ہوم << وہ جو دن تھے میرے شباب کے وہ سعودیہ میں گزر گئے(2) - نائلہ رفیق

وہ جو دن تھے میرے شباب کے وہ سعودیہ میں گزر گئے(2) - نائلہ رفیق

پیاری سلطانہ
السلام علیکم
خیریت موجود خیریت مطلوب۔
کتنے عرصے سے تم نے خط نہیں لکھا تو دل پریشان ہو گیا۔ مجھے معلوم ہے بچوں کی مصروفیت اور تمہاری دل کی تکلیف دونوں بڑھ گئی ہیں۔ دیکھو تمہارے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے میں نے بھی دل کی بیماری پال لی ہے۔ تمہارا دل تو بڑھ گیا ہے میرا رکنے لگا ہے۔ چھٹی پہ آؤں گا تو سٹنٹ ڈلوانے پڑیں گے۔ یاسر کی انجینئرنگ مکمل ہو جائے تو اوور ٹائم چھوڑ دوں گا۔

فون پہ بات تو ہوتی ہے لیکن گزرے سالوں میں تمہیں خط لکھنے کی جو عادت ہو گئی ہے اس کی وجہ سے بار بار خیال آتا ہے کہ کل خط پوسٹ کرنا ہے اس لیے لکھ دیتا ہوں۔ ممکن ہو تو جواب لکھ دیا کرو۔ اگلا خط ملنے تک پرانا خط پڑھتے رہنا ہم پردیسیوں کی عیاشی ہے۔
والدہ صاحبہ کا کمرہ گرم رکھنا۔بچوں سے کہو دادی کے پاس بیٹھا کریں۔ بجلی برفباری میں نہیں آئے گی اس لیے ایک سلنڈر گیس کا صرف ہیٹر کے لیے رکھنا۔
کچھ ضرورت ہو تو بتانا بھائی اشراف اگلے مہینے گھر جائیں گے۔ میں ابو ظہبی ہوں ایک دن کی چھٹی لے کر ملنے جاؤں گا۔
سمیرا کا خط پڑھ کے دل باغ باغ ہو گیا۔ ماشاءاللہ وہ بہت خوشخط اور خوش ذوق ہے۔ خط میں کچھ ایسی خفیف غلطیاں تھیں جن پہ زیادہ دھیان نہیں دیا جاتا۔ میں نے تصحیح کر کے اس کا خط جوابی لفافے میں ڈال دیا ہے۔ اسے الگ سے خط بھی لکھا ہے۔ اس بار اس کے لیے پارکر پین لاؤں گا۔
نوٹ: بہت دنوں سے ایک اہم بات ہے کرنا چاہتا تھا بچپن سے بھائی اسلم جبین کے رشتے کا کہتے رہے ہیں۔ اس کا بی اے مکمل ہو گیا ہے ہو سکے تو اشارتا" بھابی رشیدہ سے بات کر لو یا والدہ صاحبہ خالہ صاحبہ سے تذکرہ کر دیں۔ باہر کے لوگوں پہ بھروسہ نہیں ہوتا۔ یہ لوگ اپنے ہیں اور پھر شاہد اچھی نوکری پہ ہے اور تابعدار لڑکا ہے۔
سب کو فردا" فردا" سلام
تمہارا ہمدم
30 دسمبر 1991
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پیاری سلطانہ
السلام علیکم
خیریت موجود خیریت مطلوب۔
بچوں کے اچھے نتائج کی خبر سے دل کو یک گونہ تسلی ہوئی۔ میں کہتا تھا نا اتنی سختی نہ کرو کہ زیادہ ٹی وی نہ دیکھو۔ فلاں سے ملو فلاں کے ساتھ نہ کھیلو۔
اب دیکھ لو میرے بچوں نے باپ کی لاج رکھ لی۔ بس بچے سیٹ ہو جائیں تو فورا" واپس آ جاؤں گا۔ جبین سے کہنا شاہد سے بات کر کے پرائیویٹ ایم اے کا فارم بھیجے۔ خرچے کی فکر نہ کرے۔ میں ساری فیسیں دوں گا۔ میری اس معصوم بچی نے ہمیشہ ہمارا مان رکھا۔ اللہ اس کے مان سلامت رکھے۔
