ہوم << قوموں کی تقدیر کا راز: مائدہ یا معاہدہ؟ عاطف ہاشمی

قوموں کی تقدیر کا راز: مائدہ یا معاہدہ؟ عاطف ہاشمی

"مائدہ" کا لفظ عربی میں "کھانے کی میز" یا "دستر خوان" کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، اس سورت کا مرکزی پیغام معاہدوں کی پاسداری اور ان کے نتائج سے متعلق ہے تو پھر لفظ مائدہ کی معاہدہ سے کیا نسبت؟ دراصل اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے مختلف اصول و قوانین بیان کیے ہیں، جن میں سب سے اہم معاہدوں کی اہمیت اور ان کی خلاف ورزی کے نتائج ہیں۔ یہ معاہدے تین اہم سطحوں پر کیے جاتے ہیں:
1: اللہ کے ساتھ،
2: اپنے نفس کے ساتھ،
3: اور معاشرتی سطح پر دوسرے انسانوں کے ساتھ۔

جب ایک فرد یا قوم اپنے معاہدوں کو پورا کرتی ہے، تو اس کے لیے عزت، کامیابی اور استحکام کی راہیں کھلتی ہیں۔ لیکن جب یہ معاہدے توڑے جاتے ہیں، تو ان کے نتائج تباہی اور ذلت کی صورت میں نکلتے ہیں۔ سورہ مائدہ میں بیان کیے گئے اصول ہمیں بتاتے ہیں کہ معاہدوں کی پاسداری ہی انسانیت کی فلاح اور ترقی کی بنیاد ہے۔ اس مضمون میں ہم سورہ مائدہ کی روشنی میں قوموں کے عروج و زوال کا جائزہ لیں گے اور دیکھیں گے کہ "مائدہ" اور "معاہدہ" میں سے کس کا انتخاب قوموں کی تقدیر کا فیصلہ کرتا ہے۔

1. اللہ کے ساتھ معاہدہ:
سب سے پہلا اور اہم ترین معاہدہ وہ ہے جو بندہ اپنے رب کے ساتھ کرتا ہے۔ جب کوئی شخص ایمان قبول کرتا ہے، تو وہ اس بات کا عہد کرتا ہے کہ وہ صرف اللہ کی بندگی کرے گا، اس کے احکام پر عمل کرے گا، اور اس کے دین میں کوئی تحریف نہیں کرے گا۔ اسی معاہدے کی بنیاد پر قرآن نے حلال و حرام کے اصول واضح کیے تاکہ مومن کی زندگی اطاعت کی روش پر استوار ہو، چنانچہ سورت کا آغاز ہی معاہدوں کی پاسداری کے حکم سے ہوتا ہے.
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ" (المائدہ 5:1) "اے ایمان والو! عہدوں کو پورا کرو۔"
پھر اللہ نے ان احکام کی تفصیل بیان کی، جیسے کہ کھانے پینے کی حدود (آیت 3)، اہل کتاب سے نکاح کے احکام (آیت 5)، اور شکار کے مسائل، تاکہ بندہ اپنی روزمرہ زندگی میں اللہ کے احکام کو فوقیت دے۔ جو اللہ کے مقرر کردہ قوانین کو پس پشت ڈال دیتا ہے، وہ دراصل اپنے عہد کو توڑ دیتا ہے، اور ایسے ہی لوگوں کے بارے میں فرمایا گیا:
"وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ" (المائدہ 5:47) "جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہی فاسق ہیں۔"

2. نفس کے ساتھ معاہدہ:
انسانی زندگی کا دوسرا اہم ترین معاہدہ وہ ہے جو ہر شخص اپنی ذات کے ساتھ کرتا ہے۔ یہ معاہدہ تقویٰ، دیانت، اور عدل پر مبنی ہے۔ جب ایک شخص اپنے ضمیر کے خلاف جاتا ہے، سچائی کے بجائے جھوٹ کو اپناتا ہے، اور خواہشات کی پیروی میں عدل کا دامن چھوڑ دیتا ہے، تو وہ دراصل اپنی روح سے کیے گئے معاہدے کو توڑ رہا ہوتا ہے۔ اسی لیے قرآن تاکید کرتا ہے:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا" (المائدہ 5:8) "اے ایمان والو! اللہ کے لیے قائم رہو اور انصاف کی گواہی دو، اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں انصاف سے نہ ہٹا دے۔"
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ عدل اور سچائی کا دامن چھوڑنا درحقیقت اپنے نفس سے کیے گئے عہد کی خلاف ورزی ہے۔

3. معاشرتی معاہدہ:
معاشرتی معاہدہ وہ اصول ہے جس پر ایک صالح اور پائیدار معاشرہ قائم ہوتا ہے۔ سورہ مائدہ میں قابیل کے واقعہ میں قتلِ ناحق کے بارے میں جو اصول بیان ہوا، وہ اس معاہدے کی سب سے بڑی مثال ہے۔
"مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا" (المائدہ 5:32) "جس نے ایک جان کو ناحق قتل کیا، گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کر دیا۔"
یہ اصول ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انسانی جان کی حرمت کا پاس رکھنا ہی معاشرتی امن کی بنیاد ہے۔

