احمد سنجر کی وفات کے بعد سلاجقہ اعظم کی سلطنت میں ہر طرف انتشار تھا۔ تخت کے کچھ دعوے دار ضرور سامنے آئے لیکن وسطِ ایشیا سے The Great Seljuks کا اقتدار عملاً ختم ہو چکا تھا۔ اب یہ خطہ تین حصوں میں تقسیم تھا: افغانستان اور خراسان میں محمود غزنوی کے جانشیں تھے لیکن اختیار عملاً غوریوں کے ہاتھوں میں تھا۔ مشرق میں غیر مسلم قراخطائی قبائل بلاساغون سے اپنی حکومت چلا رہے تھے اور موجودہ قرغزستان، مشرقی قزاقستان اور سنکیانگ کا بیشتر حصہ اُنہی کے پاس تھا۔ پھر شمالی و وسطی حصہ خوارزم کے ترکوں کے پاس تھا، جن کا مرکز گرگانج تھا۔ وہی شہر جسے خوارزم بھی کہتے ہیں۔
خوارزم امر رہے گا!
یہ آمو دریا اور سیر دریا کا ڈیلٹائی علاقہ ہے، جہاں دونوں دریا بحیرۂ ارال میں گرتے ہیں، جسے فارسی میں کہتے ہی بحرِ خوارزم ہیں۔ بہرحال، خوارزم کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا، اپنے عظیم ریاضی دانوں محمد ابن موسیٰ الخوارزمی اور ابو ریحان البیرونی کی وجہ سے۔ Mathematics یا کمپیوٹر سائنس پڑھتے ہوئے آپ نے الگورتھم کا نام ضرور سنا ہوگا، دراصل یہ الخوارزم ہی کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔
یہاں کی زمین تو زرخیز ہے ہی لیکن یہ علاقہ بہت مردم خیز بھی ہے۔ ان دو بڑے ناموں ہی سے آپ کو کچھ اندازہ ہو گیا ہوگا۔ ابتدائی مسلم فتوحات کے بعد یہ علاقہ مختلف حکومتوں کا حصہ رہا اور بالآخر احمد سنجر کے بعد اسے مکمل طور پر آزاد ہونے کا موقع ملا۔
شاہانِ خوارزم کون تھے؟
یہ نئے حکمران ویسے خود کو خوارزم شاہ کہتے تھے، لیکن تاریخ انہیں خاندانِ انوش تگین کے نام سے بھی یاد کرتی ہے۔ کیونکہ اُن کا بانی انوش تگین نامی ایک غلام تھا، جسے سلجوق سلطنت نے خوارزم کا گورنر بنایا تھا۔ احمد سنجر کے بعد یہ کچھ عرصہ قراخطائی سلطنت کے باج گزار رہے لیکن پھر ایسے آزاد ہوئے کہ پورے خطے پر ہی اُن کا راج قائم ہو گیا۔ شاہانِ خوارزم نے اپنے تمام مخالفین کو شکست دے کر ایک عظیم سلطنت بنائی۔ اُس زمانے میں مشہور تو غوری اور ایوبی خاندانوں کی حکومتیں تھیں، لیکن رقبہ سب سے زیادہ انہی خوارزمیوں کے پاس تھا۔ 1212ء تک علا الدین محمد خوارزم شاہ خطے کی تینوں بڑی قوتوں قراخطائی، قراخانی اور غوری خاندان کو شکست دے کر موجودہ تقریباً پورے ایران، افغانستان اور وسطِ ایشیا پر حکومت بنا چکا تھا۔
ایک نازک دور
شاہانِ خوارزم کی کامیابیاں اپنی جگہ لیکن یہ مسلم دنیا کے لیے انتہائی نازک دور تھا۔ 1187ء میں صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں معرکہِ حطین میں شکست اور پھر مسلمانوں کی عظیم الشان فتح بیت المقدس کے بعد پورا یورپ مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا تھا۔ یورپ کی تین سب سے بڑی ریاستوں انگلینڈ، فرانس اور جرمنی کی مقدس رومی سلطنت کے بادشاہ بنفسِ نفیس تیسری صلیبی جنگ میں شریک ہوئے۔ جس میں صلاح الدین ایوبی کی ولولہ انگیز قیادت میں مسلمانوں نے عظیم الشان کامیابی حاصل کی لیکن پھر بھی اگلی تقریباً ایک صدی تک کسی نہ کسی صورت میں مسلم دنیا کا یہ حصہ حالتِ جنگ میں ہی رہا۔
