سوچ سمجھ کر باہر نکلو یار چلتے چلتے
ایک نہیں دو بار نہیں سو بار چلتے چلتے
زادِ سفر تو لازم ہے درکار چلتے چلتے
رہ جاتا ہے پھر بھی کچھ ہر بار چلتے چلتے
ہر دم خود کو رکھنا ہے ہوشیار چلتے چلتے
آنکھیں کھولے رستوں پر بیدار چلتے چلتے
شہروں میں جو گزری ہے بیکار چلتے چلتے
صحرا میں ہو جائیں گے بیمار چلتے چلتے
آوارہ نظروں والے کردار چلتے چلتے
بدنظری سے ہوتے ہیں بدکار چلتے چلتے
رستے میں مل جاتے ہیں عیار چلتے چلتے
رک جاتا ہے چلتا کاروبار چلتے چلتے
مل جاتے ہیں مفلس اور زردار چلتے چلتے
کھل کر سامنے آتے ہیں غدّار چلتے چلتے
پیاروں سے تو ملتا ہے بس پیار چلتے چلتے
میٹھی میٹھی یادوں کا انبار چلتے چلتے
پردیسی بھی بنتے ہیں دلدار چلتے چلتے
ہو جاتا ہے ساجن کا دیدار چلتے چلتے
ویرانوں میں کھلتے ہیں گلزار چلتے چلتے
سن لیتے ہیں کیہر کے اشعار چلتے چلتے
تبصرہ لکھیے