مادی نظریہ(Materialism) اسے دماغ کی فعالیت کا نتیجہ بتاتا ہے ۔ دماغ ایک بائیولوجیکل مشین کی طرح کام کرتا ہے جہاں Neutrons کی برقی اور کیمیائی سرگرمیاں شعور کی حالت پیدا کرتی ہے۔
غیر مادی نظریہ(Spritualusm) اسے غیر مادی یا روحانی بتاتا ہے۔ روحانی فلسفے اور مختلف مذاہب ، شعور کا تعلق روح یا کائنات کی کسی اعلی طاقت بتاتے ہیں۔ شعور آزاد وجود ہے جو دماغ اور جسم کے مادی دائرے سے ماورا ہے۔
مشہور فلسفی ڈیکارٹ کہتے ہیں کہ:
"جسم مادہ اور روح غیر مادی الگ الگ ہیں ، لیکن ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں"۔
کچھ نظریات کے مطابق ، شعور پوری کائنات میں موجود ہے اور انسانی دماغ محض ریسیور کی طرح کام کرتا ہے۔جیے ریڈیو ، ٹی وی وغیرہ سگنلز پکڑتے ہیں۔ مذہبی تعلیمات، شعور کو خدا یا روحانی ماخذ کی دین سمجھتے ہی۔شعور فطرت کا ودیت کردہ وعلم ہے جس سے انسان زندگی کے ہر مرحلے میں مدد لیتا ہے۔مشاہدہ ،تجربہ علم ، فہم وتفقہ سے شعور میں جلا پیدا ہوتی ہے۔
شعو ر و فکر اگر جزو ز ندگی ہو جائے
جہاں جہاں بھی نظر جائے روشنی ہو جائے
"مغربی اقوام نے اپنے قومی شعور کو خود غرضی اور مادیت پرستی کے لیے اور فسطائی طاقتوں نے ، ظلم وجبر، عصبیت و تعصب کے طور پر انسانیت کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کیا ہے ۔"
شعور کیسے کام کرتا ہے؟
اگر یہ دماغ کی فعالیت ہے تو Neuro Science کے مطابق یہ نیورونز , دو اعصاب کے اتصال Synapse اور کیمیکل سگنلز کے ذریعے خیالات ، جذبات اور یاد داشت کو تشکیل دیتا ہے ۔ اگر یہ غیر مادی ہے تو روحانی فلسفے کہتے ہیں کہ یہ کسی اعلی حقیقت یا الوہی توانائی کا مظہر ہے جو جسم کے ساتھ جڑا ہوا ہے لیکن اس تک محدود نہیں ہے ۔
شعور کیا ہے؟
شعور دراصل اپنے آپ سے اور اپنے ماحول سے باخبر ہونے کو کہا جاتا ہے۔ شعور عقل کی اس کیفیت کو کہا جاتا ہے جس میں ذہانت ، فہم الذاتی ، حساسیت ، دانائی, عرفان ذات ،گنجینہء حکمت ، اور آگاہی کی خصوصیت پائی جاتی ہے۔انسان کے لاشعور اور تحت الشعور میں بہت سی باتیں بچپن سے جوانی تک بغیر فلٹر کے محفوظ ہوتی رہتی ہیں۔ ان باتوں کو ایک منطقی اور معنوی ترتیب دینے اور اس سے منطقی نتائج اخذ کرنے کا نام شعور ہے۔شعور کا تعلق دماغ سے ہے دل سے نہیں۔ زندگی کے روزمرہ میں مذہبی شعور ، تحریکی شعور،سیاسی شعور ، معاشرتی شعور ،معاشی شعور،تہذیبی شعور ، معاملاتی شعور ، اجتماعی شعور ، تنظیمی شعور وغیرہ کا گہرا ربط و تعلق ہے۔
مذہبی شعور کے اجزاء
مذہبی شعور کا مطلب ہے انسان کا اپنے عقیدے ، دین سے متعلق تفقہ فی الدین (گہری سمجھ بوجھ) احساس اور فکری آگہی۔شعور انسان کے اندر مذہب کے بنیادی اصولوں، اخلاقی اقدار اور روحانی تعلق کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔
(1) اپنے مذہب کے بنیادی عقائد ، ارکان اور نظریات کو سمجھنے میں مدد کرتا ہے۔
(2) علم وآگہی : مذہبی تعلیمات ، احکام اور تاریخ سے واقفیت حاصل ہوتی ہ۔
(3) اخلاقی شعور ہمیں اچھے اور برے ، صحیح اور غلط کی تمیز (Distinguish) کرنا اور اخلاقی اصولوں پر عمل کرنا سکھاتا ہے۔
(4) اجتماعی شعور : معاشرتی تعلقات ، اجتماعیت کے آداب ، اجتماعی اور گروہی معاملات ، عوامی پلیٹ فارمز ، مذہبی اصولوں کا نفاذ اور دوسروں کے عقائد کا احترام کرنا سکھاتا ہے۔
نہ شعور زندگی ہے ، نہ مذاق بندگی ہے
مجھے تو نباہ رہا ہے تیری بندہ پروری ہے
مذہبی شعور کیا ہے؟
مذہبی/دینی شعور دراصل مذہب کو عقل اور علم کی روشنی میں اصل ماخذ قرآن وحدیث، فقہ، سیرت و تاریخ سے سمجھنے اور فرد کو اس فکری نظام میں ڈھالنے کا نام ہے۔مذہبی عقائد و احکام کس قدر Rational عقلی اور کس قدر توھمات Supearstilions پر مبنی ہیں ان کو جاننے کا ذریعہ مذہبی شعور کی بیداری ہے ۔آپ اسے بصیرت و بصارت بھی کہہ سکتے ہیں .