حکمرانوں کے وعدے اور عہد شکنی
قرآن ہمیں بنی اسرائیل کی تاریخ سے بھی یہی سبق دیتا ہے۔ یہ وہ قوم تھی جسے نبوت، خلافت، اور شریعت کی نعمتیں عطا کی گئیں، مگر جب انہوں نے بار بار اپنے عہد توڑے، تو ذلت ان کا مقدر بنی۔ ان کے نافرمانی کے رویے کو بیان کر کے سورہ مائدہ ہمیں متنبہ کرتی ہے:
"وَلَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ... فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَٰقَهُمْ لَعَنَّٰهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَٰسِيَةً" (المائدہ 5:12-13) "اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا... مگر انہوں نے اس عہد کو توڑ دیا، تو ہم نے ان کے دل سخت کر دیے۔"

آج مسلم دنیا میں بھی حکمرانوں اور سیاست دانوں کی وعدہ خلافی اور حلف کی خلاف ورزی ایک عام مسئلہ بن چکا ہے۔ عوام سے کیے گئے وعدے، انتخابی منشور، اور حکمرانی کا حلف سبھی معاہدات کی شکل رکھتے ہیں۔ جب یہ لوگ اپنے وعدوں کو پورا نہیں کرتے، تو ان کے زوال کا آغاز ہو جاتا ہے۔
یہی وہ نکتہ ہے جو مغربی ممالک کو ترقی کی راہ پر لے گیا۔ اگرچہ وہاں کئی برائیاں موجود ہیں، مگر وعدوں کی پاسداری ان کی کامیابی کا راز ہے۔ وہاں اگر کوئی حکمران عوام سے کیے گئے وعدے نبھانے میں ناکام ہو جائے، تو اکثر وہ خود ہی مستعفی ہو جاتا ہے۔ جبکہ مسلم ممالک میں وعدہ خلافی، کرپشن، اور اقربا پروری عام ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے بداعتمادی اور انتشار پیدا ہو چکا ہے۔

قرآن کی روشنی میں عہد شکنی کی سزا
سورہ مائدہ میں حضرت عیسیٰؑ اور ان کے حواریوں کا واقعہ بیان ہوا ہے، جب انہوں نے اللہ سے آسمانی خوان (مائدہ) کے نزول کی درخواست کی۔ اللہ نے یہ معجزہ تو عطا کر دیا، مگر ساتھ یہ بھی فرما دیا:
"فَمَن يَكْفُرْ بَعْدُ مِنكُمْ فَإِنِّي أُعَذِّبُهُ عَذَابًا لَّا أُعَذِّبُهُ أَحَدًا مِّنَ ٱلْعَٰلَمِينَ" (المائدہ 5:115) "جو بھی اس کے بعد ناشکری کرے گا، میں اسے ایسا عذاب دوں گا جو کسی اور کو نہ دوں گا۔"
یہ آیت حلف کی پاسداری نہ کرنے والی قوموں کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے، یہ ہمیں سکھاتی ہے کہ اللہ کی نعمتیں آزمائش کے ساتھ آتی ہیں، اور جو قومیں ان نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتیں اور اپنے معاہدے توڑ دیتی ہیں، وہ لازمی طور پر سزا کی مستحق بنتی ہیں۔ سورہ مائدہ میں جہاں کھانے پینے کی حلال و حرام حدود بیان کی گئی ہیں، وہیں عہد و پیمان کی پاسداری کو بنیادی حیثیت دی گئی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو آسمانی مائدہ (دستر خوان) کے نزول کا واقعہ بھی اسی تناظر میں آتا ہے.

یہ گویا ایک علامتی پیغام ہے کہ اگر قومیں محض مادی آسائشوں اور کھانے پینے کی بہتات پر توجہ مرکوز رکھیں، لیکن اخلاقی و سماجی معاہدوں کو توڑتی رہیں، تو وہ ایسے زوال سے دوچار ہوں گی جو تاریخ میں کسی نے نہ دیکھا ہو۔ یہی اصول بنی اسرائیل کے حوالے سے بھی بیان کیا گیا، جنہیں بے شمار نعمتیں ملیں، مگر جب انہوں نے مسلسل عہد شکنی کی، تو ذلت ان کا مقدر بن گئی۔

آج کے دور میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ وہ معاشرے جو وعدوں، معاہدوں اور اخلاقی اصولوں کی پاسداری نہیں کرتے، وہ داخلی اور خارجی بحرانوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ محض معیشت اور آسائشوں کو ترقی کا معیار سمجھنا، اور دیانت، عدل اور عہد کی پاسداری کو پس پشت ڈال دینا، تباہی کا راستہ ہموار کرتا ہے۔ سورہ مائدہ ہمیں یہی سبق دیتی ہے (جس کا ہم عملی طور پر مشاہدہ بھی کر رہے ہیں) کہ اگر ترقی اور استحکام چاہتے ہو، تو اپنی قوم اور اپنے آئین کے ساتھ کیے گیے معاہدوں کو پورا کرنا لازم ہے، ورنہ محض معاشی ترقی کسی قوم کو نہیں بچا سکتی۔
دل کی آزادی شہنشاہی شکم سامان موت
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم

Comments

عاطف ہاشمی

عاطف ہاشمی قطر میں مقیم محقق اور مترجم ہیں، سپریم جوڈیشل کونسل قطر میں ترجمانی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں. اسلامی و سماجی علوم، عربی ادب اور ترجمہ دلچسپی کے موضوعات ہیں۔ کتاب "تیس نشستیں: قرآن کریم کے ساتھ" قرآن کے موضوعات میں باہمی ربط کے حوالے سے ایک اہم تصنیف ہے، جو پاکستان کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بھی شائع ہو چکی ہے۔

Click here to post a comment