡقِنُوۡنَؕ اَمۡ عِنۡدَهُمۡ خَزَآٮِٕنُ رَبِّكَ اَمۡ هُمُ الۡمُصَۜيۡطِرُوۡنَؕ اَمۡ لَهُمۡ سُلَّمٌ يَّسۡتَمِعُوۡنَ فِيۡهِ ۚ فَلۡيَاۡتِ مُسۡتَمِعُهُمۡ بِسُلۡطٰنٍ مُّبِيۡنٍؕ ( الطور )
کیا یہ بغیر کسی کے بنائے ہوئے خود بن گئے ہیں یا یہ خود ہی خالق ہیں ؟ کیا آسمانوں اور زمین کو انہوں نے بنایا ہے ؟ بلکہ (اصل بات یہ ہے کہ) یہ یقین نہیں رکھتے۔ کیا ان کے قبضہ قدرت میں آپ کے رب کے خزانے ہیں یا یہ داروغہ ہیں ؟ کیا ان کے پاس کوئی ایسی سیڑھی ہے جس کے ذریعے سے یہ آسمان کی خبریں سن لیتے ہیں ؟ اگر ایسا ہے) تو ان کا سننے والا کوئی واضح دلیل لائے۔
پس معدومیت کا ازلی ہونا رد ہوا ، معدومیت میں عدم سے خلق کرنا اللہ کی صفت ثابت ہوا ۔ اللہ کا خالق ہونا ثابت ہوا ۔ اس سے موثر کائنات کے وجود کی علت اور کیا ہو سکتی ہے ؟
نمبر 4 : آخری علت : Final Cause
آخری وجہ کسی چیز کا مقصد یا کام۔ مثال کے طور پر، ایک میز کا مقصد اشیاء کی حمایت ہے یعنی اس پر اشیاء رکھ کر ان کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ اور یہ اس کی حتمی علت ہے ۔
اس کائنات کی حتمی علت بھی اللہ نے قرآن میں ارشاد فرما دیا ۔۔۔
الَّذِیۡ خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡغَفُوۡرُ (الملک)
جس نے موت اور حیات کو اس لئے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں اچھے کام کون کرتا ہے ، اور وہ غالب ( اور ) بخشنے والا ہے ۔
وَمَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَـهُمَا بَاطِلًا ۚ ذٰلِكَ ظَنُّ الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا ۚ فَوَيْلٌ لِّلَّـذِيْنَ كَفَرُوْا مِنَ النَّارِ (سورۃ ص)
اور ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان کے بیچ میں ہے بیکار تو پیدا نہیں کیا، یہ تو ان کا خیال ہے جو کافر ہیں، پھر کافروں کے لیے ہلاکت ہے جو آگ ہے۔
وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ(سورہ الذاریات)
میں نے جنات اور انسانوں کو محض اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں ۔
ارسطو کی علل اربع کے تحت اگر ہم یہ تسلیم کر لیں کہ کائنات کی ابتداء ہوئی تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ معدومیت بغیر خالق کے نقص ہے ۔ خالق کے پاس معدومیت کو وجودیت سے تبدیل کرنے کا اختیار ہے ۔ اس کی قدرت کاملہ ہے ۔ معودمیت کی کوئی صفات نہیں ہوتیں ۔ اور خالق صرف اس ذات کو کہا جاتا ہے جو قادر مطلق ہے اور اور اشیاء کو عدم سے وجود بخشتا ہے ۔ اس کے لئے اسے زمان و مکاں کی کوئی محتاجگی اور قید نہیں ۔ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ کائنات بغیر کسی وجہ کے نہیں بنی بلکہ اسکی حتمی علت " انسان اور زندگانی کی آزمائش " ہے ۔ جب تک ملحدین " پہلی علت " The First Cause Theory " یعنی نقطہ آغاز پر یقین نہیں لائیں گے ۔ تب تک وہ کسی خالق کے وجود تک نہیں پہنچ سکیں گے ۔ اور خالق کائنات کی معرفت کے لئے ٹھہرائو ضروری ہے ۔ ورنہ انسان Infinite Regress یعنی لا متناہی سلسلہ سوالات میں مبتلا ہو جائے گا ۔ اور خالق کی پہچان کی جستجو میں ہمیشہ شکوک و شبہات کے خطرناک صحرہ میں گم رہے گا ۔ اور کبھی بھی ہدایت کے راستے پر گامزن نہیں ہو سکے گا ۔
تبصرہ لکھیے