"تو ہوا یہ کہ ایک جگہ کہار کہیں لڑکھڑا گئے اور ڈولی نے جھول کھایا۔ نواب بیگم کی گود سے سال بھر کا بچہ نیچے گر کر سڑک پر جاگرا۔ کہاروں کو کچھ خبر نہ تھی۔ اس اللہ کی بندی نے بھی منہ سے ایک آواز نہ نکالی"۔ میں قصہ سناتے ہوئے کچھ دیر کے لئے رکا۔
"وہ کیوں۔۔آواز کیوں نہ نکالی؟"بیٹے نے پوچھا
"کہیں آواز کی بے پردگی نہ ہو۔ ایسی ہی غیرت والی ہوا کرتی تھیں اس دور کی شریف زادیاں." میری آواز میں بے پناہ ستائش اور عقیدت تھی۔
" کیا مطلب؟ " بیٹے کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا تھا۔
"بیٹا آواز کا بھی پردہ ہوتا تھا ان دنوں"
" آواز کا پردہ؟ یہ کیا ہوتا ہے؟ یعنی سنسر وغیرہ۔"
" نہیں بے وقوف۔ مطلب یہ کہ کہیں کوئی غیر محرم پردہ دار بی بی کی آواز نہ سن لے"
" یہ تو پاگل پن ہے۔ یہ کیا بات ہوئی" یہ بات اس کی سمجھ سے بہت بالا تھی۔
میری عقیدت کے غبارے سے ساری ہوا نکل گئی۔ میں قرت العین حیدر کی "کار جہاں دراز"میں پڑھا ہوا ایک واقعہ سنا رہا تھا۔
اور یہ دوسرا واقعہ میرے ایک بزرگ ہمیں ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری کاسنا رہے تھے جب وہ تہران میں تھے۔
ہوا کچھ یوں تھا کہ کسی ادبی تقریب کے اختتام پر ہندوستانی سفیر نے ڈاکٹر صاحب کو اپنی کار میں ان کی رہائش گاہ پر چھوڑنے کی پیشکش کی۔ کار میں سوار ہوتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کا ہاتھ دروازے میں آگیا
لیکن وہ خاموش رہے۔ جب وہ اترنے لگے تو سفیر صاحب نے دیکھا کہ ان کا ہاتھ دروازے میں دبا ہوا ہے۔ انہوں نے حیران ہو کر پوچھا کہ آپ نے بتایا کیوں نہیں۔ ڈاکٹر صاحب صرف یہ سوچ کر چپ رہے تھے کہ کہیں ان کے میزبان کو شرمندگی نہ ہو۔
" دیکھیں یہ ہوتی تھی اس دور کی وضع داری اور شرافت" بزرگ سانس لینے کے لئے رکے۔
" وہاٹ نان سینس"۔۔یہ بزرگ کے جواں سال لیکن اعلیٰ تعلیم یافتہ پوتے تھے۔ "انہیں فوراً بتانا چاہیے تھا۔ یہ تو سراسر بے وقوفی تھی"۔
" بیٹا اس دور میں یہ باتیں بہت اہمیت رکھتی تھیں" بزرگ نے سمجھانے کی کوشش کی۔
اقدار اور وضع داری کی زنجیروں میں جکڑی پرانی نسل اور آج کی حقیقت پسند، روشن خیال اور ہر واقعے کو منطق پر پرکھنے والی نسل کے درمیان اس قسم کے مکالمے اکثر سننے میں آتے ہیں۔ نہ یہ اپنی بات انہیں سمجھا پاتے ہیں۔ نہ نئی پیڑھی کے حیرت آمیز سوالوں کے جواب ہم پرانے لوگوں کے پاس ہیں۔
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کسی کی
اگرچہ گفتگو مبہم نہیں ہے
