ہوم << امارتِ اسلامیہ حکومت کو ایک سال مکمل-شبیر احمد

امارتِ اسلامیہ حکومت کو ایک سال مکمل-شبیر احمد

پچھلے سال اگست کے مہینے میں برسراقتدار آنے والا امارت اسلامیہ اس ایک سال میں کئی اتار چڑھاؤ کا شکار رہا۔کامرانیوں اور ناکامیوں کے دور دورےرہیں ۔طویل عرصے کی جنگ وجدل اور نامساعدی کے باعث ملک کو سنوارنے کی کوشش میں کئی پاپڑ بھیلنے پڑے۔معیشت کی استحکامی کی جدوجہد کا نا رکنے والا سلسلہ رونما ہوا۔ رہی سہی کسر قدرتی آفات بصورت سیلاب اور زلزلوں نے مکمل کردی۔ بڑے بہادر امریکہ نے مشکل وقت دینے میں ہر محاز کو کھولے رکھا۔مگر اس سب کے باوجود تعمیرو ترقی کے لئے سراغ رسانی کا سلسلہ ہمارے سمع و بصر کی قوتوں نے ہر لمحہ محسوس کیا ۔

پچھلے سال طالبان کابل پیش قدمی کے وقت اشرف غنی نے اچانک ملک کو خیر آباد کہا اور تمام تر کاروباری مراکز اور سرکاری ادارے وقتی طور پر بند رہے، جس سے معیشت کی کھوکلی بنیادیں بکھرنے اور زمین میں دھنس جانے والی ہوگئی۔ دوسری جانب امریکہ نےنئی حکومت پر پابندیوں کا آغاز نو کردیا۔ بیرون ملک افغانستان مرکزی بنک کے کل ساڑھے سات ارب ڈالر کے اثاثے منجمد کردیئے اوراس تک افغان حکام کی رسائی کو اپنے مذموم عزائم کے تحت ناممکن بنا دیا۔ناسازگاری اور ناہمواری کے یہ ابتدائی لمحات تھے جس نے نئی حکومت کو ایک سال تک مشکل میں ڈالے رکھا۔

سرکاری اداروں کی بازیابی کے بعد زمام کار سنبھالتے ہی نئی حکومت نے تعلیمی شعبے میں قدرے کاہلی کا مظاہرہ کیا ۔ لڑکیوں کے اسکولوں پر پابندی سے لے کر نصاب میں تغیر کی صدائیں جب مغرب کے ایوانوں پر پڑی تو ناقدین نے دھمکیوں کے تیر برسانے شروع کئے۔ ایسے میں کیا کیا جائے؟ بقول شاعر کے

؎تماشہ فتنہ گروں کا تو دیکھئے صاحب
ہمیں کو لوٹ کے ہم سے سوال کرتے ہیں

مگر یہاں سوال نہیں کیاگیا ، گھمنڈ میں مبتلا بڑے بہادر نے ابتلا اور آزمائش کے شکار نئی حکومت کو سخت نتائج سے خبردار کردیا اور لڑکیوں کے اسکول کے معاملے کو اثاثوں کی بحالی سے مشروط کردیا ۔

فغانستان مرکزی بینک کے زر مبادلہ کے ذخائر کے ضمن میں کچھ بیرونی اثاثے موجود ہیں۔ ان بیرونی اثاثوں کی کل حجم ساڑھے سات ارب ڈالر ہے۔
اگست 2021 میں امارت اسلامیہ کے قیام کے بعد یہ اثاثے تشکیک کا موجب ٹھہرے جب امریکہ کی جانب سے طرح طرح کی پابندیوں کے دور دورے شروع ہوئے۔ ان اثاثوں کو بھی منجمد کردیا گیا۔ یہ بات تو اظہرمن الشمس ہے کہ انسانی امداد بنا کسی شرط اور تعصب کے کی جاتی ہے۔ مگر یہاں افغان عوام بھوک اور افلاس سے مرتے رہے اور امریکہ اپنے شرائط منوانے کا فکر کرتا رہا۔ جو منافقت کی ایک بھیانک تصویر ہے۔

