17 اگست1988 کے سانحے کو 34 برس مکمل ہو گئے۔
مگر یہ پاکستان کا پہلا بد قسمت فضائی حادثہ تھا نہ آخری
آج ہم ایسے تمام اہم افسوسناک فضائی حادثوں کا ذکر کریں گے۔
فضائی سفر کو عموماً سب سے مہنگا اور پر تعیش سفر سمجھا جاتا ہے ،
مگر پاکستانی ایئر لائنز میں فضائی سفر ایک رسک اور خطروں کا کھیل بنتا جا رہا ہے۔ ابتدا میں پاکستان کی انٹرنیشنل ائیر لائن ایک مثالی ذریعہِ نقل و حمل تھی، مگر وقت کے ساتھ اس کا معیار گرتا چلا گیا اور محفوظ فضائی سفر بھی ایک خواب بن کر رہ گیا۔ حالانکہ ایک زمانہ وہ تھا جب پاکستان انٹر نیشنل ایئر لائنز نے چین کی ایئر لائنز اور ایمریٹس جیسی نام ور ایئر لائن کی تربیت کی۔
مگر پروفیشنل ازم اور لگن کی کمی نے اسی پی آئی اے کے سفر کو ایک ڈراؤنا خواب بنا کر رکھ دیا۔
پاکستان کا پہلا بڑا فضائی حادثہ 20 مئی 1965 کو پیش آیا، جب پی آئی اے کا طیارہ، قاہرہ کے ایئر پورٹ پر لینڈ کرتے ہوئے تباہ ہو گیا ۔ اس ہولناک حادثے میں 124 مسافر اپنی جان گنوا بیٹھے۔ یہ طیارہ بوئنگ 707 تھا۔
6 اگست 1970 کو پی آئی اے کا ایک اور طیارہ ، فوکر ایف 27 ، اسلام آباد سے اڑان بھرنے کے کچھ ہی دیر بعد، موسم کی خرابی کے باعث بےقابو ہو کر گر گیا۔ اس سانحے میں 30 مسافر جاں بحق ہوئے۔
8 دسمبر 1972 کو پی آئی اے کا ایک اور فوکر 27 طیارہ راول پنڈی کے قریب گر کر تباہ ہوا ، جس میں 26 مسافر جاں بحق ہوئے۔
پی آئی اے کا ایک اور طیارہ، بوئنگ 707 ، 26 نومبر 1979 کو جدہ ایئر پورٹ سے عازمینِ حج کو وطن واپس لاتے ہوئے تباہ ہو گیا۔ اس حادثے میں 156 مسافر جاں بحق ہوئے۔
23 اکتوبر 1983 کو پی آئی اے کا ایک اور فوکر ایف 27 طیارہ پشاور میں لینڈنگ کرتے ہوئے کریش ہوا، طیارے میں سوار 54 مسافروں میں سے 13 لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
17 اگست 1988 کو ہونے والا حادثہ، بہاولپور کے قریب پہنچ کر پراسرار انداز میں تباہ ہو گیا۔ یہ امریکی ساخت کا ہرکولیس سی 130 طیارہ تھا۔
اس طیارے میں صدر پاکستان چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق، چیئر مین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل اختر عبدالرحمٰن ، لیفٹننٹ جنرل میاں محمد افضال ، میجر جنرل محمد شریف ناصر ، میجر جنرل عبد السمیع، میجر جنرل محمد حسین اعوان، بریگیڈیئر صدیق سالک، بریگیڈیئر نجیب، امریکی سفیر آرنلڈ لیوِس رافیل اور امریکی ملٹری اتاشی بریگیڈیئر جنرل ہربرٹ ودیگر شامل تھے۔ مجموعی طور پر اس حادثے میں 30 افراد جاں بحق ہوئے۔
اس حادثے کو پاکستان کے خلاف ایک عظیم سازش سمجھا جاتا ہے، مگر اس سازش کی گتھی آج تک نہیں سلجھ سکی۔
پی آئی اے کا ایک فوکر طیارہ 25 اگست 1989 کو گلگت سے اڑان بھرنے کے بعد غائب ہو گیا۔ طیارے پر 54 مسافر سوار تھے۔ آج تک اس طیارے کا ملبہ نہیں مل سکا۔
پی آئی اے کا ایک طیارہ،ایئر بس 300 اے ، 28 ستمبر 1992 کو نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں بادلوں سے ڈھکی ایک پہار کی چوٹی سے ٹکرا گیا۔ طیارے میں سوار 167 لوگ جاں بحق ہو گئے۔
19 فروری 2003 کو پاک فضائیہ کا فوکر 27 طیارہ کوہاٹ کے قریب دھند سے ڈھنکے پہاڑوں سے ٹکرا گیا۔ اس میں سوار ایئر چیف مارشل مصحف علی، ان کی زوجہ اور دیگر 15 مسافرین جاں بحق ہوئے۔
24 فروری 2003 کو چارٹرڈ طیارہ ، سیسنا 402 بی ، بحیرہ عرب میں گر کر تباہ ہو گیا۔ اس میں افغان وزیر جمعہ محمد محمدی، چینی ماہرین اور افغان عہدیدار اور پاکستانی عملے کے افراد جاں بحق ہوئے۔
دس جولائی 2006 کو پی آئی اے کا فوکر ایف 27 تباہ ہوا ، جو ملتان سے لاہور آ رہا تھا۔ اس طیارے میں سوار 45 افراد جاں بحق ہوئے۔
28 جولائی 2010 کو ایئر بلیو کا طیارہ ایئر بس 321 ، کراچی سے اسلام آباد آتے ہوئے ، لینڈنگ کے دوران مارگلہ کی پہاڑیوں سے ٹکرا گیا، جس سے اس میں سوار 152 لوگ جاں بحق ہو گئے۔
20 اپریل 2012 کو کراچی سے آنے والا ایک اور طیارہ ، بھوجا ایئر لائن کا ایئر بس 737 خراب موسم کے باعث اسلام آباد میں گر کر تباہ ہو گیا۔ طیارے میں سوار 130 افراد جاں بحق ہوئے۔
7 دسمبر 2016 کو پی آئی اے کا طیارہ اے ٹی آر 42، چترال سے اسلام آباد آتے ہوئے تباہ ہو گیا۔ اس طیارے میں سوار معروف نعت خواں جنید جمشید سمیت 48 افراد جاں بحق ہو گئے۔
22 مئی 2020 کو پی آئی اے کی ایئر بس 320 اے کراچی کے قریب کریش ہو گئی۔ یہ طیارہ لاہور سے کراچی کا سفر مکمل کر رہا تھا۔ اس طیارے میں سوار 91 مسافر اور 8 عملے کے لوگ جاں بحق ہو گئے۔
2020 کے اس طیارہ حادثے کی تحقیقات ہوئیں تو یہ بات سامنے آئی کہ بہت بڑی تعداد میں پائلٹس جعلی ڈگریز کے حامل ہیں، جنہیں سفارشات اور رشوت کے نتیجے میں بھرتی کیا گیا ہے۔ ایسی صورت حال میں ان کے ہاتھوں میں مسافروں کی زندگیاں سونپنا کسی طور دانش مندی نہیں۔
ان طیارہ حادثات کی بڑی وجوہات میں پرانے اور ناقص طیارے، پیشہ ورانہ تربیت سے محروم ٹیم، موسم اور نا مساعد حالات شامل ہیں ۔
تبصرہ لکھیے