اور یہ کوئی آج کا جھگڑا نہیں۔ ہر نسل اپنی پچھلی نسل سے مختلف ہی ہوتی ہے۔ اقدار، روایات اور معمولات بھی اسی انداز میں بدلتے رہتے ہیں۔ نسلی بعد، یعنی جنریشن گیپ اگر ہے تو وہ ایک حقیقت ہے۔ گذرے ہوئے زمانے کی نسل کو اسے قبول کر ہی لینا چاہیے۔ زمانے کو آگے ہی بڑھنا ہے، چیزوں کو تبدیل ہوتے ہی رہنا ہے۔ لیکن کبھی کبھی کچھ باتیں کہیں چبھ ہی جاتی ہیں۔
جو مجھ سے روز پریوں کی کہانی سن کے سوتے تھے
اب ان بچوں کو میرا بولنا اچھا نہیں لگتا
یہ الفاظ کہنے والا نجانے کس کرب سے گزرا ہوگا۔ لیکن قصور سارا نئی پود کا بھی نہیں۔ وہ ایک نئی فضا، نئے زمین و آسمان میں سانس لے رہی ہے۔ ہم جو اس نئی فضا کو قبول نہیں کرتے اور ماضی کے مرغزاروں میں ہی بھٹکتے رہتے ہیں ان کے لئے ہی شاعر نے کہا ہے
شوکت ہمارے ساتھ بڑا حادثہ ہوا
ہم رہ گئے، ہمارا زمانہ چلا گیا
ہماری نسل ایک بے خبر، سادہ اور معصوم لوگوں کی نسل تھی۔ مجھے یاد ہے کہ اخبار میں کبھی، آبروریزی، ناجائز تعلقات یا آشنا کے ساتھ فرار، قسم کی خبریں آتیں تو ہم گھر والوں کے سامنے یوں بن جاتے جیسے ہم نے اخبار پڑھا ہی نہیں۔ آج کے دور میں نوجوانوں کو تو ایک طرف رکھیں، کمسن بچیاں بھی دھڑلے سے بتا دیتی ہیں کہ فلاں جگہ “ ریپ کیس” ہوا ہے۔ وہ الفاظ جن کا ہم زبان پر لانے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے آج کے بچے اتنی ہی روانی سے دہرا دیتے ہیں۔
ہمارے ایک دوست ہوا کرتے تھے، بزعم خود بہت آزاد خیال اور روشن دماغ ( Open minded). ان کے صاحبزادے کی شادی خانہ آبادی ہونے والی تھی۔ انہوں نے سوچا کہ بیٹا بھلا کیا جانے کی ازدواجی زندگی کے کیا تقاضے ہوتے ہیں چنانچہ انہوں نے بیٹے سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔
بیٹا اپنے کمرے میں لیپ ٹاپ پر مصروف تھا۔ ہمارے دوست نے تمہید باندھی کہ ضروری ہے کہ شادی کے بارے میں کچھ باتیں بیٹا بھی جان لے۔ اسے یہ سب بھلا اورکون بتائے گا۔
“ جی ڈیڈ! کیا بات کرنا چاہتے ہیں آپ” بیٹا بدستور کمپیوٹر پر مصروف تھا۔
“ یہی بیٹا کہ شادی کے بعد بیوی کے ساتھ کیا معاملات پیش آتے ہیں۔ فیملی کس طرح raise کرتے ہیں۔ I mean بچے وغیرہ کیسے۔۔” ہمارے دوست اٹک اٹک کر بول رہے تھے۔
“ آپ کیا جاننا چاہتے ہیں ؟” بیٹے نے کمپیوٹر سے نظریں ہٹائے بغیر پوچھا۔
آج کی نسل ہماری سوچ سے کہیں زیادہ باعلم اور عملیت پسند ہے۔ میں نے کہا ناں کہ ہم بہت ہی سادہ اور معصوم ہوا کرتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ چوتھی جماعت میں ایک مخلوط تعلیم ( کوایجوکیشن) والے اسکول میں پڑھتا تھا۔ جماعت میں آٹھ دس لڑکیاں بھی تھیں لیکن پورے سال ایک بھی لڑکی سے کبھی ایک جملہ بھی نہیں بولا۔ اگلے سال دوسرے اسکول میں منتقل ہوگیا۔ اس کے ٹھیک چھ سال بعد پھر ایسے کالج میں داخلہ لیا جو “ کو ایجوکیشن “ تھا۔ بہت ساری تو نہیں، البتہ اتمام حجت کے لئے،ہماری کلاس میں چھ لڑکیاں بھی تھیں جو کالج کے چار سالوں میں اسی کلاس میں رہیں ۔ ایک آدھ لڑکی نئی آئی اور چلی گئی ورنہ آخری سال تک وہی گنی چنی پانچ لڑکیاں تھیں ۔ ان چار سالوں میں صرف ایک بار ایک لڑکی سے اور صرف ایک جملہ بولا اور وہ بھی شدید ضرورت کے تحت جب ایک کوئز مقابلے میں وہ ہماری ٹیم میں شامل تھی اور ایک سوال کے جواب میں مشاورت کے لئے اس سے بات کرنا ناگزیر ہوگیا۔
ہماری نسل قصہ حاتم طائی، سند باد جہازی، عمروعیار کی زنبیل، گل بکاؤلی کی کہانیوں سے ہوتی ہوئی ابن صفی، نسیم حجازی، اے آر خاتون ، رضیہ بٹ اور سلمی کنول کے دور میں داخل ہوئی۔ تب بھی دت بھارتی، ایم اسلم، قیسی رامپوری، عادل رشید وغیرہ کے ناول چھپ کر پڑھنا پڑتے تھے۔ کالج میں آکر البتہ کرشن چندر ، قرت العین حیدر، عصمت چغتائی وغیرہ سے شناسائی ہوئی۔ منٹو بھی پڑھتے، لیکن گھر والوں کے سامنے نہیں۔
آج کی نسل کو ان سب کی ضرورت نہیں۔ انہیں جو کچھ درکار ہے وہ ان کی ایک جنبش انگشت کی محتاج ہے۔ گوگل نے انہیں وہ کچھ سکھادیا ہے جو ہمارے ہیڈماسٹر بھی نہیں جانتے تھے۔ انہیں عصمت اور کرشن چندر کو پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ موبائل فون کی اسکرین پر چلتے پھرتے منٹو اور واجدہ تبسم انہیں مل جاتے ہیں۔
میری نسل کا یہ ایمان ہے کہ آج کی نسل بہت ہی محروم اور نا آسودہ ہے۔ انہیں وہ بچپن ہی نصیب نہیں ہوا جو معصومیت اور بھولپن سے عبارت تھا۔ انہیں وہ مٹی کے کھلونے نہیں ملے جن میں لڑکیاں ہنڈکلیا پکاتی تھیں۔ گڑیا، گڈے کے بیاہ رچاتی تھیں ۔ لڑکے مٹی میں سنے ہاتھوں سے " کنچے" کھیلتے، پتنگیں لوٹتے، لٹو چلاتے۔
ہم یہ سب کچھ اپنے بچوں کو بتاتے ہوئے آبدیدہ ہوجاتے ہیں کہ ان کو یہ سب کچھ نہیں ملا۔ دراصل یہ اپنے آپ کو یاد دلانا ہوتا کہ ہم کیا کھو آئے ہیں۔ رہے آج کے بچے، تو انہیں ان چیزوں کی ضرورت ہی نہیں۔ وہ کسی قسم کے جذباتی بندھنوں میں بندھے بغیر اپنے سارے شوق پورے کرلیتے ہیں۔
ہماری نسل کا ایک بڑا طعنہ موسیقی کا ہے کہ ہمارے زمانے میں کتنی دلنشیں موسیقی، دل کو چھو لینے والی آوازیں اور خوبصورت شاعری ہوا کرتی تھی۔ آج کی موسیقی میں کیا دھرا ہے سوائے شور شرابے اور چیخم دھاڑ کے۔ بچے ہماری بات سے اتفاق کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی کہتے ہیں کہ فی الحال طلعت محمود کا گانا ہٹا کر عاطف اسلم یا علی عظمت کا لگادیں۔ ویسے ایک بات ہے ، کسی پرانے سے پرانے گانے کو نئی نسل میں مقبول کروانا ہو تو اسے کسی نئے گلوکار سے " کوک اسٹوڈیو" میں گوا دیں۔
