میرا سفر ابن بطوطہ والی سیاحی سے ہر معاملے میں الگ ہے. زندگی تو خود ایک سفر ہے اور نہ بھی چاہیں تو بھی یہ جاری وساری رہتا ہے، کبھی نہیں رکتا چلتا رہتا ہے۔
ہاں کبھی کبھی ہم محسوس کرتے ہیں کہ زندگی کی گاڑی جس پر آپ سوار ہیں رکی ہوئی ہے۔جیسے کسی پانی کے جہاز پر آپ بیٹھے ہوں ،اور ایک سفر بھی جاری ہو مگر جہاز کے باہر تا حد نگاہ پھیلا ہوا پانی ر کا ہوا لگتا ہے ،تو آ پ اس مغالطے میں آ جاتے ہیں کہ جہاز بھی کھڑا ہے ،چل نہی رہا ۔ مگر حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے ۔ تو گویا میں بھی ایک ایسے ہی مغالطے میں تھی کہ اچانک میری زندگی کے سفر نے پانی والے جہاز سے خلائی پرواز تک جست لگائی ۔
اور جن سمندروں رہگزار وں، جنگلوں اور نخلستانوں میں اپنے اٹل ارادے اور پہاڑ جیسی ہمت کے ساتھ ابن بطوطہ بیس سال سیاحت کرتا رہا ۔ انہے یاد کرنے میں میرے بیس گھنٹے بھی ،صرف نہ ہو ئے اور میں ہوائی جہاز کے دریچے کے شیشے سے سر ٹکائے ان جنگلوں اور سمندروں کے اوپر سے اڑتی ہوئی ۔اپنے پیارے وطن کے تاریخ شہر ملتان اتری ۔ ہزاروں بار اس شہر میں آ نا ہوا۔ پر اس بار اس تاریخی شہر کی سر زمین پہ لینڈ کرتے ہوئے عجیب سا جوش ،اور خوشی تھی کہ جلدی جلدی امیگریشن کے تمام مراحل طے ہوں اور میں اپنے مقام پہ پہنچوں۔
یہ سفر رب سے جڑنے کا سفر تھا اور مجھے " جامعہ محصنات ملتان " پہنچ کہ " تربیتی میڈیا ورکشاپ برائے صو بہ پنجاب لینی تھی "
اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت سے تمام مراحل عافیت اور بہت تیزی سے طے ہو گئے اور گاڑی "جا معہ محصنات" کی عمارت کے سامنے رکی۔دل میں سکون سا اترا اور الحمدللہ پڑھ کہ جب میں اندر گئ تو اپنے صوبے کی نگران شہناز مجید صاحبہ کو مہمانوں کا منتظر پایا۔ وہ مہمانوں کو بڑے پیارے انداز میں مختلف ہدایات دے رہیں تھیں۔ چہرے پر بڑی جاندار مسکراہٹ تھی اور جس محبت اور گرم جوشی سے انہوں نے استقبال کیا سمجھے ساری تھکن اتر گئی ۔
ہال پہ نظر ڈالی تو پینا فلیکس پہ بڑی پیاری خوش خطی میں لکھی یہ تحریر " ستارے جس کی گرداں ہوں وہ کارواں تو ہے" اپنی طرف کھینچ رہی تھی ۔بچیوں نے بڑے پیارے پنک اور مو کلر کے پیپر روز سے ڈائیس کو سجا رکھا تھا ٹیبل پہ پڑ ی فریش گلابوں کی باسکٹ بڑی بھلی لگ رہی تھی ۔ مختلف پینا فلیکس دیواروں پہ آ ویزں تھے اور ان پر لکھیں پراثر تحریریں دلوں کو جھنجھوڑ رہیں تھیں۔خوبصورت آ واز میں تلاوت کلام پاک کی سورہ حمم سجدہ کی آیت نمبر 30 تا 36 سے ورکشاپ کا آ غاز ہوا۔
ورکشاپ میں مختلف پروگرامز پر گفتگو اور لیکچرز ہوئے۔ داعی دین اور عصر حاضر کے چییلنجز ، آ سان نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد،
نیا زمانہ نئی صبح وشام پیدا کر ، تمھارے عزم سے دنیا بدلی جائے گی ، مجھے رب قیمتی سمجھے، اور تیری ذات سے ہیں سلسلے سارے،
وہی جہاں ہے تیرا جس کو تو کرے پیدا ۔ہر پروگرام اپنی مثال آپ تھا اور اس شعر کی مکمل تصویر تھا۔ میرے ہمدم میرے دوست
ہم نے دنیا بد لنی ہے۔مرکز سے آ ئی ہوئی ٹیم اپنے اپنے شعبے میں بے پناہ مہارت رکھتی تھی۔ ان کا انداز بیان پر اثر الفاظ اور سکھانے کا بہترین انداز بے حد متاثر کن تھا۔