یہ انسان کی زندگی کے مقاصد کو روشناس کراتا ہے اور حقیقت اور اس کے خدول خال کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔اس سے اخلاقی اور روحانی ترقی کی راہ ہموار ہوتی ہے ۔ مذہبی شعور انسان کو مایوسی اور بے یقینی سے نکال کر پر امیدی اور اللہ پر توکل پر آمادہ کرتا ہے ۔معاشرے میں امن ، روداری اور بھائی چارے کو فروغ ملتا ہے ۔ فرد کو معاشرتی زندگی کا متحرک شعور عطا کرتا ہے۔ جا سے فرد کا ارتقاء ، صالح معاشرے کی تعمیر اور عدل و قسط پر مبنی ریاست کی تشکیل کو ممکن بناتا ہے۔انسان کو آزمائشوں اور مشکلات میں صبر واستقامت عطا کرتا ہے۔
اچھا ہے دل کے پاس رہے پاسبان عقل
شعور یہ ایک فکری سرگرمی کا حاصل ہے ، کوئی قلبی واردات نہیں۔ یہ عقل کی کوکھ سے جنم لیتا ہے اور فراست کی گود میں پروان چڑھتا ہے، اس کو علم اور استدلال سے ناپا جاتا ہے اور منطق کی زبان میں بتایا جاتا ہے۔ شعور سے پھوٹا ہوا مقدمہ عقلی ہوتا ہے ،جسے تجربے اور مشاہدے کی کسوٹی پر پرکھاجا سکتا ہے۔ مذہبی شعور کا فروغ فرد اور معاشرے کے لیے ضروری ہے ، تاکہ ایک بہتر اور متوازن زندگی گزاری جاسکے. مذہبی شعور ہی کی وجہ سے صحابہ کرام کے دل و دماغ میں یہ بصیرت پیدا ہوگئی تھی کہ ظلم ایک قبیح چیز ہے جو کسی کے لیے جائز نہیں ، انسان کو ہر شخص کے ساتھ انصاف کرنا چاہیے ، خواہ وہ دوست ہو یا دشمن انھوں نے جاہلانہ حمیت ، قومی و قبائلی اور خاندانی عصبیت سے ہمیشہ کے لیے کنارہ کشی کرلی تھی.
