زندگی میں ہمیشہ ستائش اور قدردانی نہیں ملتی۔ اور انسان محض مثبت رویوں سے نہیں سیکھتا۔۔
میرے فون نے یاد دلایا تھا کہ صبح سے رات تک اسپتال میں دس ہزار قدم چل چکی۔ اور اس دوران ایسے مریض دیکھے جن کے منہ سے فراٹے سے فحش گالیاں جھڑ رہی تھیں۔
ہمارا کام ہی الگ ہے۔ تھیٹر میں داخل ہونے پر پلاسٹک سرجری کا سارا عملہ انیستھٹیسٹ، ڈاکٹر، نرسیں پریشان کمرے سے باہر دیوار سے لگے کھڑے ہوں اور کمرے میں موجود انیس سالہ نوجوان زبان سے گولہ باری کررہا ہو۔ اور آپ نے آگے بڑھ کر بات کرنی ہے۔
ایمرجنسی میں آنے والے افراد کی حالت بھی مختلف نہیں ہوتی۔ نشہ ٹوٹ رہا ہے، غصہ بھڑک رہا ہے، یہ توڑا، وہ پھینکا، اس کو دھمکایا، اس پر آنکھیں نکالیں۔ مرنے مارنے کی دھمکی دی۔
وجوہات کئی ہوسکتی ہیں۔ والدین کے رشتے کی ٹوٹ پھوٹ اور سماجی ناہمواری ابتدائی اٹھان میں ٹیڑھ پیدا کردیتی ہیں۔ اسٹریس کو ڈیل کرنا نہیں آتا ، مشکل میں اعصاب کو قابو میں رکھ کر پروبلم سوولنگ نہیں کرسکتے۔ اپنا احساس محرومی، غصہ اور فرسٹریشن خود پر یا دوسروں پر نکالتے ہیں۔ دل سے یہ سمجھتے ہوں کہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور محرومیوں کا انتقام سماج میں ہر ایک سے لینا آپ کا حق ہے۔ اور بالکل جائز ہے۔ اور پھر آپ یہ بھی سیکھ جائیں کہ اپنے ہیجان، اشتعال اور ایذارسانی سے بااختیار اور معزز افراد کو اوور پاور کرسکتے ہیں۔ وہ آپ سے خائف اور بے بس کھڑے ہو جاتے ہوں۔ تو انسان کیا نہیں کرسکتا ؟
یہ ایک مشکل صورتحال ہے۔ اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے۔
ایسے مواقع پر مجھ کو علم ہوتا ہے کہ میرے لیے قدردانی یا تشکر کا ایک لفظ تو نہ ہوگا البتہ ہر سوال کے جواب میں اتنی اور ایسی انسانیت سوز گالیاں پڑیں گی کہ مجھے ان ہفوات میں سے اپنی مرضی کا مواد چھانٹ چھانٹ کر نکالنا ہوگا۔ اور اس کے باوجود اپنا کام کرنا ہے، بات کرنی ہے۔ اور یہ کام جذبات پر قابو رکھ کر دھیمی آواز اور مضبوط لہجے کے بغیر نہیں ہوسکتا۔
یہ مغرب ہے۔ یہاں ہر شخص کے رائٹس ہیں۔ نشے میں مبتلا ننگ دھڑنگ ہوم لیس شخص بھی نرسوں اور ڈاکٹروں کو باتیں سنا سکتا ہے، فحش گالیاں دے سکتا ہے۔ سیکورٹی گارڈز ساتھ خاموش کھڑے سنتے ہیں۔ ہاتھ لگانے سے پہلے دس مرتبہ سوچتے ہیں اور کوئی اقدام کرنے کے بعد سب کو کئی فارم بھرنے پڑتے ہیں۔
لہاذا ہم نے سیکھا ہے کہ ایسے موقع پر کیسے اپنی اسسمنٹ کرنی ہے۔ بات سننی ہے۔ اپنی بات کرنی ہے۔ اہم معلومات پھر بھی حاصل کرنی ہیں۔ اپنی کہاں اور کیسے حفاظت کرنی ہے۔ مینجمنٹ پلان بھی بنانا ہے اور اس فرد کی مدد بھی کرنی ہے۔
اور اس سب کے بعد اپنا جائزہ بھی لیتے رہنا ہے کہ کہیں ایسے تجربات کے سبب اس فرد کے لیے دل میں ایسا غصہ اور منفی جذبات نہ پروان چڑھ رہے ہوں جن کی وجہ سے میری ڈیوٹی آف کئر پر فرق آئے۔
اسے ہمارے یہاں
Counter transference
کہتے ہیں ۔
گالیاں اور دھمکیاں متانت اور توجہ سے سن کر اہم مکالمہ کرنے کے بعد سرجری کے لیے گرین سگنل دے دیا۔
سرجری کے بعد ریکوری میں جا کر ملاقات کی۔ نوجوان مسکرا رہا ہے۔ بات سن رہا ہے، بات کررہا ہے۔ میں پوچھتی ہوں، درد کیسا ہے؟ دوا سے فائدہ ہے؟ یہاں سے جانے کے بعد خیال رکھنا۔ فالو اپ کرنا ہے۔ کرائسس میں ہو تو ہمارا نمبر پاس ہونا چاہیے۔ اس نے جاتے جاتے شکریہ کہہ دیا۔ میں نے مسکرا کر آل دا بیسٹ کہا۔
سرجری کے عملے کا اضطراب ٹھنڈا پڑ چکا ہے۔ طوفان کے بعد رات گئے ہر طرف خاموشی ہے۔ میں ہاتھ میں لیگل فارمز اٹھائے واپس جارہی ہوں۔
اور پھر چار روز بعد واٹس ایپ گروپوں میں، فیس بک پر نظر ڈالتی ہوں تو کئی سپاس نامے پڑھ کر مسکراتی ہوں۔ خوش ہوتی ہوں کہ معلمی کا تقدس اور قدردانی باقی ہے۔ انسانوں سے امید باقی ہے۔
مگر سیکھنے کا عمل محض مدرسے میں بیٹھ کر کتاب پڑھنے سے مشروط نہیں۔۔۔
زندگی بھی بہت سکھاتی ہے۔
تبصرہ لکھیے