اسلام کی نسبت سے، اسلام کے رشتے سے
ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے
یہ نعرہ جس نے کشمیر میں بلند کیا ، وہ کوئی اور نہیں ، سید علی گیلانی ہی تھے ، جنہوں نے کشمیریوں کے دل میں آزادی کی شمع کو کبھی بجھنے نہیں دیا۔
سید علی گیلانی، شہدائے کشمیر کے امین تھے ، لاکھوں نوجوان ، جنہوں نےغاصب بھارتی حکومت سے نجات اور آزادی حاصل کرنے کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ، ان سب کے رہنما یہی سید علی گیلانی تھے۔ وہ ایسے آخری کشمیری حریت رہنما تھے جن کی قیادت پر پورا کشمیر متفق تھا ، جن کے اپنے مقصد اور اپنے نعرے سے وفا دارہونے کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں تھا۔
سید علی گیلانی کی پوری زندگی جہد مسلسل سے عبارت رہی۔ 1959 میں جماعت اسلامی کا حلفِ رکنیت پڑھا تو کشمیر کو بھارت کے شکنجے سے آزاد کروانے کی لگن پوری طرح ان کے دل و دماغ پر چھائی ہوئی تھی ۔ 1959 سے 2021 یعنی اپنی وفات تک ، ان 62 برسوں تک انہوں اس تمنا کی آنچ ایک پل کو بھی سرد نہ ہونے دی۔ بھارتی حکومت اورمقبوضہ جموں و کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت نے ان پر مظالم کےکم پہاڑ نہیں توڑے۔ تشدد ، آنسو گیس ، جیل ، قیدِ تنہائی ، کون سا ستم تھا جس کے ذریعے ہندو بنیے نے ان کے حوصلوں کو سرد کرنے کی کوشش نہ کی۔ مگر جب علی گیلانی کے آہنی عزم میں کسی صورت شگاف نہ کر سکے تو وہ حربہ آزمایا گیا جو ہر جابر ، کلمۂ حق کہنے والوں پر بالآخر آزماتا ہے ،
یعنی عہدوں اور دولت کے انبار کا لالچ ، مگر سید علی گیلانی کو اپنے خواب بہت عزیز تھے ، انہوں نے اپنے خوابوں کی قیمت لگانا گوارا نہ کیا۔
انہوں نے کہا تھا کہ" اگر بھارت اپنی ساری دولت ہمارے قدموں میں ڈال دے اور ہماری سڑکوں پر تارکول کی بجائے سونا بچھا دے تب بھی ہمارے ایک شہید کے خون کی قیمت نہیں ادا کر سکتا۔ "
احمد فراز نے کہا تھا
خریدارو،
تم اپنے کاغذی انبار لائے ہو؟
ہوَس کی منڈیوں سے درہم و دینار لائے ہو؟
تم ایسے دام تو ہر بار لائے ہو
مگر تم پر ہم اپنے حرف کے طاؤس
اپنےخون کے سرخاب کیوں بیچیں؟
ہم اپنے خواب کیوں بیچیں ؟
سید علی گیلانی ، اپنی آنکھوں میں آزادی کے ادھورے خواب سجائے اس دنیا سے رخصت ہوئے ایک برس مکمل ہو چکا ، وہ شاید اس مقید و محبوس ، ظلم کی دوزخ سے نکل کر ، بالآخر آزاد ہو گئے۔ بھارتی حکومت کو توقع تھی کہ شاید اب آزادیِ کشمیر کی جدو جہد ماند اورسرد پڑ جائے گی ، اور حقیقت بھی یہی تھی کہ حریت پسند کشمیری تو فی الواقع یکم ستمبر 2021 کو یتیم ہو گئے تھے ، مگر جو آزادی کا سبق ، سید علی گیلانی اپنی قوم کو پڑھا گئے تھے ، اس کو کشمیری ملت کبھی بھول نہیں سکے گی۔
آخری رات ہے یہ ، سر نہ جھکانا لوگو
حُسنِ ادراک کی شمعیں نہ بجھانا لوگو
انتہا ظلم کی ہو جائے وفا والوں پر
غیر مُمکن ہے محبت کو مٹانا لوگو
یہ اشعار انہوں نے اپنے ایک ٹیلی فونک خطاب میں پڑھے تھے ، جو حقیقتاً ان کی پوری زندگی کا نصب العین اور کشمیری ملت کو ان کا پیغام بھی تھا۔
علی گیلانی تو چلے گئے، مگر اپنے پیچھے ایک ایسی نسل تیار کر گئے جو ان کے خوابوں کی حفاظت جی جان سے کرے گی ، جو امید کی شمع کو کبھی بجھنے نہ دے گی اور جسے کسی صورت کوئی ظلم ، کوئی لالچ خاموش نہ کروا سکے گا۔ ظلم کی کوئی بھٹی ، کوئی آگ ایسی نہیں جس میں جذبات پگھل سکیں ، اور ان خوابوں کی قیمت نہیں لگ سکتی جو جاگتی آنکھوں سے دیکھے گئے ہوں۔
احمد فراز کہتے گئے ہیں،
ہمارے خواب تو اہلِ صفا کے خواب ہیں
حرف و نوا کے خواب ہیں
مہجور دروازوں کے خواب
محصور آوازوں کے خواب
اور ہم یہ دولتِ نایاب کیوں بیچیں
ہم اپنے خواب کیوں بیچیں؟
تبصرہ لکھیے