یہ کہانی ایک مسلمان چائنیز عورت کی ہے. وہ چین کے ایک ایسے علاقے سے تعلق رکھتی تھی جہاں مسلمانوں کی آبادی تھی. علاقے کے رواج کے مطابق چھوٹی عمر میں والدین نے مناسب لڑکا دیکھ کر شادی کر دی. شادی کے کچھ عرصے بعد روزگار کے لیے دوسرے شہر ہجرت کی. وہاں مسلمان دیکھنے کو بھی نہ ملتے تھے. اس چکاچوند میں شوہر دین سے پھر گیا. جتنی بھی واجبی تعلیم تھی، جتنی بھی دین کی سمجھ تھی، اتنا پتا تھا کہ اب یہ شادی قائم نہیں رہ سکتی. طلاق لے لی. بچے باپ کی مالی حالات کے پیش نظر باپ کو مل گئے. محنت مزدوری کر کے زندگی گزارنے لگی.
بچے بڑے ہوگئے. سابقہ شوہر کا انتقال ہوگیا. دونوں بچے لادین. بیٹے نے تو کبھی کوئی تعلق نہیں رکھا لیکن بیٹی نے کینیڈا میں سیٹل ہونے کے بعد ماں کی مالی معاونت کرنی شروع کردی. جب عمر اسی سال کے قریب ہوئی تو بیٹی نے اصرار کر کے اپنے پاس بلا لیا. وہ کینیڈا پہنچی. ائرپورٹ پہ جلدی سے لوکل نمبرز کی ڈکشنری تلاش کی. اس میں سب سے پہلے اسلامک سینٹر کا نمبر تلاش کیا. گھر پہنچ کر سب سے پہلے وہ نمبر اپنی بیٹی کو دیا. کہنے لگی اگر میں مر جاؤں تو انہیں بلا لینا. ان کو پتا ہے کہ کیا کرنا ہے. یہ میرے اپنے ہیں.
اللہ کی شان. ان خاتون کا دوسری رات ہی سوتے میں انتقال ہوگیا. ماں کی وصیت کے مطابق بیٹی نے اسلامک سینٹر والوں کو اطلاع دی. سینٹر والے کہتے ہیں کہ ہم اس علاقے میں مسلمانوں کے قبرستان کے لیے عرصہ دراز سے زمین حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے. اس زمین کی تحویل صبح ہی ملی تھی. ان خاتون کی تدفین ہی پہلی تھی.
یہ ایمان کی طاقت ہے جو انسان کو بتاتی ہے کہ میرے اپنے میرے بچے نہیں بلکہ اہلِ ایمان ہیں. اللہ نے لاکھوں میل دور زمین میں اس خاتون کے لیے جگہ رکھی تھی، جہاں ان کی نماز جنازہ علاقے کے جید عالم نے پڑھائی. جہاں پہلی صف میں اس کے لیے دعا کرتے، مختلف قومیت رکھنے والے، وہ مسلمان تھے جو اس کا نام بھی نہیں جانتے تھے. وللہ یہ میرے رب کی شان ہے. یہ اسی پہ ایمان کی طاقت ہے.
تبصرہ لکھیے