یہ تو ہم سبھی جانتے ہیں کہ پاکستان میں بے روزگاری کا جن قابو میں نہیں آتا ۔ ماضی سے بے قابو ہوا جن اب تو اور زیادہ بے قابو ہو گیا ہے، جس کا حل اور دوا دارو کسی کے پاس نہیں ہے ۔ سیاست دان اپنی مستیوں میں مگن ہیں۔ ان کو فکر ہے تو بس اپنے اقتدار اور کرسی کی اس سے زیادہ سوچنا ہمارے سیاست دانوں نے کبھی گوارا نہیں کیا۔ ہر طرف سے کچوکے کھاتی ، لولی لنگڑی معیشت ہر گزرتے وقت کے ساتھ دگرگوں ہورہی ہے کہیں بھی بہتری اور آگے جا کر کسی کرشمے کی بھی توقع کرنا فی الحال تو قرین عقل نہیں ہوگا۔ باقی خلا میں محلات اور جادو کی چھڑی گھما کر انہونیاں کرنے والے اب بھی اپنی بے تکی باتوں اور بلا کسی معروضی حقیقت کو جانے، پاکستان میں بہت کچھ ہونے کا عندیہ دیتے ہیں. سر دست اپنی پریس کانفرنسز اور تقاریر میں پیش کرنے لیے ان کے پاس اکثر ملکی معدنیات اور وسائل ہیں ، جو ملک کے کونے کھدروں میں دفن ہیں۔ ان کو نکالنے کے بعد قابل استفادہ کرنے تک کا مرحلہ اتنا آسان اور سہل نہیں کہ ہر ایک سیاست دان اس پر اپنی سیاست و سیادت چمکا کر قوم کو دھوکہ دے رہا ہے ۔
ہماری بد قسمتی کہہ لیں یا مقدر ، مقدر کہنا بھی چنداں برا نہیں کیوں کہ ہماری ساری قوم مقدر اور قوم پہ مسلط لوگوں، ان کی وجہ سے آئیں مشکلات کو خدا کی طرف سے عذاب اور امتحان جیسی تعبیرات سے یاد کرتی ہے، سو جو ابتری اور بد حالی ہمارے گردو پیش میں نظر آتی ہے، اس میں ہمارا اپنا بطور شہری کے بھی حصہ اور کردار ہے، تبھی ایسے لوگ ہمارے سروں پہ آجاتے ہیں جو صرف اپنی پیٹ پوجا کرنے آتے ہیں، اور اپنی نسلوں کے لیے ملک کے خزانے کو لوٹ کھسوٹ کر باہر کسی اور ملک میں باقی ماندہ زندگی گزارنا جن کا مقصد ہوتا ہے ۔ شروع دن سے ملک کے حالات ایسے بنادیے گئے جس سے ملک کا مستقبل تاریک ہونا شروع ہوا؛ سول اور عسکری قیادت کا کرسی کے لیے ملک کے قانون کو تاراج کرنا، ایک دوسرے کو نیچا دکھانا ، مجرم ثابت کرنا اور اقتدار ہتھیانے کے لیے ملک کی اعلی عدلیہ کو تختہ مشق بنانا عام سی بات تھی. اب بھی یہی کھیل رواں ہے۔ بس چہرے مہرے بدل گئے، تاہم کہانی وہی جاری ہے ، عوام کا استحصال ہورہا ہے. اب ایسے حالات میں ہجرت ہی ہوگی، لوگ ملک سے باہر جانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے ۔ جہاں روزگار ناپید، سرکاری نوکریوں کے لیے بڑوں کے آگے جی حضوری، اور اثر و رسوخ کا رولا اس پر مستزاد ۔ بتائیے کہ ایک باہنر اور لیاقت و صلاحیت سے بھر پور نوجوان کیسے ملک میں گزر بسر کرسکتا ہے. لامحالہ اس کو بہتر زندگی اور اپنے اہل و عیال کی دیکھ بھال کے لیے کوچ کرنا ہی پڑتا ہے ۔ یہی کچھ پچھلے کئی عشروں سے دیکھ رہے ہیں.
