ہوم << دین کا مقدمہ، سائنسی تعبیرات پر اعتماد ،چند بنیادی مغالطے - ڈاکٹر حسیب احمد خان

دین کا مقدمہ، سائنسی تعبیرات پر اعتماد ،چند بنیادی مغالطے - ڈاکٹر حسیب احمد خان

سائنس پرستی کے عفریت نے عالم اسلام کو آج اپنی گرفت میں لے لیا ہے ایک طرف تو سرسید سے وحید الدین خان تک عقل پرست اور نیچرسٹ مسلم مفکرین نے مذہبی تعبیرات کو سائنس کے مطابق کرنے کی کوشش کی تو دوسری جانب سائنس کو حقائق کو جاننے کا واحد پیمانہ سمجھ لیا۔

اس موقف کو ثابت کرنے کیلیے یہ ایک بہت بڑا مغالطہ یہ پیدا کیا گیا کہ مسیحی تعلیمات سائنس کیخلاف تھیں اسلیے یورپ میں الحاد پھیلا اور مسلمانوں نے اسے من و عن قبول کرلیا جبکہ حقائق کچھ اور ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں یا مغرب میں آج بھی الحاد کے خلاف سب سے فعال مسیحی متکلمین ہیں اور وہ خالص کریشنسٹ ویو پوائنٹ سے ایوولوشنسٹ ملحدوں کا مقابلہ کررہے ہیں پچھلے پچاس سال میں وہاں سائنس پرست ملحدوں سے جتنے بھی بڑے مناظرے ہوئے وہ مسیحی متکلمین کے ہوئے ہیں۔ مغرب میں الحاد پھیلنے کی بہت سی سیاسی اور دیگر وجوہات تھیں ہاں مسیحیت کی کمزوری یہ نہیں ہے کہ وہ سائنس کے مقابل تھی بلکہ یہ ہے کہ مسیحیت کے بنیادی مصادر محفوظ نہیں ہیں۔ اسی لیے پہلے مسیحیت کو تجدد پسندی کی طرف مائل کیا گیا اور پھر غامدی ٹائپ مسیحیت متعارف کروائی گئی۔ اس سب کے باوجود آج بھی مغرب میں روایت پسند مسیحی ملحدوں سے تعداد میں زیادہ ہیں۔

دیکھیں پہلے بھی میں نے عرض کی اب کچھ اصولی نکات پیش کرتا ہوں مذہب اور لامذہبیت کا بنیادی اختلاف طبیعیات اور مابعد الطبیعیات کا اختلاف ہے خاص کر دور جدید کے مادیت پرستانہ الحاد اور مذہب کا بنیادی اختلاف یہی ہے۔ اب خدا کے وجود ، فرشتے ، جنات ، جنت و جہنم ، عذاب قبر ، معجزات و کرامات ، وحی ، کشف و الہام اور اسی قبیل سے متعلق دیگر امور کہ جن کی بابت قرآن کریم یا احادیث مبارکہ میں مذکور ہے ان کے مابعدالطبیعیاتی معاملات ہم ان سب پر منصوص ہونے کی وجہ سے یقین رکھتے ہیں اور ہمیں ان کو ماننے کیلئے کسی بھی عقلی توجیہ کی ضرورت نہیں ہے۔ عصر حاضر کا عقل پرست یا مادیت پرست الحاد مابعدالطبیعیاتی امور یا مافوق الفطرت پر سرے سے یقین نہیں رکھتا مثال کے طور پر اس کی نگاہ میں روح کوئی شے نہیں انسان صرف ایک مادی وجود کا نام ہے کہ جو ارتقائی مراحل سے گزر کر موجودہ حالت تک پہنچا ہے یعنی ایک خلیے سے انسان تک۔

اب وہ خلیہ کہاں سے آیا آسمان سے اترا یا از خود وجود میں آگیا اس حوالے سے اس کے سامنے دو راستے ہیں۔ اول ان سب کی کوئی عقلی اور عقلی بھی وہ کہ جو موجودہ دور کے اصولوں کے مطابق ہو ، ایک ایسی توجیہ جسے معاصر عقل تسلیم کرے۔ دوم وہ تمام فنامناز جن کی کوئی عقلی توجیہ نہ ہو انہیں نامعلوم یعنی unknown قرار دیا جائے۔

