السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
یقینا اس وقت آپ کا مکمل خاندان سوگ میں ڈوبا ہوا اور انتہائی غمزدہ ہے۔ آپ کے سپوت اور چشم و چراغ کا اچانک دنیائے فانی سے چلے جانا بہت ہی کربناک ہے۔ مرد و زن، جواں و بوڑھے سب کے سب کبیدہ خاطر ہے۔ اشکوں کا سیل رواں رخساروں پر جاری ہے۔ یہ تمام مناظر ہم نے کراچی میں موبائل کی اسکرین پر دیکھے تو بےساخہ آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔
جناب! بڑی خواہش تھی کہ جنازے میں شرکت کریں لیکن بشری مجبوریوں نے قدم ہلنے کا موقع نہ دیا۔ لیکن ہزاروں میل کی مسافت پر بھی آپ کے غم میں برابر کے شریک ہیں اور مستقل آپ کے صبر و ہمت کےلیے دعاگو بھی ہیں۔
جناب من! آپ کے خاندان کی قربانیاں تاریخ میں امر ہے۔ آپ کی دین دوستی اور غیرت و حمیت بھی دنیا پر عیاں ہے۔ جس کا منہ بولتا ثبوت یہ ہےکہ اس وقت چوتھی نسل علمی چمنستان کی سیرابی کےلیے میدان عمل میں ہے۔ آپ کی علمی، عملی، سیاسی اور ج ہادی کاوشوں کی بدولت دنیا بھر میں اپ کے خاندان اور ادارے کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ اسی لیے دنیا بھر میں آپ کے معتقدین اور محبین کی تعداد روز افزوں ہے۔ خیبرپختونخوا میں خصوصا اپ کے خاندان اور ادارے کو انتہائی عظمت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ علمی وجاہت اور مضبوط تعلیمی معیار کے حامل اداروں کے سربراہان بھی اپ کے سامنے سر جھکا لیتے ہیں۔
جناب من! جہاد افغان میں آپ کے کردار کو نہ صرف علماء کے طبقے میں سراہا جاتا ہے بلکہ ملک و بیرون ملک کے سیاسی، سماجی، اقتصادی اور دنیاوی طبقہ بھی آپ کی ان مبارک خدمات کا معترف ہے۔ یہی وجہ ہےکہ آپ روز اول سے طاغوتی قوتوں کی آنکھوں میں خار بنے ہیں۔ جس کا خمیازہ لاشوں کی صورت میں آج تک بھگت رہے ہیں۔
جناب من! آپ کی ہمت کی داد اس لیے بنتی ہے کہ خدمات کی بدولت آپ کو لاشوں کے تحفے ملے۔ ادارے پر ہر دور میں سیاسی دباؤ ڈال کر سیل کرنے کی ناکام کوششیں کی گئیں لیکن آپ اپنے مشن میں جواں رہے نہ جھکے اور نہ بکے بلکہ حالات کا مقابلہ جواں مردی سے کرتے رہے۔آپ کی جرات و بہادری کی یہ لازوال داستان تحریری مراحل کی منتظر ہے۔ جس پر کئی جلدوں پر مشتمل ایک تحریکی تصنیف منظر عام پر آسکتی ہے۔
جناب من! مجھے ایک گلہ ضرور کرنا ہے لیکن اس گلے کو غم کے بادل چٹنے تک مؤخر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ کیونکہ غم کے لمحات میں گلہ نہیں کیا جاتا بلکہ غم خواری کی جاتی ہے۔ یہی اصول معاشرت اور تہذیب مشرقی ہے۔ مجھے غم کے اس دورانیے میں ایک بات کا بڑا احساس ہوا جس کی وجہ سے مجھ پر پژمردگی چھا گئی۔ سوچا کہ اس بات کو بھی تاخیری اوراق میں درج کردوں لیکن شاید اس وقت تک بہت سارا پانی پل کے نیچے سے گزر گیا ہوگا پھر تحریر کا کوئی فائدہ نہیں رہےگا۔ اس لیے ایک کھلا خط اپ کے نام اپلوڈ کررہا ہوں۔
جناب من! جس بات کو شدت سے محسوس کیاگیا وہ یہ تھی کہ جس طرح حقانی خاندان ادارے کے نظم و نسق اور علمی آبیاری میں ایک ہی پیج پر ہے۔ ہر اعتبار سے چھوٹے بڑوں کی رائے اور اشاروں کے پابند ہے لیکن وہ میڈیا کے سامنے کھڑے ہونے اور یوٹیوبرز کو بیان ریکارڈ کرنے میں سب کے سب متفرق و منتشر نظر آئے۔ عموما یہ مشاہد و تجربہ ہے کہ مؤقر اداروں میں کسی خاص واقعے اور موضوع پر میڈیا بیان ریکارڈ کرنے اور اپنا خاص مؤقف پیش کرنے کےلئے کوئی خاص فرد مقرر ہوتا ہے جو ادارے کی ترجمانی کرتاہے اسی طرح مشھور و معزز خاندان کا ترجمان بھی موجودہ دور کی ضرورت ہے۔ جس سے خاندان کی وجاہت، شائستگی، اتحاد و یگانگت برقرار رہتی ہے۔ اگر خاندان کا ہر فرد ایرے غیرے مائیک بردار کے سامنے کھڑا ہوجائے تو خاندانی شرافت اور معاشرے پر جو رعب ہے وہ جاتا رہتا ہے۔ اس سےبدمزگی پیدا ہوتی ہےاور خاندانی وجاہت بھی جاتی رہتی ہے۔