92 کی سیلابی بارشیں ہمارا گھر نہ نگل لیتیں تو شاید میں بھی آج اپنے بچوں کے پاس ہوتا۔ لیکن چلو جو اللہ کو منظور۔ شکر ہے پروردگار کا جس نے دوبارہ چھت بنانے کی ہمت اور وسائل دیے۔ عید میں دو تین دن باقی ہیں۔ اس بار حج کا ارادہ ہے ورنہ بڑی عید پہ آنے کی کوشش کرتا۔
تمہیں کچھ بھی ضرورت ہو تو بتا دینا۔ بچیوں سے بھی پوچھ لینا۔ والدہ صاحبہ فون پہ نہیں بتاتیں تم خود پوچھ کے بتا دینا۔
سب کو سلام
فقط
تمہارا ہمدم۔
30 فروری 1995
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیاری سلطانہ
السلام علیکم
خیریت موجود خیریت مطلوب۔
جب سے والدہ صاحبہ کی تدفین سے لوٹا ہوں کسی شے میں دل نہیں لگتا۔ اور واپس آ کر تو یوں لگتا ہے چھوٹا سا بچہ ہوں اور کھو گیا ہوں۔ رات کو جب سب سو جاتے ہیں تو دل کرتا ہے بلند آواز سے اماں کو پکاروں۔ کسی کو بھی اس کی ماں کے ساتھ دیکھتا ہوں حتی' کہ چھوٹے سے بچے کو بھی تو ایسی محرومی محسوس ہوتی ہے جسے لفظوں میں کہنا مشکل ہے۔ لگتا ہے صدیوں سے اماں کو نہیں دیکھا ان کی آواز نہیں سنی۔
تم اپنا بہت خیال رکھنا ۔ چیک اپ کرواتی رہنا۔ گھٹنوں کے درد کی دوا وقت پہ لیا کرو اور دل کی دوائیاں تو فرض سمجھو۔
ایک بات پوچھنا چاہ رہا تھا۔ جبین اپنے گھر میں خوش تو ہے نا؟ رشیدہ بھابی بھلی عورت لگتی تھیں۔ ایسی سختی کی ان سے توقع نہ تھی۔ دادی کی تدفین پہ بھی رکنے نہ دیا۔ بچے سب کے ساتھ ہی تھے ۔ سوچ رہا ہوں اسد ان کا اکلوتا پوتا ہے شاید اس لیے وہ زیادہ حساس ہو رہی تھیں۔ یا میرا ہی دل دکھا ہوا تھا تو مجھے ہر بات چبھ رہی تھی۔ جبین سے کہنا ان کی بات کا برا نہ مانے۔
بس یاسر سیٹ ہو جائے تو میں نوکری چھوڑ دوں گا۔ بچے اپنے اپنے پیروں پہ کھڑے ہو جائیں تو ہم تھوڑے میں بھی گزارا کر لیں گے۔
سب کچھ ہی ہو گیا بس تمہارے ساتھ وقت نہیں گزار سکا، حالانکہ زندگی گزاری
فقط
تمہارا ہمدم
25 اگست 1999
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عزیز از جان سلطانہ بیگم
السلام علیکم
خیریت موجود خیریت مطلوب۔
اب تو خط لکھتے بھی عجیب لگتا ہے۔ روزانہ بات ہو جاتی ہے۔ اچھا ہوا فیصل نے کمپیوٹر سائنس پڑھ لی ورنہ ہمیں کہاں معلوم ہوتا کہ کمپیوٹر پہ کیمرہ بھی لگ سکتا ہے اور میں تمہیں اور بچوں کو چلتے پھرتے بولتے بات کرتے دیکھ سکتا ہوں۔
