سائینسی نقطہِ نظر سے دیکھا جائے تو ہر شے کا ایک وجود ہے ، اور ہر وجود کے گرد ایک ہالا ہوتا ہے ، جسے aura کہتے ہیں ۔ ہر وجود کا ہالا دوسرے وجود کو بہ یک وقت اپنی جانب کھینچتا بھی اور اپنے سے دور دھکیلتا بھی ۔
یہ جو چیز ہم کھو دیتے ہیں ، یا جو ہاتھ ہم سے چھوٹ جاتا ہے وہ کبھی پلٹ کر واپس ہمارے پاس نہیں آتا ۔ ممکن ہے کہ اس جیسا یا اس سے بہتر ہمارے پاس آ جائے، مگر جو انس اور اس چھوٹے ہوئے ہاتھ سے ہوتا ہے ، جو ایک قلق گزرے ہوئے کل کا ہوتا ہے ، اس کی کمی آنے والا دن پورا نہیں کرتا ۔ یہاں تک کہ اگر کوئی جانے والا پل لوٹ آئے یا بچھڑا ہوا واپس پلٹ آئے تو بھی ایک غیر معمولی خلا برقرار رہتا ہے۔ حفیظ ہوشیارپوری نے کہا تھا ناں،
اگر تُو اتّفاقاً مل بھی جائے
تری فُرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے
تو وہ جو ایک شے کے وجود کا عدم ہے ، اس کا خلا ہمیشہ برقرار رہتا ہے ، البتہ نئے وجود کا ہالا شاید منظر کو دھندلا دیتا ہے ، کچھ یقین سے کہا نہیں جا سکتا کہ نئے وجود کا ہالا ہے یا نم آنکھوں نے پردہ طاری کر دیا،
امجد اسلام امجد نے اسے یوں بیان کِیا:
کہاں سے چلا تھا جدائی کا سایا ، نہیں دیکھ پایا
کہ رستے میں تھی آنسوؤں کی روانی،ذرا پھر سے کہنا
مگر کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا ، یوں بھی تشکیک کا عہد ہے ، ہمارا اپنا وجود بھی ایک قیاس ہے ، یا شاید گمان ، یا ایک خیال، کچھ کہا نہیں جاسکتا ۔
یعنی ، اعتبار ساجد کے الفاظ میں ،
جیسے کسی خیال کا سایہ ہیں دو وجود
ہم بھی اگر قیاس ہیں، امکان تم بھی ہو
یوں بھی، دنیا کو ایک خواب سمجھا جاتا رہا ہے۔ یا شاید کسی خواب کا عکس۔قدیم یونانی مفکرین کا تو یہی ماننا تھا ۔
تبصرہ لکھیے