مثال کے طور پر ہمارا ایک ملحد سے مکالمہ ہوتا ہے اور وہ ایک ارتقائی سائنس دان ہے ہم اس کے سامنے یہ دلیل رکھتے ہیں کہ دیکھو پہلا سیل ازخود وجود میں آگیا اب یہ کیسے آیا ہمیں نہیں معلوم تو اس کا سادہ سا جواب ہوگا کہ اسے نامعلوم کے کھاتے میں ڈال دیں ہو سکتا ہے کہ کبھی انسان کو یہ معلوم ہو جائے اب اس پر بہت سی تھیوریز پیش ہوں گی جیسے Extraterrestrial origin of species وغیرہ ۔۔
تو اس سب میں ہم یہ دعویٰ کریں کہ جناب وہ پہلا سیل خدا نے بنایا تھا تو وہ یہ دلیل کیوں تسلیم کرے گا ؟
ہم کسی بھی مادی یا سائنسی پیمانے پر یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ اولین خالق کوئی ان دیکھا خدا ہے۔
ہم صرف ایک ملحد کو اس پوزیشن پر لا سکتے ہیں کہ اولین تخلیق کیوں ہوئی اور کیسے ہوئی ہمیں اس کا علم نہیں۔
اب اگر گفتگو ایک مسلم اپالوجسٹ اور ایک غیر مسلم ملحد کے درمیان ہوتی ہے۔
فرض کریں مسلم اپالوجسٹ ایک ارتقائی سائنس دان ہے اور ملحد بھی ایک ارتقائی سائنس دان ہے۔
یا مسلم اپالوجسٹ ایک طبیعیات دان ہے اور سامنے ملحد بھی ایک طبیعیات دان ہے۔
اب بحث دو بڑے مسائل پر ہے نظریہ ارتقاء اور تصور خدا یا بگ بینگ اور تصور خدا۔
تو مسلم اپالوجسٹ اپنے مخالف کو وہ آخری پوزیشن جس تک لا سکتا ہے وہ پوزیشن لا ادریت یعنی agnostic پوزیشن ہے۔
وہ یہ کہے گا کہ دیکھو ہمیں origin of species یا بگ بینگ کے حقیقی کاز کا علم نہیں تو یہ پوزیشن اسے unknown تک لیجا سکتی ہے لیکن اس سے اوپر وہ اپنے مخالف سے تصور خدا نہیں منوا سکتا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جس فریم ورک میں ان کی بحث ہے اس کے پرنسپل کے طور پر انہوں نے سائنس کو حقائق جاننے کا واحد اصولی پیمانہ مان کر بحث کی ہے۔ اب جب سائنس حقائق جاننے کا واحد اصولی پیمانہ مقرر ہوئی اور جو کچھ بھی سائنس کے پیمانے ثابت نہیں ہوتا وہ یا تو غلط ہے یا پھر unknown ہے تو آپ براستہ سائنس کبھی خدا کے وجود کے اقرار تک نہیں پہنچ سکتے۔

اس سب کے بدلے میں ہوتا کیا ہے کہ ایک مسلم اپالوجسٹ تاویلات کرتا ہے کیونکہ وہ سائنس کو پیمانہ مان چکا ہے یا تو وہ دور اذکار غیر ثابت شدہ سائنسی تھیوریز سے اپنا موقف ثابت کرنے کی کوشش کرے گا اور لازماً یہ موقف رد ہو جائے گا یا پھر وہ نصوص کی تاویلات شروع کردے گا جیساکہ سرسید سے غامدی تک کی جاتی رہی ہیں۔ سائنس کو اصولی پیمانہ تسلیم کرنے کے بعد نصوص کی تاویل کے بغیر ان کے مابعدالطبیعیاتی امور کو ثابت کرنے کا کوئی راستہ باقی نہیں بچتا۔ مثال کے طور پر حدیث میں آتا ہے: واشتكت النار إلى ربها، فقالت: يا رب اكل بعضي بعضا، فاذن لها بنفسين نفس في الشتاء ونفس في الصيف، فهو اشد ما تجدون من الحر، واشد ما تجدون من الزمهرير. ‏‏‏‏ ''دوزخ نے اپنے رب سے شکایت کی کہ اے میرے رب! (آگ کی شدت کی وجہ سے) میرے بعض حصہ نے بعض حصہ کو کھا لیا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانس لینے کی اجازت دی، ایک سانس جاڑے میں اور ایک سانس گرمی میں۔ اب انتہائی سخت گرمی اور سخت سردی جو تم لوگ محسوس کرتے ہو وہ اسی سے پیدا ہوتی ہے۔''