میڈیا ایسی ناگوار خبروں اور تجزیوں سے بھر ہوا ہوتاہے، جن کے مطابق ملک سے جانے والے ہر سال بڑھ رہے ہیں، ان میں ہوش ربا اضافہ ہورہا ہے، اور جن کے پاس باہر جانے کے لیے وسائل نہیں تو وہ بادل نخواستہ ایسی راہ اپناتے ہیں جو نہ فقط غیر قانونی ہے، بلکہ جان سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ متعدد ایسے واقعات ہوئے ہیں جس میں دسیوں افراد مع اہل و عیال سمندر کی نذر ہوگئے. غیر قانونی طور پر سرحد پار کرانے والے منظم دھندے سے منسلک افراد کے دھوکے میں آکر لاکھوں روپے دینے کے باوجود اپنی منزل پہ نہ پہنچ پائے۔ رواں سال فروری میں کشتی ڈوبنے کے باعث 47 میں 16 لوگ جان کی بازی ہار گئے. ان لوگوں نے تہیہ کیا ہوتا ہے کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے، کسی بھی طریقے کو بروئے کار لائیں مگر ہجرت کرنی ہے، ملک سے جانا ہے۔ ایسے کتنے سانحات ہوئے جس میں نہ جانے کتنے ہنر مند افراد ملک کی مخدوش معاشی صورت حال سے بد دل ہوکر ایجنٹس کے ہتھے لگے اور نہ صرف جمع پونجی کھو دی بلکہ اپنی زندگی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ سب کچھ تواتر سے ہورہا ہے.
ایسا نہیں کہ سرکار بے خبر ہے اور ان حادثات کی اطلاعات اس تک نہیں پہنچ پارہیں ، بالکل پہنچ بھی رہی ہیں اور ہمارے کرتا دھرتا خوب واقف بھی ہیں. تاہم وہ اس بات سے لاتعلق اپنے اقتدار کے مزے لے رہے ہیں. عوام کی حالت زار سے وہ قطعا پریشان نہیں ہیں. نہ انھیں اس بات کی کوئی فکر ہے کہ ہمارے بڑے دماغ اور باصلاحیت جوان ملک کو خیر باد کہہ رہے ہیں، اوربچے کھچے بھی اسی تگ و دو میں لگے ہیں کہ کسی طرح اس نظام سے خلاصی مل جائے. یہاں اپنے لیے روزگار کی تلاش اور بہتر معاشی صورتحال کا امکان نہیں، نیز ایک مستحکم سیاسی ماحول محال ہے، اس لیے اپنے تیئں جو کچھ ہو سکے، ملک سے باہر جانے میں،وہ کوششیں ضرور کریں۔ یہ کسی بھی ملک کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہوتا ہے کہ نوجوان اور باہنر افراد معاشی بہتری کے حصول کے لیے اپنے ملک کے بجائے دوسروں ملکوں میں اپنی خدمات دینے کو ترجیح دیں اور ان کی پوری کوشش یہ ہو کہ کسی نہ کسی طرح ملک سے باہر جانے کے اسباب فراہم ہوں ۔ کہتے ہیں کہ سب سے اچھی جگہ وہ ہے جہاں آپ کو ہر طرح کا تحفظ میسر ہو ،کسی طرح کے عدم تحفظ کی کیفیت نہ بنے، وہی جگہ جائے سکونت بنتی ہے اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ اس طرف لپکتے ہیں جہاں معاشی تنگدستی اور دیگر تحفظات نہ ہوں، سب کی اولین کوشش ہوتی ہے کہ اپنے اہل و عیال کے ہمراہ وہاں بس جائیں۔ شہریوں کو ہر ممکن طریقے سے تمام سہولیات بہم پہنچانا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے، مگر ہمارے ملک میں حکومت کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے. سب دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں کیا کچھ ہورہا ہے، ملک چھوڑنے اور باہر روزگار کی تلاش کے لیے، لوگ تمام تر زور اسی پہ لگارہے ہیں کہ یہاں سے چھٹکارا ملے، اور زندگی کی بنیادی ضرورتوں کے لیے دیار غیر کو منتخب کر لیں۔
