وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے پاکستان کے 75ویں یوم آزادی پر پوری قوم سمیت دنیا بھر میں بسنے والے پاکستانیوں کو مبارکباد پیش کی، وزیر اعظم نے جناح کنونشن سینٹر اسلام آباد میں پرچم کشائی کی مرکزی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم جوہری قوت بن سکتے ہیں تو معاشی قوت کیوں نہیں۔
معاشی قوت بننے کے لئے خود انحصاری ضروری ہے، درآمدات اور برآمدات کے فرق کو جب تک ختم نہیں کیا جائے گا معیشت مضبوط نہیں ہو گی۔وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ سماجی و معاشی برابری ، قانون کی حکمرانی اور مساوات پر مبنی مملکت کا خواب ہمارے آبائو اجداد نے دیکھا تھا ہم اس خواب کو ابھی تک مکمل شرمندہ تعبیر نہیں کر سکے۔ وزیر اعظم کا اعترافِ حقیقت نہایت اہمیت کا حامل ہے، اس موقع پر یہ بھی ساتھ ساتھ تسلیم کرنا چاہئے کہ نہ صرف یہ کہ ہم خواب کی تعبیر حاصل نہیں کر سکے بلکہ ملک کا آدھا حصہ گنوا چکے ہیں، دراصل ان وجوہات پر غور کرنا چاہئے اور وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ مقتدر طبقات کو لازمی طور پر اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ 75 واں جشن آزادی قومی و ملی جذبے اور جوش و خروش کے ساتھ منایا گیا ، وفاقی دارالحکومت میں 31 جبکہ صوبائی دارالحکومتوں میں 21 ،21 توپوں کی سلامی دی گئی، اسٹیٹ بینک نے پاکستان کے 75 ویں جشن آزادی کے موقع پر 75 روپے مالیت کے یادگاری کرنسی نوٹ کا ڈیزائن جاری کر دیاہے، یہ کرنسی نوٹ 30 ستمبر سے عوام کیلئے جاری ہوگا۔ کرنسی نوٹ کے سلسلے میں پاکستان کے پسماندہ علاقوں کے آثار کو بھی شامل کیا جانا چاہئے تاکہ ان کا احساس محرومی ختم ہو سکے ، اس کے ساتھ صدر مملکت عارف علوی نے پاک فوج ، بحریہ اور فضائیہ کے افسروں اور جوانوں کو فوجی اعزازات عطا کئے، 253سول ایوارڈ دینے کا بھی اعلان کیا۔ صدر عارف علوی نے اپنے پیغام میں قوم کو مبارکباد دی اور کہا کہ آزادی کا دن مادر وطن کے حصول کیلئے قائد اعظم کی قیادت میں لا تعداد قربانیوں کی یاد دلاتا ہے ۔
سول اعزازات کے سلسلے میں بھی پسماندہ علاقوں کے اہل دانش کو شکایت رہی ہے کہ ان کے مشاہیر کو نظر انداز کیا جاتا ہے، ارباب اختیار کو اس ضمن میں غور کرنا چاہئے ورنہ خلاف میرٹ ملنے والے اعزازات کی اہمیت زیرو ہو جاتی ہے۔ ایک طرف جشن آزادی ہے تو دوسری طرف پاک فوج نے 13 اور 14 اگست کی درمیانی شب بلوچستان کے علاقے ہرنائی میں سکیورٹی فورسز کی چوکی پر دہشت گردوں کا حملہ کامیابی سے پسپا کر دیا ، آئی ایس پی آر کے مطابق دہشت گردوں سے فائرنگ کے تبادلے میں نائیک عاطف اور سپاہی قیوم شہید ہو گئے، آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ 75ویں یوم آزادی کے موقع پر سکیورٹی فورسز قوم کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ دہشت گردوں نے قوم کا سکون برباد کر رکھا ہے مگر ہماری افواج نے نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردی پر بہت حد تک قابو پایا ہے مگر وانا، وزیرستان میں دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں، بلوچستان میں بھی حالات صحیح نہیں ہیں، وزیرستان کے حالات سے ہمارے سرائیکی وسیب کے اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
سرائیکی وسیب کے دوسرے علاقوں کے ساتھ ساتھ ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان میں یوم آزادی جوش و خروش سے منایا گیا،یوم آزادی پر ’’ گلی گلی سنوار دیں گے، چمن چمن نکھار دیں گے ، گر یہ مٹی طلب کرے گی تو خون دل بار بار دیں گے ‘‘ جیسے شعر اور نغمے جگہ جگہ سننے کو ملے ۔ یہ حقیقت ہے کہ قیام پاکستان کیلئے عام آدمی کی خدمات سب سے زیادہ ہیں ، جاگیردار آخر وقت تک انگریز کے ساتھ رہے۔ پاکستان غریبوں نے بنوایا مگر آج سب سے زیادہ ظلم بھی غریبوں پر ہو رہا ہے ۔ قائد اعظم نے فرمایا تھا ’’ ایمان ، اتحاد، تنظیم‘‘ ،محکمہ ڈاک نے ’’ خدمت ، دیانت ، امانت ‘‘ کا مونو گرام پیش کیا تھا مگر یہ سب باتیں اب نعروں کی حد تک رہ گئی ہیں۔ انڈیا سے خون کے دریا غریبوں نے عبور کئے مگر منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے ۔
فیض احمد فیض ہماری قومی تاریخ کا بہت بڑا حوالہ ہیں ، ان کی شاعری غریب کی پکار ہے ، یوم آزادی کے موقع پر ان کی نظم اس درخواست کے ساتھ پیش کر رہاہوں کہ حکمران اور سیاستدان اس پر ضرور غور کریں ۔ جس دیس سے ماؤں بہنوں کو اغیار اٹھا کر لے جائیں جس دیس سے قاتل غنڈوں کواشراف چھڑا کر لے جائیں جس دیس کے چپے چپے پر پولیس کے ناکے ہوتے ہوں جس دیس میں جاں کے رکھوالے خود جانیں لیں معصوموں کی جس دیس میں حاکم ظالم ہوں سسکی نہ سنیں مجبوروں کی جس دیس کی گلیوں کوچوں میں ہر سمت فحاشی پھیلی ہو جس دیس میں بنت حوا کی چادر بھی داغ سے میلی ہو جس دیس میں آٹے چینی کا بحران فلک تک جا پہنچے جس دیس میں بجلی پانی کافقدان حلق تک جا پہنچے.
جس دیس کے ہر چوراہے پردو چار بھکاری پھرتے ہوں جس دیس میں روز جہازوں سے امدادی تھیلے گرتے ہوں جس دیس میں غربت ماؤں سے بچے نیلام کراتی ہو جس دیس میں دولت شرفاء سے نا جائز کام کراتی ہو جس دیس کے عہدیداروں سے عہدے نہ سنبھالے جاتے ہوں جس دیس کے سادہ لوح انساںوعدوں پہ ہی ٹالے جاتے ہوں اس دیس کے ہر اک لیڈر پرسوال اٹھانا واجب ہے اس دیس کے ہر اک حاکم کوسولی پہ چڑھانا واجب ہے
تبصرہ لکھیے