الیکشن 24 اپنی تمام ترکار گزاریوں، سازشوں، ریشہ دوانیوں، دھونس و دھمکی اور من مانیوں کے ساتھ پوری طرح آشکار ہو گیا ہے۔ جو جیتے ہیں، جیت کر ہار گئے ہیں اور جو ہارے ہیں ہار کر بھی جیت گئے ہیں۔ جماعت اسلامی اپنی تمام تر کاوشوں، جذبوں، ولولوں اور بہتری کی امیدوں کے ساتھ میدان میں آخری لمحے تک موجود رہی ہے ۔۔ کراچی سے گوادر تک، مکران سے چترال تک، منصوبے سے امکان تک، عوامی پذیرائی کی دلیل ،بھرپور جلسوں سے لے کر سروے رپورٹوں کی نشان دہی تک ، کارکنان نے اپنا تن من، دھن لگایا۔ قائدین نے اپنی صلاحیتوں کو یکجا رکھا ۔عوام نے متبادل جانتے ہوئے اعتماد دیا مگر نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا طے کر لیا گیا تھا۔ کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے!
یاد رہے کہ جماعت اسلامی ایک نظریاتی سیاسی جماعت ہے اس کی جدو جہد محض الیکشن کے انعقاد تک محدود نہیں بلکہ الیکشن کے بعد سے اگلے الیکشن تک محیط ہے۔ اس الیکشن میں بظاہر میدان تو سیاسی جماعتوں نے ہی مارا ہے مگر درحقیقت اسٹیبلشمنٹ کی جیت یا ہار کا فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے۔ آج کا الیکشن ایک کھلی کتاب کی طرح عیاں ہے کہ کون ؟کہاں ؟ کیا کر رہا ہے ؟ کچھ بھی ڈھکا ہوا نہیں کچھ بھی چھپا ہوا نہیں ۔اس حوالے سے جماعت اسلامی کے کارکن و قیادت کی ذمہ داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں ۔ الیکشن لڑنا ایک آرٹ ہے اور اس کو اس کی روح کے ساتھ سمجھنا ناگزیر ہے۔ الیکشن یک رخا عمل نہیں بلکہ ہمہ جہت عنوان ہے، اچھی ا لیکشن مہم کے ساتھ ساتھ اچھی بارگیننگ صلاحیت بھی درکار ہے۔ ملکی سطح پہ یکجائی اہم مگر بعض جگہ سیٹ ٹو سیٹ خاص منصوبہ بندی بھی درکار ہے۔ یہ سب تب ہوگا جب ہم سیاسی عمل میں جیتنے کے لئے اتریں گے ۔ جیت کا عتماد الیکشن کی جان ہے۔ ہمیں الیکشن گیم کو سمجھنا چاہئے، گیم الٹنے کی صلاحیت ہونی چاہئے۔ یقیناً سامنے حریف پی ٹی آئی، ن لیگ و پی پی پی وغیرہ ہیں مگر اصل حریف اسٹیبلشمنٹ کی بے جا من مانی و غیر جمہوری دخل اندازی ہے۔ اس کا کیا ہو ؟ اس کو کیسے مثبت سمت دی جائے ؟ یہ ایک بڑا سوال ہے اور آج کا پاکستان اس حوالے سے جماعت اسلامی کی ستر سالہ تنظیمی و تفہیمی صلاحیت کا منتظر ہے ۔کیا جماعت اسلامی آج کے پاکستان کے اس بڑے چیلنج کا جواب دے سکتی ہے ؟
اگر ہاں تو پھر تیار رہیے کہ ستاروں سے آگے آسمان اور بھی ہیں ۔
مایوس ہونے کی ضرورت نہیں حوصلہ وامید توانا رکھیں۔ اپنے حصے کا کام کریں ۔آپ جہاں بھی ہیں، گیم کو سمجھیں، نظام کو سمجھیں، حالات کا ادراک کریں، اپنے گلی، محلے کے مورچے کو سنبھالیں ، یہ سب سے مضبوط مورچہ ہے۔ کم از کم پانچ سو لوگوں پر اثر انداز ہوں۔اپنے حصے کا پورا کام کریں۔ باقی اس کا حصہ ہے جو رب کائنات ہے، مالک الملک ہے وہ بہتر جانتا ہے کہ کب، کتنا اور کہاں دینا ہے۔ اپنا حق لینے کی صلاحیت رکھیں ،اپنے کارکن کا دفاع کریں، بہادری اور جوانمردی سے مقابلہ کریں، مایوسی سے کم از کم 100 کلومیٹر دور رہیں کیونکہ یہ متعدی مرض ہے۔ بڑی تیزی سے پھیلتی ہے۔ اپنے معاملات(اللہ کیساتھ ) بندوں کیساتھ آئینے کیطرح صاف اور شفاف رکھیں، اللہ کیساتھ اپنے تعلق کو جتنا مضبوط کرسکتے ہیں کر گزریں اسکی کوئی حد نہیں ہے۔وہیں سے حرارت اور انرجی پائیں اسی سے آہ و مناجات کریں تاکہ جب اسکے سامنے حاضری ہو تو وہ رب مسکرا کر کہے "یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لئے تھا "۔ اسے جنت میں انبیاء، شہداء، صدیقین اور صالحین کیساتھ سب سے اونچے درجے میں داخل کردو۔ یہ کشمکش اور جدوجہد کی دنیا ہے، یہ کرجگ ہے، یہ آخرت کی کھیتی ہے ، بیج بکھیرتے جائیں ، اپنی صلاحیتوں کو نکھارتے جائیں، موجودہ دور کے، dynamics کو سمجھیں اور آگے بڑھیں۔ انشاء اللہ یہ دور اب آپ کا ہے۔ آنکھوں میں خواب، ہونٹوں پہ تبسم اور مسکراہٹ ، سینے میں عزم و حوصلہ اور اللہ اور اسکے رسول کی سچی محبت اور اطاعت کا سچا جذبہ موجود ہوتو دنیا کوئی طاقت آپکو نہیں روک سکے گی۔ اور آخری بات یہ کہ! " آپ اب ایک سیکولر ریاست میں رہ رہے ہیں" اسلئے حکمت عملی اسی کے مطابق بنائیے گا ۔
تبصرہ لکھیے