مذہبی شعور کی تشکیل کے ذرائع
خاندان کے تمام افراد کی شعوری تربیت،دینی تعلیم کا مستند اور پر اثر محقق نصاب تدریس ، مذہب کے تعلق سے تحقیقی نظر پیدا کرنا۔مدارس اور تعلیمی اداروں میں دینی و عصری تعلیم کا حسین اور دلچسپ امتزاج اورعلوم میں مہارت پیدا کرنا ۔مساجد سے اور علماء کی علمی وعملی بصیرت ،حکمت و دانائی سے مساجد کی مقدس علمی مجالس، دروس قرآن، مطالعہ علوم القرآن ،علم تجوید ، اصول تفسیر ، علوم الاحادیث ، علوم شرعیہ ، اسلامی تاریخ و ثقافت کے ذخائر سے جامع ، مدلل اورمستند راہ نمائی۔
بلیغ توسیعی خطبات، اسلام کا تقابلی و تحقیقی مطالعہ،غور وفکر ، تدبر تفکر سوچنے اور سمجھنے کا وسیع میدان فراہم کرتے ہیں۔ کھلے مذاکرے ،سوالات جوابات کے اوپن سیشن، افراد کو گہری سمجھ بوجھ ،شکوک وشبہات سے نکل کر پختہ یقین کیفیت، اطمینان قلب اور مذہبی شعور عطا کرتے ہیں ۔
بے شعوری کے نقصانات
ہند میں حکمت دیں کوئی کہاں سے سیکھے
نہ کہیں لذت کردار نہ افکار عمیق
حلقہ شوق میں وہ جرات اندیشہ کہاں
آہ ! محکو می و تقلید و زوال تحقیق
جن معاشروں میں عوام مذہبی اعتبار سے با شعور نہیں ہوتے ہیں وہاں انہیں مذہب کے نام پر گمراہ کرنا آسان ہوتا ہے۔ انھیں خوابوں اور کراماتوں کے جال میں پھانس کر ان کی سادہ لوحی ،بھروسے اور لاعلمی کا ناجائز فائدہ اٹھانا ممکن ہو جاتا ہے۔ متحرک انقلابی سوچ اور نظریے کی جگہ جمود واندھی تقلید ،تنگی پیدا کرنے اور متنفر کرنے والی باتیں اور سطحی واقعات پر زور دیا جاتا ہے۔ فروع مسائل میں اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف تعصب روا رکھا جاتا ہے۔
حال کے ساتھ ہم آہنگ رہنے اور مستقبل کے لیے فکر کرنے کی بجائے ماضی میں گم رہنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ فرائض کی بجائے نوافل پر زور دیا جاتاہے۔ ایسے معاشرے میں مذہب کے نام پر پاپائیت کو فروغ ملتا ہے اور پاپائیت ایک اعتبار سے بدترین مذہبی جبر ہے۔ہمارے یہاں روایتی آداب اور مشائخ کے سامنے زانوئے تلمیذ تہہ کرتے وقت کسی اشکال اور دل کی کھٹک پر سوال کرنا اکابرین کی ادبی ادبی تصور کی جاتی ہے اور اسے ان کے تقدس اور تقوی پر شک وشبہ اور ان کے علم پر تنقید باور کرائی جاتی ہے ۔
شعور ایک قوت محرکہ
صحبت صالحین (نیکو کاروں کی سنگت)اجتماعی سعی وجہد کے پلیٹ فارمز اور ملی و اجتماعیت کی سرگرمیاں بھی شعور کی بازیابی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔عمومی طور پر ہندوستانی معاشرے میں مذہبی ہجان کو مذہبی شعور بناکر پیش کیا جاتا ہے جبکہ مذہبی شعور سنجیدہ مذہبی گفتگو ، مطالعہ، غور وفکر،حصول علم، اکتساب، ادراک ، فہم و فراست، تدبر ، تفقہ،مطالعے، مکالمے اور Dialogue سے پیدا ہوتا ہے۔
ایک سچا عقیدہ، روشن نظریہ، پختہ یقین، شرح صدر، پائیدار نصب العین اور اسلام کے آفاقی پیغام کو اپنانے کے لیے اسلامی فکر و شعور سے پیدا ہوتی ہے۔ دینی معاملات کی گہری سمجھ ، صالح اجتماعیت کے اصولوں کی تفہیم، اصلاح وانقلاب فکر کا واضح تصور پیدا کرنے کے لیے زندگی کاحرکی اور جامع شعور ناگزیر ہے۔
ہماری کوشش ہو کہ شعور کو مستحضر رکھیں، اسے پروان چڑھائیں، اس کی تعمیر اور نشونما کی جائے۔اصول اور کلیات، اعتدال اور میانہ روی، جمود وتقلید کے بجائے تحریک و اجتہاد ، جذباتیت اور وقتی اقدام کے بجائے عملیت پسندی اور منصوبہ بندی، مسائل میں واعظانہ مبالغہ آمیز اسلوب کے بجائے فقیہانہ اسلوب کو ترجیح دیں۔ ہر شعبہ زندگی میں فکر ونظر کا اعتدال صراط مستقیم ہے ۔ دینی ہو یا دنیوی معاملات ، ہر ایک میں با شعور زندگی گزاری جانی چاہیے"۔
اگر شعور نہ ہو تو بہشت ہے دنیا
بڑے عذاب میں گزری ہے آگہی کے ساتھ
تبصرہ لکھیے