میری سوئی بسااوقات کچھ ایسے واقعات پر ضرورت سے زیادہ اٹک جاتی ہے جنہیں مجھ جیسے ”تجزیہ کار“ کہلاتے افراد خاص توجہ کے قابل نہیں سمجھتے۔ منگل کی صبح برسوں کے انتظار کے بعد الیکشن کمیشن نے اپنا فیصلہ سنادیا۔عمران خان صاحب اور ان کی جماعت پر اس فیصلے نے بھاری بھر کم ”ممنوعہ فنڈنگ“ کے سنگین الزامات لگائے ہیں۔
ٹی وی چینلوں نے انہیں ”بریکنگ نیوز“ بنایا۔بعدازاں ان کی سکرینوں پر ”خصوصی نشریات“ بھی شروع ہوگئیں۔مذکورہ الزام رات گئے تک چلتے مقبول ٹی وی شوز میں بھی زیر بحث رہے۔مجھے بھی دوپروگراموں میں اس موضوع پر یاوہ گوئی کا موقعہ ملا۔ بدترین مہنگائی کا ذمہ دار ٹھہرائی”امپورٹڈ حکومت“ کے وزراءمذکورہ فیصلے کی بابت بہت شاداں نظر آئے۔تقریباََ ہر وزیر کیمروں کے روبرو آکر طولانی سوالات اٹھانے کو بے چین رہا۔ عمران خان صاحب کو الیکشن کمیشن نے ان کی دانست میں ”غیر ملکیوں“ سے بھاری رقوم وصول کرنے کا مرتکب ٹھہرایا ہے۔ان افراد میں عارف نقوی جیسے لوگ بھی شامل تھے۔جو ان دنوں امریکہ کو منی لانڈرنگ کے سنگین الزامات کی وجہ سے مطلوب ہیں۔
یہ ہائی پروفائل ملزم عمران حکومت کے دوران اپنی ایک کمپنی کے لئے حیران کن مراعات اور سرپرستی وصول کرتے بھی بتائے گئے ہیں۔ فرطِ جذبات سے مغلوب ہوئے وزراءبضد رہے کہ عمران خان صاحب نے اپنی جماعت کے لئے آئی فنڈنگ کے ضمن میں الیکشن کمیشن کو ”جھوٹا“ بیان حلفی دیا۔اس کے باعث انہیں وہ ”اقامہ“ یاد آگیا جس کی بنیاد پر نواز شریف صاحب سپریم کورٹ کے ہاتھوں وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بعد کسی بھی عوامی عہدے کے لئے تاحیات نااہل قرار پائے تھے۔انہیں اپنے نام سے منسوب مسلم لیگ کی صدارت سے بھی اسی وجہ سے مستعفی ہونا پڑا تھا۔ الیکشن کمیشن کے سنائے فیصلے کے بعد وہ عمران خان صاحب کو بھی ایسے ہی انجام سے دو چار ہوتا دیکھ رہے تھے۔
وزراءکی شادمانی کے برعکس تحریک انصاف کے سرکردہ رہ نماﺅں کا رویہ ان سے مخصوص جارحیت کے بجائے عذر تراشتا محسوس ہوا۔چیف الیکشن کمشنر کو وہ اور ان کے قائد پہلے ہی ”متعصب“ ٹھہراچکے ہیں۔ان سے استعفیٰ کے طلب گار ہیں۔تحریک انصاف کے وکلاءکی توجہ”بیان حلفی“ اور ”تصدیق نامے“ کے مابین قانونی فرق اجاگر کرنے تک محدود رہی۔وہ یہ ثابت کرنے میں مصروف رہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے سنایا فیصلہ عمران خان صاحب کو آئین کے 62/63کی زد میں نہیں لاتا۔تحریک انصاف کے رہ نماﺅں اور وکلا کی گفتگو سنتے ہوئے میرے ذہن میں بے ساختہ مسلم لیگ (نون) کا وہ رویہ نمودار ہونا شروع ہوگیا جو اپریل 2016ءمیں پانامہ دستاویزات منظر عام پر آجانے کے بعد ان کی سرکردہ قیادت نے اختیار کیا تھا۔
