روس اور امریکہ کی یوکرین جنگ ہر روز خطرناک شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ جس سے ساری دنیا بری طرح متاثر ہے۔ یہاں انگلینڈ میں مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے۔ گیس کی کمی اور سرد موسم کی بے رحمی کی وجہ سے اندازہ ہے کہ اس موسم سرما میں بوڑھے اور اپاہج بہت سے لوگ آنجہانی ہو جائیں گے۔
ایک عام اوسط درجے کے گھر کی ہفتہ بھر کی گروسری چار سو پاؤنڈز تک آیا کرتی تھی۔ جو اب سات سو پاؤنڈز کا فگر عبور کر چکی ہے۔ گھر کا پانی کا فکس بل اڑتالیس پاؤنڈز ماہانہ ہوا کرتا تھا جو رواں ماہ سے اڑسٹھ 66 پاؤنڈز کر دیا گیا ہے۔ لندن جیسے خاموش ایک حد تک محدود رہنے والے معاشرہ میں ہر شخص یوکرین جنگ ، جنگ کی پھیلتی ہوئی صورت حال اور جنگ کے معاشی اثرات پر بات کرتا نظر آتا ہے۔ یعنی خاموش معاشرہ جنگ کی ہولناکی چیخ چیخ کر بیان کر رہا ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ یوکرین کی جنگ نے لوگوں کی چیخیں نکال دی ہیں۔ دراصل لندن ایک تعلیم یافتہ باشعور لوگوں کا شہر ہے۔ یہاں کے لوگ مذکورہ جنگ کے اسباب ، جنگ کی نوعیت اور اثرات سے آگاہ ہیں۔
جنگ عظیم اوّل ، جنگ عظیم دوم لوگوں کو ازبر ہے۔ جنگ عظیم دوم میں جاپان اور جرمن کے پاس ایٹمی ہتھیار نہ تھے۔ اب تو طرفین ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ امریکہ جاپان پر ایٹم بم گرا کر اپنی خباثت اور سنگدلی کا عملی مظاہرہ کر چکا ہے۔ میڈیا خاموش ہے لیکن افغانستان پر گرائے گئے مدَر آف بم بھی منی ایٹم بم ہی تھے۔ امریکہ انسانوں کا آزمودہ بے رحم قاتل ہے۔ روس بھی ایٹم بم استعمال کرنے کی کھلی دھمکی دے چکا ہے۔ امریکہ کے دو جنگی جہاز کراچی مشترکہ جنگی مشقوں کے بہانے پہنچ چکے ہیں۔ انڈیا ہمارے ہی سمندر سے ہمارے ماہی گیر پکڑ کر لے گیا ہے۔
ہمارے حکومتی اور غیر حکومتی سیاست دانوں نے ہمیں عالمی طور پر ان پیچیدہ اور گھمبیر صورت حال میں امن کی نوبل انعام یافتہ ملالہ کے مقروض پاکستان کے پیسوں سے کئیے گئے استقبال اور عمران خاں کے جلسوں اور مقدموں میں مصروف کر رکھا ہے۔ ملالہ کی امن کے لئیے کی گئیں مساعی ، ورلڈ ٹریڈ سنٹر حادثہ اور اسامہ بن لادن شہید کی لاش یہ سب امریکہ کے ٹوپی ڈرامے ہیں۔ چونکہ ہماری حکومتیں امریکہ کی ابدی غلام ہیں ، اس لئیے ان سارے ٹوپی ڈراموں سے سب سے متاثر ملک پاکستان ہے۔عمران خان پر مقدمات کوئی ویلیو نہیں رکھتے۔ یہ عوام کو بے وقوف بنانے کے لئیے قائم کئیے جاتے ہیں۔ ان مقدمات نے زرداری اور نواز شریف کا کیا بگاڑ لیا ہے۔ جو اب عمران خاں کا بگاڑ لیں گے۔
سوچئیے آج تک کبھی کسی نے ذکر کیا ہے کہ پرویز مشرف نے سارا پاکستان امریکہ کے حوالے کرکے ہمارے ڈیڑھ لاکھ پاکستانی مروا دئیے ہیں۔ مشرف کو پاکستان لا کر اس پر مقدمہ چلایا جائے۔ بیمار تو مشرف اب ہوئے ہیں۔ سالوں صحت مند تھے اور لندن میں مجرے کیا کرتے تھے۔ آج تک بھاشا ڈیم کا حساب کسی نے ثاقب نثار صاحب سے مانگا ہے۔ عمران خاں کے ہر جلسہ پر خرچ ہونے والے کروڑوں روپے کہاں آ رہے ہیں۔ پاکستانی ناخواندہ عوام جو آج بھی دودھ لیٹر کی بجائے کلو کے حساب سے بیچتی اور خریدتی ہے۔ پاکستان کی سڑکوں پر ہڑبونگ مچاتی ٹریفک جہالت ناپنے کا پیمانہ ہے۔ پاکستانی ایسی قوم ہے جہالت کی وجہ جسے اپنے فائیدہ اور نقصان کا بھی علم نہیں ہے۔ جسکو رہبر اور راہزن کی پہچان نہیں ہے۔
پچھتر سالوں سے عالمی استعمار کے ایجنٹوں سے ٹھوکریں کھا کھا کر پھر بھی ان ہی کے دروازوں کے بھکاری بنے ہوئے ہیں۔ناخواندگی کی وجہ سے اسی غلامانہ زندگی کو ہی اصل زندگی سمجھتے ہیں۔ مسلم لیگ ، پیپلز پارٹی اور اب تحریک انصاف کے نام سے بہروپیے عمران خاں کو قوم پر مسلط کیا ہوا ہے۔ ان ایجنٹوں کے سب سے زیادہ پجاری پنجاب میں بستے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کا تعلیم یافتہ صوبہ پنجاب ہے۔ جبکہ گراؤنڈ ریالٹی یہ ہے کہ پنجاب کے لوگ ہی ن لیگ ، پیپلز پارٹی اور عمران خاں کے سب سے زیادہ پجاری ہیں۔ عالمی استعمار کے ان مداریوں سے نجات کے لئیے ہماری یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ جب تک پنجاب کے علماء اہل حق ن لیگ ، ق لیگ ، تحریک انصاف اور دیگر سیاسی پارٹیوں سے اپنی اپنی ذاتی وابستیاں تیاگ کر خالصتا عوام کی آگاہی اور بھلائی کے لئیے میدان سیاست میں نہ اتریں گے۔ عالمی استعمار کی غلامی کی زنجیریں ٹوٹ نہ سکیں گی۔
میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے کہ پنجاب کے علماء اکرام کو مختلف پارٹیاں استعمال کر رہی ہیں۔ بلکہ بہت بے دردی سے استعمال کرتی ہیں۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ پنجاب کے علماء اکرام طالبان کی طرح کفن باندھ کر نکلیں لیکن کم از کم کے پی کے اور بلوچستان کے علماء اکرام کی طرح تو میدان سیاست سنبھال لیں۔ آپ کے ارد گرد جو بڑے بڑے رعب دار ایم این اے اور ایم پی اے بستے ہیں۔ خش و خاشاک کی طرح بہہ جائیں گے۔ مولانا حق نواز جھنگوی شہید رحمت اللہ علیہ نے جب میدان سنبھالا تھا تو حضرت تن تنہا ہے۔
سب سے پہلے اپنے ہی تمسخر اڑایا کرتے تھے۔ لیکن جب جھنگوی گرجتے ہوئے بہتے آنسوؤں کے ساتھ کہا کرتے کہ لوگو بتاؤ میں کہاں جاؤں میری اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی گالی دی جا رہی ہے۔ جھنگوی رحمت اللہ علیہ کے ایک ایک لفظ سے چھلکتے اخلاص کو دیکھکر کر لوگ ساتھ ملتے گئے اور جاں نثاروں کا قافلہ بن گیا۔ پاکستان کی کشتی ڈوب رہی ہے۔ جنہیں ہم ملاح سمجھ رہے ہیں ، وہی کشتی میں چھید کر رہے ہیں۔ پنجاب کے نوجوان علماء اکرام جھنگوی رحمت اللہ علیہ کے اخلاص اور قربانی کے ساتھ میدان میں اتریں گے تو بات بنے گی۔
شروع میں حالات آئیں گے۔ بڑی بڑی گدیوں اور دستاروں کی قربانی دی جائیگی تو قوم کا بیڑا پار لگے گا۔میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ اگر پنجاب کے نوجوان علماء اکرام میدان سنبھال لیں یہ ایم این اے یہ ایم پی اے باطل ہیں ، حق کے سامنے باطل نہ ٹھہر سکیں گے۔ اور اگر پنجاب کے علماء اکرام گدیوں اور دستاروں سے چمٹے رہے اور نوجوان علماء اکرام بھی دنیا بنانے میں مگن رہے تو عالمی استعمار کی ماری ہوئی بد حال پاکستانی عوام روز محشر اپنا مقدمہ تو ضرور پیش کرے گی۔ یا اللہ پاکستان کے حال پر رحم فرما۔ آمین
چوہدری محمد ذوالفقار سِدّھو۔
تبصرہ لکھیے