اب آپ کسی بھی سائنسی پیمانے پر اس حدیث کو ثابت کرنا تو کجا اس کے بر خلاف شواہد کا انکار بھی نہیں کر سکتے کیونکہ گرمی و سردی کی طبیعیاتی وجہ سائنس مکمل تیقن سے بیان کرتی ہے۔ ایسے میں ہمارے بہت سے روایت پسند لوگ بھی لڑ کھڑا کر تاویل کی راہ پر چل پڑے۔ ایک مثال پیش کرتا ہوں ہمارے ایک روایت پسند مفکر اس حدیث کی تاویل کرتے ہیں: " اس حدیث پر اعتراض کرنے سے پہلے اس امرطبیعیات پر غورکرلیجیے کہ نبی ﷺ کا اصل مقصد اِ س بیان سے آخر کیا ہوسکتا تھا؟ کیا یہ آپ ایک عالم طبیعیات کی حیثیت سے موسمی تغیرات کے وجوہ بیان فرمانا چاہتے تھے؟یا یہ کہ آپ ایک نبی کی حیثیت سے گرمی کی تکلیف محسوس کرنے والوں کو جہنم کا تصور دلانا چاہتے تھے؟جس شخص نے بھی قرآن اور سیرت نبی پر کچھ غور کیا ہوگا،وہ بلا تأ مُّل کہہ دے گا کہ آپؐ کی حیثیت پہلی نہ تھی،بلکہ دوسری تھی، اور گرمی کی شدت کے زمانے میں ظہر کی نماز ٹھنڈی پڑھنے کا حکم دیتے ہوئے آپؐ نے جو کچھ فرمایا، اس سے آپؐ کامقصد دوزخ سے ڈرانا اور ان کاموں سے روکنا تھا جو آدمی کو دوزخ کا مستحق بناتے ہیں".

آگے لکھتے ہیں : اس لحاظ سے آپؐ کا یہ ارشاد قرآن کے اس ارشاد سے ملتا جلتا ہے جو غزوۂ تبوک کے موقع پر فرمایا گیا تھا کہ وَقَالُوْا لَا تَنْفِرُوْا فِي الْحَرِّ۝۰ۭ قُلْ نَارُ جَہَنَّمَ اَشَدُّ حَرًّا ( التوبہ:۸۱) ’’انھوں نے کہا کہ اس شدید گرمی میں جہاد کے لیے نہ نکلو۔اے نبی!ان سے کہوکہ جہنم کی آگ اس گرمی سے زیادہ گرم ہے۔‘‘

جس طرح یہاں قرآن علم طبیعیات کا کوئی مسئلہ بیان نہیں کررہا ہے،اسی طرح نبی ﷺ کی یہ حدیث بھی طبیعیات کا درس دینے کے لیے نہیں ہے۔ قرآن دنیا کی گرمی کا جہنم کی گرمی سے مقابلہ اس لیے کررہا ہے کہ پس منظر میں وہ لوگ موجود تھے جو اس گرمی سے گھبرا کر جہاد کے لیے نکلنے سے جی چرا رہے تھے۔اسی طرح نبی ﷺ بھی دنیا کی شدید گرمی اور شدید سردی کودوزخ کی محض دو پھونکوں کے برابر اس لیے بتا رہے ہیں کہ پس منظر میں وہ لوگ موجود تھے جو جاڑے میں صبح کی اورگرمی میں ظہر کی نماز کے لیے نکلنے سے گھبراتے تھے"۔

ایک دوسری مثال پیش کرتا ہوں انگریزی حوالہ ہے
The theory of evolution has always been perceived as a challenge to Muslim beliefs. Research conducted by Yaqeen Institute exploring the sources of doubt in Islam notes, “By far, the topic of evolution is most commonly brought up in these conversations [scientific and philosophical concerns].”1 The notion of common ancestry of all species — including humans — appears to be irreconcilable with the traditional account of Adam’s miraculous creation without ancestors.

