تعلیم و تربیت کے متعلق مفکر محمد بشیر ابراہیمی الجزائری کی دس آرا

1- ابتدائی طلبہ کی تعلیم کا پروگرام: اس مرحلے کے تعلیمی مواد کو چھ سالوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، جو طالب علم کی ابتدائی عمر کے پہلے مراحل ہوتے ہیں۔ جب وہ ان مراحل کو کامیابی کے ساتھ مکمل کرتا ہے تو اسے “شهادة التعليم العربي الابتدائي” (ابتدائی عربی) کی سند دی جاتی ہے، جو پڑھنے اور لکھنے کی مہارت کو ظاہر کرتی ہے، اور دین اسلام کے مبادیات کو علمی اور عملی انداز میں حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی تاریخ کے بنیادی نکات بھی سیکھنے ہوتے ہیں۔ طالب علم یہ چھ مراحل اپنی عمر کے پہلے دس سال کے قریب مکمل کرتا ہے، اس طرح اس کی ذہنی پرورش اس کی جسمانی پرورش کے ہم آہنگ ہوتی ہے۔
2۔ معلم کا کردار: شیخ البشیر الإبراهیمی معلمین سے اس تعلیمی پروگرام کے نفاذ کے حوالے سے کہتے ہیں: “میں تمہارے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں، اے میرے معلمین بیٹو! تم اپنی تمام ترتوجہ اوراعتماد بچوں کی تربیت کے لیے صرف پروگراموں اور کتابوں پر نہ رکھو۔ اصل مقصد تربیت کے حصول میں وہ اخلاق ہیں جو تمہاری روحوں سے تمہارے طلباء کی روحوں تک منتقل ہوتے ہیں، وہ اخلاق جو تمہاری زندگی کا حصہ ہیں اور وہ تمہارے ساتھ رہ کر ہی سیکھے جا سکتے ہیں۔ تم تعلیمی کرسیوں پرہو، اور تمہاری رعایا امت کے بچے ہیں! لہٰذا ان سے نرمی اور حسن سلوک سے پیش آؤ، اور انہیں ایک کامل تربیتی مرحلے سے اکمل مرحلے کی طرف لے جاؤ۔ بچوں کی فطری خصوصیت یہ ہے کہ وہ ان سے محبت کرتے ہیں جو ان سے محبت کرتے ہیں، وہ ان کی طرف مائل ہوتے ہیں جو ان پر احسان کرتے ہیں، وہ ان کے ساتھ نرمی سے پیش آتے ہیں اور جو ان کے ساتھ مسکراہٹ اور خوش اخلاقی سے پیش آتے ہیں، ان کے ساتھ خوش رہتے ہیں۔”
3۔ بچوں کے رجحانات کا مطالعہ: بچوں کے ساتھ قریبی تعلق قائم کرکے ان کے رجحانات اور دل چسپیوں کا جاننا اور سمجھنا معلم اور مدرس کے لیے از حد ضروری ہے۔ اس کو چاہیے کہ وہ ان کے درمیان بڑے بھائی کی طرح رہے اوراپنی شفقت ان پر نچھاور کرے۔ اور ان کے اندر اپنی خیر خواہی کے بیج بو دے۔ محبت اور نرمی کے ساتھ سائل کو جواب دے۔ بچوں کے رجحانات کو جاننے کے بعد ہی ممکن ہے کہ معلم ان کی خرابیوں کی اصلاح کرکے ان کے اندر خیر و صلاح پیدا کرسکے۔ اور یہ بات طے ہے کہ معلم اپنے شاگردوں کے اندر فضائل پیدا نہیں کرسکتا جب کہ وہ خود ان فضائل کا حامل نہ ہو۔
4۔ رہنما معلم: شیخ البشیر الإبراهیمی معلمین سے کہتے ہیں۔ “اپنے طلباء کے لیے اعمال، احوال اور اقوال میں اچھے نمونہ بنو۔ وہ تم سے صرف اچھے اعمال اور تمہارے عمدہ رویے دیکھتے ہیں اور تم سے صرف سچی باتیں سنتے ہیں۔ اور رویوں کا تضاد گفتگو میں جھوٹ بولنے سے زیادہ نقصان دہ ہے، نہ صرف اپنے لیے بلکہ امت کے لیے بھی۔
5۔ معلموں کی تربیت: شیخ البشیر الإبراهیمی معلموں کی تربیت پر خاص توجہ دیتے تھے، اور اس کے لیے وہ سرکاری اسکولوں میں عربی تعلیم کے ذمہ داران اور “اعلی تعلیمی کمیٹی” کے مقرر کردہ معائنہ کاروں کے ساتھ ملاقاتیں کرتے تھے۔ دوسری طرف، وہ اپنے وعظ و خطابات اور مقالات کے ذریعے بھی معلموں کی تربیت میں معاونت فراہم کرتے تھے، جو خاص طور پر معلموں کے لیے ہوتے تھے۔ یہ مقالات اور خطابات ایک تربیتی پروگرام کی مانند ہوتے تھے جو معلموں کی سطح بلند کرنے، ان کے تجربات کو بڑھانے، اور انہیں بچوں کی مختلف معاملات کی حقیقت اور تعلیمی عمل کی نوعیت کے بارے میں صحیح علم فراہم کرنے کا مقصد رکھتے تھے۔