جب تک ملک میں سیاسی ابتری ختم نہیں ہوگی، ایک پائیدار سیاسی نظام نہیں بنے گا، معیشت اور دیگر امور ہچکولے ہی لیتے رہیں گے. ایسے حالات اور ایسے معاشرے میں جہاں پہ سیاست دان صرف اپنے مفادات کے اسیر بنے رہیں، عوام ان کے رحم و کرم پہ اپنا روز و شب کڑھتے ہوئے بسر کریں، ہجرتیں ناگزیر ہوتی رہیں گی۔ دیکھنا چاہیے کہ ہمارا نوجوان کس حد تک نظام حکومت اور سیاسی معاملات سے مطمئن ہے. جہاں پہ سیاست صرف مال و دولت بنانے کا ذریعہ بن جائے، حکومتوں کا آنا جانا عوام کے ہاتھ میں نہ ہو بلکہ کسی نادیدہ قوت کے پاس ہو، اور جب چاہے یہ عوامی حکومت جیسے تیسے بھی بنتی ہو ، اس کو چلتا کردیا جاتا ہو. تو سوچیے کہ ایسے ناقابل یقین اور لولی لنگڑی حکومت اور گورننس کے اوپر کس طرح ایک باہنر اور تعلیم یافتہ جوان بھروسہ کرے گا؟ اور سمجھے گا کہ میرا مستقبل اس نظام کے ساتھ محفوظ ہے. ظاہر ہے ایسے نظام کو دیکھ کر یہی گمان ہوگا کہ کسی نہ کسی طریقے سے اس نظام سے نکلا جائے ،جہاں نہ ہنر کی کچھ وقعت و قدرانی ہے نہ معاشی پہیے کو چلانے کے لیے اس میں کچھ موقع ہے. اس لیےنوجوانوں کا باہر کی طرف دھیان جاتا ہے جو کہ فی الوقت درست اور عین عقل فیصلہ ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے حکمران ہوش کے ناخن لیں ، ملک کی ابتری اور قرضوں پہ چل رہی معیشت کو سدھارنے کے لیے طویل المدتی منصوبے بنائیں۔ سیاسی افراتفری کم کریں. تمام سیاست دان اس بات کو پلے باندھ لیں کہ جب تک نوجوان ہیں، ملک آگے بڑھے گا ، ترقی و پیش رفت کا یہی ذریعہ ہیں، ان کے سوا ملک اپاہچ ہوجائے گا ، اور قرضوں کے بوجھ تلے دب کر کہیں کا نہیں رہے گا ۔ اس لیے از بس ضروری ہے ملک کے چلانے والے صاحبان اقتدار ، عدلیہ اور دیگر شعبہ جات سے وابستہ لوگ ایسے اقدامات کریں اور ایسا ماحول بنائیں جس سے ملک کی معیشت کسی ڈگر پہ چلنے کے قابل ہو. نوجوانوں کو اعتماد دلانے کے لیے ایسے مواقع فراہم کیے جائیں جس سے نہ صرف ان کے معاشی پہلو کی بہتری کا امکان بنے، بلکہ نوجوان ہی کو محور و مرکز قرار دے کریہ ذمہ داری اور ہدف دیا جائے کہ اب تم ہی ملک کے والی و وارث ہو سو اس کی بہتری اور ایک تابناک مستقبل کے لیے اپنی تمام تر کاوشیں اور صلاحیتیں صرف کرو . پورا نظام تمہارے ساتھ ہوگا اور ہر موڑ پہ مدد و تعاون ملے گا. آؤ اور اس ملک کو دوسری اقوام کے ساتھ ساتھ چلنے کے قابل بناؤ . جب ایسا ماحول اور موقع ملے گا تو نوجوان دل و جان سے اس ملک کی خدمت کرے گا، ملک پھر ترقی کی راہیں ہی دیکھے گا اور ہجرتیں خودبخود رک جائیں گی۔ مکرر عرض ہے ملک کا نوجوان کچھ کرنا چاہتا ہے، ملک کو ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا کرنا اس کی اولین خواہش ہے، لیکن مطلوبہ وسائل ملیں تو. ملک کے ذمہ داران ان کے لیے بھی کچھ سوچیں اور انھیںملک کی ترقی اور خوشحالی کا زینہ سمجھیں، پھر یہ ناگفتہ حالات بدلیں گے .
تبصرہ لکھیے