ہم اپنے دور کی سادگی، دھیما پن، شرافت ، محنت و مشقت کے قصے بڑے فخر سے سناتے ہیں ۔ میں جب بچوں کو بتاتا ہوں کہ بس کے کرائے کے دس پیسوں میں دو پیسے اور ملا کر یعنی دوآنے میں گنے کا رس پی کر میں آدھا گھنٹہ پیدل چل کر جیل روڈ سے بہادر آباد آیا کرتا تھا اور یہ کہ کرایہ بچانے کے لئے اکثر صدر سے ٹاور ، بولٹن مارکیٹ یا صدر سے گُرو مندر پیدل چلنا عام تھا تو صاحبزادے کہتے ہیں کہ میں آپ کی جگہ ہوتا تو ان پیسوں کو بچانے کی بجائے پیدل چلنے سے بچنے کی کوشش کرتا۔
آج کا نوجوان جغرافیہ، سائنس، تاریخ ہر چیز گوگل کرکے جان لیتا ہے۔ اس کا " پریکٹیکل" یو ٹیوب پر دیکھ لیتا ہے۔ ایک ہم تھے کہ عتیق انگلش ٹیچر، رائل تحفہ ہارمونیم گائیڈ، رشیدہ کی کشیدہ کاری وغیرہ سے سار علم کشید کرتے تھے۔ ہم نے بہت تیر مارا تو فیس بک پر اکاؤنٹ بنا کر نئی نسل کو جتایا کہ دیکھو ہم بھی نئے زمانے کے ساتھ چل رہے ہیں۔ لیکن میرے کسی بچے کو فیس بک سے کوئی تعلق نہیں ۔ وہ انسٹا گرام اور زوم وغیرہ کے دور میں داخل ہوچکے ہیں۔ فیس بک پرانے لوگوں کا شوق رہ گیا۔
ہم دوڑتے ہوئے تھک جائیں گے لیکن زمانے کو چھونا ہمارے لئے مشکل تر ہوتا جاتا ہے۔ ہم جو مرفی کے ریڈیو، ہینڈل سے گھمانے والا اور بڑے سے بھونپو والا گراموفون، سولہ گھنٹے مستقل چلنے والے، چرخی والے ٹیپ ریکارڈ اور کالے ٹیلیفون کو ہی کل ترقی سمجھتے تھے، آج کے سات آٹھ سالہ بچے سے پوچھنے پر مجبور ہیں کہ موبائل میں پاس ورڈ کیسے ڈالتے ہیں۔
اور ہاں یہ وہ نسل ہے جو کسی کے گھر میں داخل ہوتے ہی بجائے سلام دعا کے پہلا سوال یہ کرتی ہے کہ “ وائی فائی” کا پاس ورڈ کیا ہے۔ اور جو بچے پہلے کبھی کھڑکی کے پاس سونے کی ضد کرتے تھے کہ وہاں سے آسمان پر جگمگاتے تاروں کو دیکھ سکیں ، اب ایسی جگہ بستر ڈھونڈتے ہیں جہاں موبائیل کا چارجر قریب ہی ہو۔ یہ نسل ہم سے تو دور ہے، اپنے آپ سے بھی دور ہے۔ انہیں ایک دوسرے کی نہیں بلکہ موبائیل اور نئے gadgets کی ضرورت ہے۔ باغوں میں، پارکوں میں جہاں چار بوڑھے سر سے سر جوڑے محو گفتگو ہوں گے وہاں نوجوان جوڑے اپنے اپنے فون پر جھکے نظر آئیں گے۔
شاید نئی نسل کی یہی بے اعتنائی پرانی نسل کو اپنی تیسری پیڑھی یعنی پوتوں اور نواسے نواسیوں کے قریب لے آتی ہے۔ وہ معصومیت جو ان کی اپنی اولاد میں کہیں نظر نہیں آتی، اسے وہ اپںے پوتوں ، نواسوں میں ڈھونڈتے ہیں۔ تیسری نسل بھی اپنے ماں باپ سے زیادہ دادا، دادی اور نانا، نانی کی چھاؤں میں ٹھنڈک پاتی ہے۔
لیکن شاید یہ مکافات عمل ہے۔ جیسی کرنی ویسی بھرنی۔ہم نے نئی نسل کو عزت اور اہمیت نہیں دی اور اب وہ ہمیں خاطر میں نہیں لاتی۔ کل کو یہی نئی نسل ہماری طرح گذرے وقت کو یاد کرکے آہیں بھرے گی۔ کل پھر کوئی یہی شکوہ کرتا نظر آئے گاکہ۔
ہم رہ گئے، ہمارا زمانہ چلا گیا
تبصرہ لکھیے