لڑکپن میں ایک افسانہ پڑھا تھا،لڑکی کی شادی ویسے ہی ہیرو سے ہو جاتی ہے جس کے نہ کوئ آگے ہوتا ہے نہ پیچھے ۔اور وہی ہیروئن شوخ چنچل ہیرو سنجیدہ مزاج ۔۔
ابھی کہانی شروع ہی ہوتی ہے کہ کہیں صاحب کی الماری سے ریشمی دوپٹے میں لپٹی ڈائری برامد ہوجاتی ہے اور ہیروئین صاحبہ روتی دھوتی میکہ پہنچ جاتی ہیں ادھر اماں جان ڈانٹ لگا کے بھگا دیتی ہیں خبردار جو آئندہ یوں شوہر سے ناراض ہو کے آئیں ہیروئین پھر روتے دھوتے گھر چلی جاتی ہے ،گلے شکوے دور ہوتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے یہ تو بیگم صاحبہ کا ہی گمشدہ دوپٹہ ہے اور جب شہزادہ شہزادی ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں تو بیٹی ماں سے کہتی ہے اس روز آپ مجھے دشمن ہی تو لگی تھیں جب مجھے گھر سے نکال دیا تھا۔۔۔۔
شرجینہ کی والدہ کا کردار بھی ایسا ہی ہے دھیما سا ،پیار بھرا ،بیٹی داماد کے رشتے کی نزاکت کو سمجھتا ہوا ،شوہر صاحب جو بات بے بات داماد پہ چڑھ دوڑتے ہیں انہیں سمجھاتا ہوا۔بیٹیوں کی ماؤں کو ایسا ہی ہونا چاہئیے وہ جانتی ہیں زندگی کے کس موڑ پہ عمر کے کس حصے میں مرد و عورت جو اب میاں اور بیوی کے خوبصورت رشتے میں بندھ چکے ہیں جو کل تک " میں " تھے اب " ہم " ہو چکے ہیں انہیں کیسے اپنے معاملات کو ڈیل کرنا ہے ۔۔۔۔کیونکہ بیٹی کی ماں ہی وہ عورت ہوتی ہے جو کل خود بھی اس مقام پہ کھڑی تھی جہاں آج اس کی اپنی بیٹی کھڑی ہے اس کے بھی ویسے ہی نازک احساسات تھے کبھی وہ بھی حساس تھی وہ بھی کبھی تتلیاں پکڑنا چاہتی تھی لیکن کیونکہ وہ جان چکی ہوتی ہے کہ میاں اور بیوی کے رشتے میں عورت اگر نازک ہوتی ہے تو مرد پہاڑ کی مانند مضبوط اگر دونوں ہی مضبوط ہوتے تو ٹکرا کے ٹوٹ نہ جاتے رب نے کیسی خوبصورت بانڈنگ رکھی کیسی خوبصورت کمپوزیشن بنائ ,بیٹی کی ماں جانتی ہے مرد جو اب اس کی لاڈلی کا شوہر ہے بظاہر لاپرواہ ہے نازک جذبوں کا خیال نہیں رکھ پاتا لیکن ذمہ دار تو وہ بھی ہے ۔
اندر دل میں کہیں اس کی بیٹی کے لیے محبت بھی رکھتا ہے بس اظہار میں کنجوسی کرجاتا ہے ،معاشی بوجھ نے اسے اس قابل ہی نہ چھوڑا کہ وہ اس وقت کو محسوس کرسکے جو تیزی سے ہاتھوں سے نکلے چلا جارہا ہے۔۔۔
وہ جانتی ہے کل جب یہ دونوں زندگی میں چلنے والی آندھیوں سے نکل کے کھڑے ہوں گے اپنی آنکھوں سے دھول صاف کریں گے تو سامنے نظر آنے والا منظر کتنا شفاف ہوگا۔۔۔
اس لیے ایسی امیاں حوصلہ چھوڑتے داماد کو بھی سمجھاتی ہیں کہ بیٹا یہ شیطان کے وسوسے ہیں جو تمہارے رشتے کو خراب کررہے ہیں ۔اور شاک میں چلی جانے والی بیٹی کو بھی بتاتی ہیں کہ وہ بچہ بس اتنی ہی زندگی لایا تھا دیکھو مصطفی کتنا پریشان ہے تمہارے لیے۔۔۔
بیٹیوں کی ماؤں کو ایسا ہی ہونا چاہئے گھروں کو بسانے والی ، سمجھانے والی ،دور تلک دیکھنے والی ۔۔۔ورنہ امی تو مصطفی کی بھی دیکھ رکھی ہیں آپ نے ۔۔۔
تبصرہ لکھیے