جناب من! آپ کو اچھی طرح معلوم ہےکہ یوٹیوبرز کو واقعات و سانحات سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا اور نہ ان کی کوئی دلچسپی یا درد دل نظر آتا ہے بلکہ ان کو ویوز اور فالورز کی بڑھوتری عزیز ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ متاثر غمزدہ خاندان کے مختلف افراد کو مختلف مقامات پر گھیر کر کچھ نہ کچھ اگلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب لوکل میڈیا پرسنز کو اپ کے بابت یہ کمزوری نظر آئی تو وہ غول کے غول بڑے دھڑلے سے جامعہ آنا شروع ہوگئے۔ مجھے معلوم ہےکہ اداروں کی ترجمانی کرنے ایک خاص فرد مقرر ہوتاہے اسی طرح میڈیا پر خاندان کی ترجمانی کےلیے بھی کسی قابل شخص کا انتخاب ازحد ضروری ہے۔ تاکہ ہر ایرا غیرا مائیک اور کیمرہ تھامے حقانیہ کے مبارک چمنستان میں قدم رنجائی کی زحمت سے گریز کرے۔
جناب من! حقانیہ دنیا بھر میں ایک امتیازی مقام رکھتا ہے جو یہود و ہنود کے ساتھ ملک پاک کے دین دشمنوں کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے۔ اس کی حیثیت گلی کوچوں میں قائم کسی مکتب یا مدرسے کی نہیں بلکہ یہ تو شھرہ آفاق اہمیت کا حامل ادارہ ہے۔ اس لیے حقانی خاندان اپنی وجاہت اور ادارے کی عظمت کو سامنے رکھتے ہوئے لوکل میڈیا پرسن کے داخلے پر فی الفور پابندی عائد کریں اور یوٹیوب چینلز کو انٹرویو دینے سے بھی گریز کریں۔ اسی طرح جامعہ کے تمام عملے، طلبہ اور خاندانی افراد کو بھی سختی سے پابند کیا جائے کہ وہ کسی بھی چینل کو دفتری اجازت کے بغیر بیان نہ دیں۔ بلکہ ان سے کہہ دیا جائے کہ ادارے کے فلاں فرد سے رابطہ کیا جائے۔ ہاں! کوئی ملکی یا غیر ملکی چینل کا کوئی نمائندہ رابطہ کریں تو خاندان کا منتخب فرد ضرور پیغام ریکارڈ کریں۔
جناب من! نائب مہتمم جامعہ جناب مولانا حامد الحق صاحب کی شہا دت کے موقع پر جس طرح یوٹیوبرز نے ادارے پر ہلہ بولا اور خاندان کا جو فرد جہاں ملا تو کچھ نہ کچھ اس سے کرید کر چینل پر اپ لوڈ کردیا۔ میری نظر میں اس سے خاندان کی قدر و منزلت مجروح ہوئی۔اب اس کا نقصان یہ ہوا کہ ان لوکل میڈیا پرسنز کی ہمت بڑھ گئی اور اب وہ آئے دن کسی نہ کسی موضوع کو لیکر حاضری دینا شروع کریں گے۔جس سے حقانیہ کا سنجیدہ ماحول و فضا متاثر ہوں گے۔ کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ بات جب اسکرین پر عالمی ادارے کی آئیگی اور حقانی خاندان کا کوئی سپوت ہمارے کیمرے میں محفوظ ہوگا تو دیکھنے والے بھی بےتحاشا ہوں گے جس سے چینل کا حجم بڑھے گا اور بینک اکاؤنٹ کی مالیت میں اضافہ ہوگا۔
ایک بار پھر گزارش ہےکہ تمام لوکل میڈیا پرسنز پر جامعہ میں داخلے پر مکمل پابندی عائد کی جائے اور حقانی خاندان کے افراد کی ایک مشاورت بلائی جائے جس میں جواں اور بوڑھے سب شریک ہوں ان کے سامنے بھی میڈیا کو بیان نہ دینے کی سختی سے تاکید کی جائے۔ ایک پریس ریلیز جامعہ کے آفیشل پیج پر بھی چسپا کیا جائے جس میں میڈیا کے داخلے پر پابندی اور خاندان یا جامعہ کے میڈیا ترجمان کا نام بھی شامل ہو۔ اسی طرح جامعہ کے مین گیٹ پر بھی اعلان لگایا دیا جائے کہ میڈیا پرسنز کی تحریر اجازت کے بغیر کیمرہ و مائیک سمیت داخلے پر پابندی ہے۔ حقانی خاندان کا لیول ان لوکل میڈیا پرسنز کے لیول سے کافی اونچا ہے۔ جس کا لاج ضروری ہے۔ بہت شکریہ
اگر اس خط میں کوئی بات بری لگی یا اپ کی شان سے کم تر الفاظ ضبط تحریر میں آئے تو اس کےلیے میں دلی طور پر معذرت خواہ ہوں۔
والسلام
فضل بن فضل
(یہ میری ذاتی رائے ہے۔ احباب کھل کر اختلاف کرسکتے ہیں۔)
تبصرہ لکھیے