اسی لیے تم نے سالوں سے خط لکھنا چھوڑ دیا ہے۔ مگر مجھے جو برسوں کی عادت ہے وہ چین نہیں لینے دیتی ۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ تمہیں میرے بغیر رہنے کی عادت ہو گئی ہے۔ تو اس بات سے خوف آتا ہے۔
اب بہت کم وقت رہ گیا ہے پردیس کا۔ دل کرتا ہے پلکیں جھپکوں اور گھر پہنچ جاؤں۔ مگر ایسا ہی عمرو عیار ہوتا تو پردیس کے کالے قلعے میں جوانی کے سال راکھ ہونے دیتا؟
چلو تیاری پکڑو ہم خوب گھومیں پھریں گے۔ سب عزیز و اقارب سے ملیں گے۔
تمہارا اور صرف تمہارا
گھبرو جوان
10 فروری 2000
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔

میری سلطانہ
سمجھ نہیں آ رہی خط کہاں سے شروع کروں۔ تم کتنا چڑتی تھیں خیریت موجود خیریت مطلوب سے۔ دیکھو آج نہیں لکھا۔ لکھنے سے کوئی فرق بھی نہ پڑتا۔
آج تیرہواں دن ہے تمہیں دفنائے۔ روزانہ صبح تمہارے سرہانے تلاوت کرتا ہوں۔ عصر کے وقت بھی آتا ہوں۔ السلام علیکم سلطان بیگمے!! کہہ کر مخاطب کرتا ہوں تو تم مصنوعی خفگی کا اظہار بھی نہیں کرتیں ۔ پھر بھی یقین نہیں آتا کہ یہ مرقد تمہارا ہے اور تم جا چکی ہو۔
جب جب وطن واپس آنا چاہا اور نہ آ سکا تو سوچا کرتا تھا کہ شاید تابوت میں جانا لکھا ہے۔ تب سوچتا تھا ساتھ بڑھاپا گزارنے کے سارے وعدے توڑ دوں گا تو تم تو بالکل معاف نہیں کرو گی۔ لیکن تم نے تو بھنک بھی نہ پڑنے دی کہ کیا ارادہ کیے بیٹھی ہو۔
الماری میں تمہارے استری شدہ کپڑے ترتیب سے لٹکے ہوئے ہیں۔ ہینڈ بیگ اس میں رکھا ہوا چھوٹا سا پھولدار کلچ، چھوٹی چھوٹی مترتب اور منظم چیزیں۔ جوتوں کی قطار۔ مجھے معلوم ہی نہیں تھا تم اتنی خوش لباس اور با ذوق ہو۔ مجھے لگتا تھا خوش شکل ہو تو کچھ بھی پہن لیتی ہو۔ اچھا لگ جاتا ہے۔
سارا دن مہمان آتے رہتے ہیں جبکہ میں بالکل اکیلا بیٹھنا چاہتا ہوں۔ لوگ میرا غم بانٹنے آ رہے ہیں۔ مگر مجھے اس غم کو سمجھنے اور قبول کرنے کے لیے تنہائی چاہیے۔
میرے سامنے عمر کا وہ حصہ پڑا ہے جس کے بارے میں میری واحد پلاننگ یہ تھی کہ تمہارے ساتھ گزاروں گا۔ اور تم نہیں ہو۔
مجھے گھر لوٹے وقت ہی کتنا ہوا تھا۔ چار مہینے سترہ دن۔ ان چار ماہ سترہ دن بلکہ پچھلے بتیس برس سے لمبے تو یہ تیرہ دن ہیں۔ ان تیرہ دنوں میں میرے لیے دنیا بدل گئی ہے۔ میں ایک طرف کھڑا اور بچے بہنیں احباب دوسری طرف۔ تم مجھے اس دنیا سے ملانے والا پل تھیں۔ پل ٹوٹ گیا ہے اور میں بس حیران پریشان ہوں۔
دروازے پہ دستک ہو رہی ہے۔ کوئی مہمان ہو گا۔ ابھی یہیں ختم کرتا ہوں۔
والسلام
21 جولائی 2001