وہاں بیٹھے بیٹھے میں محسوس کر رہی تھی کہ ابھی تو میں طفل مکتب ہوں اور ان شعبوں کی آ گاہی اس ورکشاپ نے دی ہے اور شدت سے ان ساتھیوں کی کمی محسوس ہوئی جو موجود نہی تھے کہ کاش کہ وہ بھی موجود ہوتے کیونکہ ہر چیز سمجھا ئ نہی جا سکتی نہ لکھی جا سکتی ہے ۔بس جو افراد اس طرح کی ورکشاپ میں شامل ہوتے ہیں وہی اس کی آفادیت کو سمجھ سکتے ہیں ۔ صحیح کہتے ہیں سب کہ ا یسی محفل پہ فرشتوں کا سایہ ہوتا ہے۔وہاں محصور کن ماحول میں بیٹھ کہ پاکیزہ خیالات کا آنا اور کچھ کرنے کی دھن کا جذبہ ابھرنا ہی اس ورکشاپ کی کامیابی کی ضمانت ہے۔
ڈپٹی سیکرٹری اور میڈیا کوآرڈینیٹر آ منہ عثمان کا درس سنتے ہوئے دل میں اکثر خیال آتا کہ اتنی خوبصورت آواز اور اتنا بہترین درس ان کی خود کی شخصیت کیسی ہو گی۔ تر بیت گاہ میں اللہ تعالیٰ نے ملاقات کرا دی کبھی سوچا نہیں تھا کہ یوں ملاقات ہو گی۔ واقعی وہ اپنے درسوں کی طرح اپنی شخصیت میں بھی اپنی مثال آپ تھیں ۔
ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے ہم زمانے سے نہیں
دور دور سے آ ئ پیاری بہنیں کچھ بہنوں کے ساتھ چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔ یہ صرف رب سے جڑنے کی خاطر اپنا گھر بار چھوڑ کے آ ئیں ۔ یہ سب بہنیں ایک مٹھی کی مانند تھیں۔ بغیر زات پات کی تفریق کے صرف تحریکی ساتھی، کچھ کرنے کا جذبہ، کچھ سیکھنے کی دھن نہ کوئی جھنجھلاہٹ نہ غصّہ اور نہ کوئی تھکن ۔ آ خر میں شرکا کی حو صلہ افزائی کے لیئے مرکز کی طرف سے سرسٹیفیکٹ دیے گئے" ڈائریکٹر میڈیا سیل عالیہ منصور نے بڑ ے محبت بھرے انداز میں شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور حالات پاکستان پر بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور آ ئ ایم ایف کے غلاموں نے پاکستان کا حال اور مستقبل تباہ کر دیا ہے، کراچی میں جماعت اسلامی کی بڑھتی ہو ئی مقبولیت کی وجہ سے حکومت الیکشن سے بھاگ رہی ہے .
اس میں جماعت اسلامی کا نہیں کراچی کا نقصان ہے۔جو کچرے کا ڈھیر بن چکا ہے" ۔ ناظمہ صوبہ تسنیم سرور نے بھی شرکا کا شکریہ ادا کیا اور وطن عزیز کی تباہ حالی پہ فکر کا اظہار کیا کہ "کرپشن کی وجہ سے وطن عزیز ایک لینڈ مافیا بن چکا ہے ، اور مزید ملک میں درپیش مختلف مسائل پر روشنی ڈالی ، اور انہوں نے کہا بھارت اپنی طاقت کے نشے میں کشمیر ی بہن بھائیوں پر ظلم کا ہر ہتھکنڈہ آزما رہا ہے ، حکومت کو چاہیے کہ اقوام عالم کے سامنے ان کا مقدمہ ٹھوس طریقے سے رکھے اور اپنے بہن بھائیوں کی آ زادی کے لیئے عملی اقدامات اٹھائے۔
" ناظمہ صوبہ کے خطاب کے ساتھ ہی اس پر وقار محفل کا اختتام ہوا اللّہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بہترین طریقے سے عمل کی توفیق دے اور اس سیکھے علم کو سیکھانے کی توفیق بھی دے۔ آمین
خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو
سکوت لا لہ وگل سے کلام پیدا کر
بہت بو جھل دل کے ساتھ اپنے عزیز بہنوں اور عزیز نظم کو الوداع کہا اور اس عزم کے ساتھ واپسی کی ۔
ہے پکارا جو تو نے تو ہم آ ئیں گے
بننے بازو تیرا دم بدم آئیں گے
تبصرہ لکھیے