خوارزم اور بغداد کی کشمکش
یہ ایسا وقت تھا جس میں مسلمانوں کو اتحاد کی سخت ضرورت تھی، لیکن اتفاق نامی کوئی چیز ان کے درمیان موجود نہیں تھی۔ ایک سے بڑھ کر ایک جاہ پرست حکمران مسلمانوں میں موجود تھا، اور خود خوارزم شاہی بھی کسی سے کم نہیں تھے۔ مسلم دنیا کی سب سے بڑی سلطنت بن جانے کے بعد وہ چاہتے تھے کہ بغداد کا عباسی خلیفہ بھی ان کے ماتحت آ جائے، بالکل ویسے ہی جیسے اُن سے پہلے سلجوق خلیفہ کے سرپرست تھے۔
یہاں عباسی خلیفہ ناصر الدین اللہ اور شاہِ خوارزم علا الدین محمد کے درمیان جو کھینچا تانی ہوئی، اس نے مسلمانوں کے زوال پر مہر ثبت کر دی۔ ناصر نے خوارزم شاہ کی یہ پیشکش قبول نہ کی اور پھر انہی دنوں میں دو ایسے واقعات پیش آئے، جن سے آپس کے تعلقات مزید خراب ہو گئے۔ ایک تو عباسی سلطنت سے متصل خوارزم شاہی صوبے کا گورنر ایک فدائی حملے میں قتل ہوا اور پھر خود علا الدین پر بھی ناکام قاتلانہ حملہ ہوا۔ ان کا الزام عباسی خلیفہ پر لگایا اور حالات اس نہج پر آ گئے کہ علا الدین نے عباسیوں کا دعویٰ خلافت ہی مسترد کر دیا اور کہا کہ عباسیوں سے زیادہ خلافت کا حق حضرت حُسین رضی اللہ عنہ کی اولاد کا ہے۔ اس لیے اُن کی اولاد میں سے ایک شخص علا الملک ترمذی کو خلیفہ بنانے کا اعلان کر دیا۔
خوارزم شاہ نے محض اس اعلان پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ بغداد کو فتح کرنے کے لیے 1217ء میں ایک بڑا لشکر بھی روانہ کیا۔ لیکن خدا کا کرنا دیکھیں کہ زاگرُس کے پہاڑی سلسلے میں ایسی برف باری پڑی کہ تمام راستے بند ہو گئے اور کئی مہینے موسم کی شدت سہنے کے بعد یہ لشکر ناکام و نامراد لوٹا۔ اسے خلیفہ کی کرامت سمجھا گیا۔
نامعلوم افراد
جب ایک طرف یورپ پانچویں صلیبی جنگ کی تیاریاں کر رہا تھا تو مسلم دنیا کے ایک نامعلوم طاقت وسطِ ایشیا میں قدم رکھ چکی تھی۔ یہ سن 1210ء تھا جس میں سنکیانگ سے تیان شان کا پہاڑی سلسلہ عبور کرنے والا ایک لشکر قراخطائیوں کے دارالحکومت بلاساغون تک پہنچ گیا جو آج کل قرغزستان میں ہے۔
اس مہم کے دوران قراخطائیوں کا جو نقصان ہوا، اُسے دیکھ کر علا الدین خوارزم شاہ کے دل میں یہ بات سما گئی کہ اسے مشرق کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے چین کو فتح کرنا چاہیے، لیکن چین میں اُس وقت چنگیز خان کی حکومت تھی اور یہ نامعلوم افراد دراصل اسی کے بیٹے جوجی خان کی قیادت میں وسطِ ایشیا آئے تھے۔
چنگیز خان نے دو دہائیوں کی محنت سے شمالی ایشیا کے منگول قبائل کو متحد کیا تھا۔ بدلتے موسموں اور حالات کے پیشِ نظر اس نے چین کا رخ کیا اور 1215ء میں بیجنگ کو فتح کر لیا۔ پھر اپنے بیٹوں کے ذریعے وسطِ ایشیا میں بھی چھوٹی موٹی مہمات کیں، تاکہ حالات کا اندازہ لگا سکے۔