رواں سال پھر قدرتی آفات نے بڑے پیمانے پر ملک گیر تباہی کے نئے ریکارڈ قائم کئے۔ زلزلہ سیلاب اور داعش کی شتر بے مہاری نے خطے کے ممالک کی توجہ افغانستان کی جانب مرکوز کردی۔ ایسے میں پاکستان اور چین کی کاوشوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ ان دونوں ممالک باالخصوص پاکستان نے نہ صرف دنیائے عالم کے سامنے زدکوب افغانستان کا مقدمہ لڑا بلکہ عزیر تر غمخوار کاکردار بھی بخوبی نبھایا۔ رواں سال چین نے افغانستان کی صورتحال پر وزرائے خارجہ سربراہی اجلاس منعقد کیا ، جس میں روس اور چند دوسرے ممالک نے افغان سفیروں کو عبوری طور پر کام کرنے کی اجازت بھی دی۔ چین نے سرمایہ کاری کے باب میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ وقتا فوقتا یہ پاکستان اور چین اثاوں کی بحالی کا مطالبہ بھی بلند کرتے رہے۔
انتظامی امور پر قابوپانے میں امارت اسلامیہ نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیئے ہیں۔ ہر ادارہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں شب وروز مگن ہے۔معمولات زندگی طمانیت کے ساتھ رواں دواں ہے۔ لوگ خوش باش نظر آرہے ہیں۔ اس لئے اس معاملے میں ان پر سوال اٹھانا مشکل ہےکیونکہ وہ اس کو کافی حد تک سنبھالے ہوئے ہیں۔

پچھلے ماہ تاشقند میں افغانستان کے موضوع پر ایک کانفرنس منعقد ہوا۔ کانفرنس میں دنیا بھر سے افغانستان کے خصوصی نمائندگان شریک ہوئے ۔ اس کانفرنس کے امید افزاء نتائج برآمد ہوئے، جب افغانستان کے لئے امریکہ کے خصوصی نمائندے تھامس ویسٹ نے کہا کہ کہ امریکہ افغانستان کے منجمد اثاثے بحال کرنے پر تیار ہے، تاہم امارات اسلامیہ کو اثاثوں کے محفوظ اور شفاف استعمال کی یقین دہانی کروانا ہو گی۔ مگر بدقسمتی کا عالم دیکھئے کہ کچھ روز قبل کابل میں القاعدہ کا امیر ایمن الظواہری امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہوا۔ جس سے طالبان کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا جانے لگا ۔ اس واقعے سے اثاثوں کی بحالی پر ضرور اثر پڑے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ اثر نہیں پڑنا چاہیے کیونکہ وہ اثاثے افغان عوام کے ہیں۔

اس لئے
ظلم کا زہر گھولنے والے
کامراں ہو سکیں گے آج نہ کل
جلوہ گاہِ وصال کی شمعیں
وہ بجھا بھی چکے اگر تو کیا
چاند کو گل کریں تو ہم جانیں

مندرجہ بالا عمومی اور سرسری تجزیئے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ طالبان کا افغانستان کئی حوالوں سے کامیاب جبکہ کئی حوالوں سے ناکا م رہا۔ دنیائے عالم کی توجہ تو حاصل رہی ، مگر امریکہ امن کے فاختہ کو مسرت نہ دے سکیں۔جن کے ہاتھوں دنیا کی معیشت کا بیڑا ہے۔ جب بھی پاکستان اور طالبان، امریکہ اور طالبان کے تعلقات استوار ہوئے ہیں، القاعدہ نے منفی رول ادا کر کے معاملات کو بگاڑا ہے۔ چاہے طالبان کی پہلی دور حکومت یا یہ دوسری۔

اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ امن عامہ کے لئے خطرہ بننے اورخطرہ تخلیق کرنے والے گروہوں کی پشت پناہی کے بجائے ملکی فلاح و بہبود پر نظریں جمانی چاہئے کہ اس وقت اسی میں توازن اور ٹھکاؤ کا راز پنہاں ہے۔ بصورت دیگر

؎نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے