لاہور میں قرآن فہمی کے دو ٹھکانے ہوا کرتے تھے، مسجد دارالسلام باغ جناح اور چینیاں والی مسجد۔ ایک میں ڈاکٹر اسرار احمد تراویح کے بعد بیٹھتے اور اس دن کی تراویح میں پڑھے جانے والے قرآن کی تفسیر بیان کرتے، ان کے پراثر زورِ خطابت کا اثر تھا کہ نہ صرف مسجد بھر جاتی بلکہ لوگ باہر سڑک اور باغ میں بھی جمع ہو جاتے۔ ہم نے لوگوں کو کاغذ پینسل پکڑے نوٹس لیتے بھی دیکھ رکھا ھے۔ ڈاکٹر صاحب تفہیمِ قرآن کی یہ محفل مسلسل پورے رمضان سجایا کرتے تھے. بعدازاں یہ محفل باغ جناح سے ماڈل ٹاوؑن خدام القرآن اکیڈیمی منتقل ہو گئی۔
دوسری محفل علامہ احسان الہیٰ ظہیر رنگ محل کے قریب کوچہ چابک سواراں کی مسجد چینیاں والی میں سجاتے تھے۔ یہ تاریخی مسجد اورنگزیب عالمگیر کے دور میں تعمیر ہوئی تھی۔ علامہ صاحب اہلحدیث مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ خود حافظ قرآن تھے اس لئے تراویح بھی خود پڑھایا کرتے تھے۔ ان کی تراویح میں سینکڑوں لوگ شریک ہوتے لیکن تفسیرِ قرآن کی محفل میں یہ تعداد ہزاروں تک جا پہنچتی۔ قرآن فہمی کا ذوق شوق لہوریوں میں ایسا رچا بسا تھا کہ بریلوی دیوبندی حتٰیکہ شیعہ خواتین و حضرات بھی دیگر مساجد میں تراویح پڑھنے کے بعد علامہ صاحب کی تفسیر سننے چینیاں والی مسجد پہنچ جاتے۔ کئی مرتبہ تو یہ محفل سحری تک جاری رہتی۔ 23 مارچ 1988ء کو قلعہ لچھمن سنگھ میں علامہ صاحب کے جلسے کے اسٹیج پر رکھے گلدستے میں ایک بم پھٹا اور کئی شہری شہید و زخمی ہو گئے۔ علامہ صاحب شدید بھی شدید زخمی ہوئے۔ اس وقت کے سعودی بادشاہ شاہ فہد بن عبدالعزیز نے ایئر ایمبولنس بھیج کر علامہ صاحب کو ریاض کے شاہی ہسپتال منتقل کروا لیا، لیکن ڈاکٹرز کی بھرپور کوشش کے باوجود وہ 30 مارچ کو خالق حقیقی سے جا ملے۔
قرآن فہمی کے یہ دونوں مراکز شہر کے عین وسط میں موجود تھے اور شہر ابھی نہر یا دریا کے دوسری طرف پھیلنا شروع نہ ہوا تھا۔ قرآن سیکھنے کے شوقین خواتین و حضرات بعدازاں کئی محافلِ قرآن میں آتے جاتے رھے لیکن پہلے سی رونق کہیں کم کم ہی نظر آئی۔
آج کل تو ڈاکٹر اسرار احمد اور علامہ احسان الہیٰ ظہیر جیسی قدآور شخصیات کہیں نظر نہیں آتیں اور نہ عوام گھروں سے نکل ایسی محافل تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔ ہمارے ہاتھوں میں پکڑا یہ سیلفون ہمیں دنیا جہاں میں گھمائے پھرتا ہے۔ لوگ یوٹیوب پر کبھی انجنیئر محمد علی مرزا سے قیصر راجہ، پروفیسر خاور بٹ اور مفتی مسعود تک پہنچتے ہیں، تو کبھی ذاکر نائیک، مولانا طارق جمیل، الیاس قادری سے ڈاکٹر طاہرالقادری تک ۔۔۔ اس ڈیجیٹل میڈیا کے الگورتھم نے ہمارا مافی الضمیر ، ہمارا inner پڑھ لیا ہے اور ہمارے ذوق کا کانٹنٹ مسلسل ہماری سکرین پر پیش کرتا رہتا ہے۔ نتیجتاً ہم ساون کے اندھے کی طرح "یک رُخے پن" کا ایسا شکار ہوئے ہیں کہ ہمیں دیگر سب باطل دکھائی دینے لگا ہے. رہی سہی کسر ہمارے رمضان ٹرانسمشن والے اداکاروں، فنکاروں اور صحافیوں نے پوری کر دی ہے۔
اس پس منظر میں اگر فہم قرآن کی کوئی فزیکل محفل بھلے شادی ہالز میں ہی چل رہی ہو اور مسالک سے بالاتر دین سمجھانے کی کوئی کوشش ہو رہی ہو تو اس کی تحسین کی جانی چاہیئے۔ عوام کا ذوق شوق ڈیجیٹل میڈیا نے قدرے بدل دیا ھے۔ اگر ہمارے مدرسین خواتین حضرات عوامی threshold کو جانچ کر اپنا کانٹنٹ تیار کر سکیں اور اسے پیش کرنے کا بہتر ڈھنگ اختیار کر سکیں تو 80 کی دہائی والا قرآن فہمی کا ماحول یا کم از کم اس کا عکس پھر سے پیدا ہو سکتا ہے۔ قرآن کے پیغام سے دلوں کو منور کرنے کی خواہش رکھنے والے ہمدردانِ اُمت کو موجودہ ابلاغی paradigm shift (اور پڑھے لکھے نوجوان لڑکے لڑکیوں کے سوالات و ابہام کی شکل) سمجھ کر ہی آگے بڑھنا ہو گا۔
تبصرہ لکھیے