6۔ تربیت کے بارے میں معلمین کا نقطہ نظر: شیخ البشیر الإبراهیمی کے مطابق، تربیت ایک ہدف کے تحت کی جانے والی انسانی کوشش ہے جو فرد اور معاشرے کی دیکھ بھال کے لیے ہوتی ہے۔ اس کا مقصد ذہن کی نشونما، عقل کی تطہیر، سلوک کی اصلاح، جسم کی مضبوطی، اور صلاحیتوں کی ترقی ہے، تاکہ انسان اپنی زندگی میں جو مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے، یعنی انسانیت اپنی معراج کو پہنچے، یعنی ایک کامل و مکمل شخصیت کی تعمیر۔ وہ اس محنت کو دیکھتے ہیں جو علماء، معلمین اور معاشرتی ذمہ دار افراد فرد کی تربیت کے لیے کرتے ہیں، جس کا مقصد افراد کو موجودہ اور مستقبل کی زندگی کے لیے تیار کرنا ہوتا ہے۔
7۔ اخلاقیات، آداب، خیالات اور رجحانات: یہ وہ جہات ہیں جو فکری اور اقداری ورثے کی تشکیل کرتے ہیں، یا جیسا کہ ابراہمی انہیں کہتے ہیں، وہ سامان جو نسل در نسل وراثت میں ملتا ہے، جس سے ان کا مزاج تشکیل پاتا ہے اور ان کی شخصیت اور نظریات کا تعین ہوتا ہے، اور یہ کہ ان اقدار اور رجحانات تک پہنچنے کا راستہ جس کی اپنی نئی نسلوں تک منتقلی میں معاشرہ دل چسپی رکھتا ہے وہ عربی مدرسہ ہے، یعنی جمعیۃ العلماء کا قائم کردہ اسکول، وہ مکتب جو قوم کی انفرادیت کی پہنچان سے تعبیر ہوتا ہےاور اس کے اجزاء ترکیبی کو جوڑ دیتا ہے۔ اور اپنے پروگرام کی تہذیبی اور ثقافتی بنیادوں پر کھڑا کرتا ہے، جس کی بنیاد پر امت مجتمع اور متحد ہو پاتی ہے۔
8۔ تعلیمی طریقہء کار: یہ وہ فکری منصوبہ ہے جسے شیخ البشیر الإبراهیمی نے اپنے اصلاحی کام کے لیے تربیتی اور تعلیمی میدان میں بنایا تھا، اور اسے وہ اپنے طریقہ کار کے طور پر اپناتے تھے تاکہ تربیت کے مسائل کو زیر بحث لایا جا سکے، ہر مسئلے کا مفہوم متعین کیا جا سکے، اور وہ تعلیمی نمونہ تیار کیا جا سکے جو معاشرتی توقعات کے مطابق ہو اور نسلوں کی آرزوؤں کو پورا کرے۔ ان کے نزدیک تعلیم ایک ذریعہ ہے اور تربیت ایک مقصد، اورجب منصوبہ تیار کیا جائے تو یہ مقصد ذریعے سے پہلے آتا ہے ، لیکن دونوں (ذریعہ اور مقصد) ایک ساتھ ضروری ہیں۔
9۔ مطلوب تربیتی اسکول: شیخ البشیر الإبراهیمی قوم کے لیے اسکولوں کے نظام کا خاکہ بنانے میں فرانسیسی تعلیمی نظام کے حالات کا تجزیہ کرتے ہیں جو الجزائر کے ماحول میں رائج تھا، اور کہتے ہیں: “قوم ایک ایسی عربی تعلیم چاہتی ہے جو دورِ حاضر کی طاقت اور نظام سے ہم آہنگ ہو، نہ کہ ایسی تعلیم جو مرگ کے آثار اور تباہی کی علامات پیدا کرے۔” اس تعلیم کو عربی زبان، مقاصد اور مواد کے لحاظ سے عربی ہونا چاہیے، تاکہ یہ قوم کی خصوصیات اور تہذیبی ورثے کے ساتھ ہم آہنگ ہو، اور یہ قومی پروفرام (یعنی الجزائری) ہونا چاہیے، نہ کہ درآمد شدہ۔ اس میں غیر ملکی خیالات کا کوئی حصہ نہیں ہونا چاہیے، بلکہ یہ قوم کی ذہانت سے نکلا ہوا، اس کے منفرد خصائص اور خصوصیات کے ساتھ ہونا چاہیے، تاکہ اسے قوم خود اپنی مرضی اور ارادے کے مطابق تخلیق کرے۔
10۔ تربیت کا مقصد: شیخ البشیر الإبراهیمی کے مطابق تربیت کا سب سے بڑا مقصد نوجوان نسل کو اس کے خیالات اور رجحانات میں یکجہتی فراہم کرنا، اس کے جذبوں کو قابو میں رکھنا، اور اس کی زندگی کے بارے میں نظریات کو درست کرنا ہے تاکہ یہ ایک ایسی نسل کو تیار کرے جو ہم آہنگ ذوق اور یکجا رجحانات کی حامل ہو، جو زندگی کو اس کی اس کی بدلتی ہوئی حقیقت میں دیکھے، اور جو دین اور وطن کی خدمت میں ایک مضبوط ارادے کے ساتھ وسائل تلاش کرنے کی کوشش کرے۔
تبصرہ لکھیے