دوستی کا ہاتھ، دشمنی کا ہاتھ
چنگیز خان، وہ نام جو تاریخ نہ پڑھنے والے اور اس موضوع میں دلچسپی نہ رکھنے والے بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ ظلم اور ستم کا دوسرا نام۔ 1218ء میں چنگیز نے خوارزم شاہ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا لیکن یاد رکھیں تاریخ کا اصول ہے کہ دو عظیم طاقتوں میں کبھی دوستی نہیں ہو سکتی، خاص طور پر اُن میں جن کی سرحدیں ایک دوسرے سے ملتی ہوں۔ جیسے آج امریکا اور روس میں دوستی نہیں ہو سکتی، بالکل ویسے ہی اُس زمانے میں منگول اور خوارزم شاہی ریاستوں میں بھی ایسا ممکن نہیں تھا۔
نہ چنگیز اپنے مغرب میں اتنی طاقت ور سلطنت دیکھنا چاہتا تھا اور نہ ہی خوارزم شاہ اپنے مشرق میں چنگیز خان جیسا حکمران۔ دلوں کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے لیکن چنگیز نے دوستی کا جو پہلا پیغام بھیجا تھا اس کے آخر میں لکھا تھا "میں تمہیں اپنے بیٹے کی طرح عزیز سمجھتا ہوں۔" یہ بات علا الدین خوارزم شاہ کو بہت بُری لگی کیونکہ اس جملے میں اُس کی تحقیر کا پہلو نکلتا تھا۔ کہتے ہیں ترکوں میں سلطان اپنی باج گزار ریاست کے سربراہ کے لیے بیٹے کا لفظ استعمال کرتا تھا۔ اگر چنگیز کی نیت یہی تھی تو علا الدین کا غصہ بجا تھا۔
بہرحال، دونوں ریاستوں میں آزاد تجارت کا معاہدہ طے پا گیا اور یہیں سے وہ 'سرد جنگ' شروع ہوئی، جس کا انجام بہت بھیانک نکلا۔
دنیا کا خفیہ ترین خط
اُدھر بغداد میں عباسی خلیفہ ناصر الدین اللہ علا الدین خوارزم شاہ کی جسارت پر پیچ و تاب کھا رہا تھا۔ یہاں اُس نے وہ فیصلہ کیا جو ہر گز کسی خلیفہ کے شایانِ شان نہیں تھا۔ اس نے چنگیز خان سے رابطہ کرنے کے لیے اپنے زمانے کا خفیہ ترین خط لکھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ خط ایک شخص کے سر پر گدوایا گیا تھا، یعنی Tattoo کی صورت میں لکھا گیا تھا۔ پھر بال بڑے ہونے کے بعد اس ایلچی کو منگول دارالحکومت قراقرم روانہ کر دیا گیا۔
خط کو اتنا خفیہ رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ بغداد سے قراقرم جانے کے لیے لازماً خوارزم شاہی سلطنت سے گزرنا پڑتا اور اس خفیہ خط کا وہاں سے گزرنا ممکن ہی نہیں تھا۔ اسی لیے عجیب و غریب خط تیار کیا گیا۔ طریقہ کامیاب رہا اور بالآخر یہ ایلچی چنگیز کے دربار میں پہنچ گیا، جہاں اس نے بتایا کہ خلیفہ کا خط اس کے سر پر تحریر ہے، سر منڈوا کر پڑھا جا سکتا ہے۔ اس خط میں چنگیز کو واضح طور پر کہا گیا تھا کہ وہ خوارزم شاہ پر حملہ کر دے اور اس معاملے میں ہم تمہارے ساتھ ہیں۔
اب چنگیز پر واضح ہو چکا تھا کہ اس نے وسطِ ایشیا میں قدم رکھے تو دیگر مسلمان غیر جانب دار رہیں گے، یہاں تک کہ امیر المؤمنین بھی! "گریٹ گیم" شروع ہو چکا تھا۔
تبصرہ لکھیے