فاسٹ باﺅلر کی جبلت کے حامل ہوتے ہوئے عمران خان صاحب سیاسی اعتبار سے بدترین حالات کو بھی ”آفت کی گھڑی“ تسلیم نہیں کرتے۔ ان کی ذات الزامات کی زد میں آئے تو جارحانہ جوابی وار کرتے ہوئے اکثر انگریزی محاورے والی میز اُلٹادیا کرتے ہیں۔ان کے اس رویے کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں یہ توقع باندھے رہا کہ منگل کی شام کافی غوروغوض کے بعد وہ اپنے گھر بیٹھے ہی ”قوم سے خطاب“ کریں گے۔ہمارے ٹی وی چینل ان کے خطاب کو ”لائیو“ دکھانے کو مجبور ہوں گے۔حالیہ روایات کے مطابق تحریک انصاف ممکنہ خطاب کو ہمارے بڑے شہروں کے مخصوص مقامات پر لگائی سکرینوں کے ذریعے اپنے حامیوں کے ہجوم تک پہنچانے کا اہتمام بھی کرے گی۔یہ سب کچھ مگر نہیں ہوا۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے آیا فیصلہ ان کے باوجود متقاضی تھا کہ عمران خان صاحب کم ازکم منگل کے دن اپنی جماعت کی ”کور کمیٹی“ اور مخصوص وکلاءکے گروپ کے ساتھ ہوئی ملاقاتوں کے ذریعے مذکورہ فیصلے کے مضمرات پر غور کرتے نظر آتے۔ہمیں یہ پیغام ملتا کہ وہ اپنے دفاع کی بھرپور تیاری کررہے ہیں۔خاموش بیٹھے نہیں رہیں گے۔ یہ مناظر بھی دیکھنے کو نہیں ملے۔روایتی اور سوشل میڈیا پر فقط ایک تصویرہی حاوی رہی۔ اس کی بدولت تاثر یہ پھیلا کہ عمران خان صاحب الیکشن کمیشن کی جانب سے آئے فیصلے کی بابت بے نیاز محسوس کررہے ہیں۔اس کے مضمرات پر توجہ دینے کے بجائے مولانا طارق جمیل صاحب کے ساتھ تنہا بیٹھے دینی اور روحانی معاملات پر توجہ دے رہے ہیں۔
بدھ کے روز وہ اسلام آباد سے پاکپتن روانہ ہوگئے۔اس شہر میں انہوں نے بابا فرید کے مزار پر حاضری دی۔مولانا طارق جمیل صاحب کےساتھ ہوئی ملاقات کے عین ایک دن بعد دی یہ حاضری میری توجہ کا مرکز رہی۔اس کی بدولت میں یہ سوچنے کو مجبورہوا کہ سیاسی میدان میں اگلا قدم اٹھانے سے قبل عمران خان صاحب روحانی طاقت کی طلب محسوس کررہے ہیں۔”اپنے من میں ڈوب کر“ نئی توانائی اور حکمت عملی کی تلاش۔ ذاتی طورپر مجھے ان کے مذکورہ رویے پر کوئی اعتراض نہیں۔تاریخ ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے جہاں قوموں کی تقدیر بدلنے والے سلطان اور انقلابی رہ نما مشکل ترین دکھتے حالات میں اگلا قدم اٹھانے سے پہلے چند دنوں کے لئے گوشہ نشین ہوجایا کرتے تھے۔تنہائی میں مراقبے کی مثالیں بھی بے تحاشہ ہیں۔ غالباََ عمران خان صاحب بھی ایسی ہی کیفیت میں گھرے ہوں گے۔
سیاسی امور کا شاہد ہوتے ہوئے مجھے ان کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ سنائے جانے کے بعد اپنایا رویہ مگر حیران کئے ہوئے ہے۔۔جمعرات کی سہ پہر ان کی جماعت نے الیکشن کمیشن کے روبرو احتجاجی مظاہرہ کرناتھا۔منگل کی صبح سنائے فیصلے کے بعد مجھے امید تھی کہ وہ اس سے غضب ناک ہوکر اپنے حامیوں کو مذکورہ مظاہرے کے لئے ابلاغ کے جدید ترین ذائع کو استعمال کرتے ہوئے بھرپور انداز میں حوصلہ دیتے ہوئے تاریخ ساز احتجاج کے لئے تیار کریں گے۔ نجانے کیوں انہوں نے اس ضمن میں گریز کو ترجیح دی ہے۔
تبصرہ لکھیے