However, in recent years a trend has emerged in the Muslim world. Scores of modern scholars have attempted to reconcile Islam and the theory of evolution by resorting to alternative readings of the sacred text supporting the existence of biological parents for Adam — a trend dubbed by Dr. Muzaffar Iqbal as the “Muslim evolutionists.”2 Against this backdrop, the author attempts to show that a careful reading of the Qur’ān reveals that the creation of Adam without any biological parents is decisive (qaṭ‘ī) — contrary to the Muslim evolutionists.

The author begins by lamenting the intellectual scenery of Islam and evolution today. It is as if accepting evolution is a sign of intellectual maturity, whereas the standard view of human origins is seen as dogmatic. This is backed by the battalion of modern scholars attempting to align Islam with the theory of evolution (not the other way around), suggesting that it is possible for Adam to have biological parents. Nidhal Guessoum is often mentioned in the book as one of the main advocates. He accuses Muslims who hold the original creation of Adam employ a “literalistic reading of the Qur’ānic verses.” Claiming to base his stance on Ibn Rushd, Guessoum proposes that the Qur’ānic verses relating to Adam’s creation should be understood allegorically and subjected to the view of modern science.

A Review of The Provenance of Man: A Sunni Apologetic of the Original Creation of Ādam (‘Alayh Al-Salām) by Tahseen N. Khan
ایک مسلم متکلم پر یہ لازم نہیں کہ وہ دین کے مقدمات خاص کر مابعدالطبیعیاتی مقدمات سائنس کے اصولوں پر ثابت کرے بلکہ بعض اوقات یہ عمل خود اس کیلئے موجب تشکیک بن جاتا ہے بہتر یہی ہے کہ مذہب اور سائنس کی گفتگو میں ہر عنوانات کو الگ الگ رکھا جائے اور نہ تو مذہب سے سائنس اور نہ ہی سائنس سے مذہب ثابت کرنے کی کوشش کی جائے۔

دیکھیں ایک پوزیشن ہے بظاہر محفوظ پوزیشن جو آپ حضرات اختیار کرتے ہیں یہی پوزیشن بہت سے مسیحی متکلمین نے بھی اختیار کی اور یہ پوزیشن کچھ ہوں ہے کہ خالص اعتقادی معاملات کو الگ رکھا جائے اور اس سے ہٹ کر سائنسی مقدمات کی اصولی حیثیت کو تسلیم کیا جائے۔
مجھے اس محفوظ پوزیشن سے کوئی مسئلہ نہیں لیکن یہ ایک sustainable position نہیں ہے ، اور یہی مغرب میں بھی ہوا اور مشرق میں بھی ہو رہا ہے۔ جب سائنس پرست الحاد (جو غالب اکثریت ہے) اور مذہب مکالمہ کرتے ہیں تو کوئی نہ کوئی اصولی پوزیشن اختیار کرنا ضروری ہوتا ہے یا تو سائنس کو حقائق جاننے کا اصولی پیمانہ تسلیم کیا جائے گا یا نہیں کیا جائے گا۔

سائنس پرست الحاد سائنس کو حقائق جاننے کا پیمانہ تسلیم کرتا ہے۔ مذہب پسند مسلم و مسیحی اسے پیمانہ تسلیم نہیں کرتے۔ ایسے میں ایک تیسری پوزیشن سامنے آتی ہے جو مسلم اور کرسچن اپالوجسٹ کی ہے جو مذہبی مصادر کی سائنس کی روشنی میں تاویلات کرتے ہیں۔ ہمارا اصولی موقف یہ ہے کہ ہم ہر شے کی دو جہات مانتے ہیں ایک حقیقی اور ایک معروضی یا ظاہری۔ حقیقی جہت اس کی مابعدالطبیعیاتی اساس پر مبنی ہے اور ہم اس سے واقف نہیں یا مکمل طور پر واقف نہیں۔ ظاہری جہت حیاتیاتی بھی ہو سکتی ہے اور طبیعیاتی بھی ہو سکتی ہے ہمارے موقف کے مطابق یہ حقائق کو جاننے کا ایک ثانوی پیمانہ ہے۔ مثال کے طور پر
What we call “reality”, according to Heidegger, is not given the same way in all times and all cultures (Seubold 1986, 35-6). “Reality” is not something absolute that human beings can ever know once and for all; it is relative in the most literal sense of the word – it exists only in relations. Reality ‘in itself’, therefore, is inaccessible for human beings. As soon as we perceive or try to understand it, it is not ‘in itself’ anymore, but ‘reality for us.’
یہ ایک انتہائی دلچسپ ریڈ ہے۔

ہمارے بہت سے مسائل خاص طور پر فقہ اسلامی کے اکثر مسائل known facts پر مبنی ہیں اس لیے ہم معروضی حقائق کا انکار نہیں کرتے۔ حلال و حرام کے بہت سے مسائل ظاہری حقائق پر مشتمل ہیں اسی طرح جیسے ہر مہینے یا ہر سال رویت ہلال کی بحث ہوتی ہے۔

سائنس بطور عقیدہ اور متذبذب مذہبی ذہن
سائنس کا دائرہ طبیعیات کا ہے یہ کہنا کہ کائنات خود ہی سائنس ہے درحقیقت مادیت پرستانہ سوچ کا شاخسانہ ہے کہ جس میں ہمارے بعض مذہبی دوست بھی انجانے میں مبتلا ہو جاتے ہیں ، کائناتی ایک مادی وجود سے بڑھ کر مابعدالطبیعیاتی وجود ہے جو کہیں زیادہ وسیع ہے۔ سائنس ایک مستقل سوچ اور منہج بلکہ آج کے دور میں اعتقادی فکر کا نام ہے۔ آج کی سائنس کا دعویٰ حقائق کو جاننے کا ہی نہیں بلکہ حقائق کو جاننے کے واحد پیمانے کا ہے تو خدا اگر ایک حقیقت ہے تو پھر لامحالہ سائنس اس میں دخیل ہوگی اور محکمہ کرے گی اور جب سائنس حکم بن کر خدا کا فیصلہ کرے گی تو اختلاف ہوگا۔ یہ کہنا کہ سائنس ایسا نہیں کرتی بعض سائنس کے ماننے والے ایسا کرتے ہیں یکسر ناواقفیت ہے ، سائنس ایسا ہی کرتی ہے بس سائنس کے ماننے والے کچھ مذہبی اذہان ایسا نہیں کرتے۔

اب ہمارا سوال خود سائنس سے ہے۔ اس سے کہیں کہ چند امور کی وضاحت کردے۔
اول وقت کیا ہے اس کی ماہیت کیا ہے یہ کس طرح کام کرتا ہے کوئی مضبوط اور متفق علیہ دلیل پیش کرے۔
دوم رئیلٹی کیا ہے یہ کیسے کام کرتی ہے اس کی ماہیت کیا ہے سائنس کوئی متفق علیہ دلیل پیش کرے۔
سوم کانشسنیس یا ادراک یا شعور کیا ہے اس کی کوئی مضبوط سائنسی دلیل یا متفق علیہ تعریف سامنے آئے۔
چہارم سپیس کیا ہے اس کی ماہیت کیا ہے اس کی کوئی متفق علیہ دلیل پیش کرے۔
پنجم وجود کیا ہے اس کی کوئی متفق علیہ تعریف پیش کرے۔
اور یہ سب سوال تو ابھی مادی اور طبیعیاتی دنیا کی سطح آب پر تیر رہے ہیں سمندر تو کہیں آگے ہے۔

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقش پا پایا

Comments

ڈاکٹر حسیب احمد خان

ڈاکٹر حسیب احمد خان ہمدرد یونیورسٹی کراچی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ قرآن و سنت سے پی ایچ ڈی کی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے الحاد، دہریت، مغربیت اور تجدد پسندی کے موضوعات پر لکھ رہے ہیں۔ شاعری کا شغف رکھتے ہیں، معروف شاعر اعجاز رحمانی مرحوم سے اصلاح لی ہے

Click here to post a comment