ہوم << وسیب میں سیلاب سے تباہی - ظہور دھریجہ

وسیب میں سیلاب سے تباہی - ظہور دھریجہ

وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ طوفانی بارشوں نے بلوچستان ، کراچی ، سندھ ، خیبرپختونخوا اور چترال میں تباہی مچائی، وزیر اعظم میاں شہباز شریف کو سرائیکی وسیب خصوصاً ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں رود کوہی کے سیلاب سے ہونے والی تباہی کا بھی ذکر کرنا چاہئے تھا۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ صوبائی حکومتیں اس حوالے سے کام کر رہی ہیں، وفاق بھی اپنا حصہ ڈال رہا ہے، سچی بات یہ ہے کہ وسیب کی سیلاب سے تباہی پر نہ تو صوبائی حکومت نے شروع کام کیا ہے اور نہ ہی وفاقی حکومت نے ، وزیر اعظم کا یہ اعلان کہ ایوان کو یقین دلاتا ہوں کہ اس معاملے پر وفاقی حکومت پیچھے نہیں رہے گی،امدادی پیکیج میں مزید اضافہ کریں گے ، یہ اعلان محض اعلان نہیں ہونا چاہئے بلکہ عملی اقدامات ہونے چاہئیں۔ وسیب میں سیلاب سے تباہی کے موقع پر سابق وزیر اعلیٰ میاں حمزہ شہباز اقتدار کی کشمکش میں مصروف تھے ان کو ماچھکہ میں ڈوبنے والی باراتی کشتی بھی یاد نہ رہی ، حالانکہ وہ حادثہ کسی قیامت سے کم نہ تھا۔

البتہ پاک فوج کے ایس ایس جی غوطہ خوروں نے لاشوں کی تلاش میں حصہ لیا جو کہ قابل ستائش عمل ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی خصوصی ہدایات پر پاک فوج نے فوری کارروائی کرتے ہوئے ایس ایس جی کمانڈوز کے غوطہ خوروں، آرمی میڈیکل ٹیم، آرمی فیلڈ انجینئرز، دیگر امدادی دستوں اور حصہ لینے کے لیے مطلوبہ سامان کے ساتھ ریسکیو ٹیم کو روانہ کیا۔ پنجاب حکومت کی تبدیلی کے بعد نئے وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے سیلاب کے باعث جانی و مالی نقصان پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کمشنر ڈی جی خان کو امدادی سرگرمیوں کی نگرانی اور متاثرین کی ہر ممکن امداد کرنے کا حکم دیا ہے۔ پورے ڈی جی خان ڈویژن میں تباہی آئی ہے مگر سب سے زیادہ متاثر تونسہ شریف ہوا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کا تعلق بھی تونسہ سے ہے، انہوں نے ہر بجٹ میں کوہ سلیمان کی رود کوہیوں ، سوری ، لُنڈ، وڈور، مٹھاون، چھاچھر، نتکانی ، چیتل اور کاہا کیلئے کروڑوں روپے مختص کرائے مگر نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ وسیب کی برباد ی میں حکمرانوں سے زیادہ قصور وسیب کے سرداروں ، جاگیرداروں اور ان نئے آباد کاروں کا ہے جو ووٹ لیکر اسمبلی میں تو پہنچ جاتے ہیں مگر کبھی سرائیکی وسیب کی محرومی کی بات نہیں کرتے ۔

یہ اچھی بات ہے کہ وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی نے کمشنر ڈی جی خان سے فصلوں ، مکانوں اور دیگر املاک کو پہنچنے والے نقصانات بارے تفصیلی رپورٹ طلب کر لی ہے مگر یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ سابقہ دور میں سیلاب سے ہونیوالے نقصانات پر بھی سابق حکمرانوں نے رپورٹ طلب کی ،احکامات جاری کئے مگر عملدرآمد نہ ہوا۔ تھوڑا پس منظر میں جائیں تو بہت سے حقائق سامنے آتے ہیں ، 2010ء کے سیلاب میں ماروی میمن کیس میں سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لے کر پورے پاکستان میں سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کی سماعت کی اور 7 مارچ 2011ء کو اپنا تفصیلی فیصلہ جاری کیا جس میں سپریم کورٹ نے واضح طور پر لکھا کہ جسٹس منصور علی کی سربراہی میں بننے والے فلڈ جوڈیشل کمیشن کی جو رپورٹ ہے اب وہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے اور اس پر حرف بہ حرف عمل ہونا چاہئے لیکن اس فیصلے پر آج تک عمل نہیں کیا گیا۔

2010ء کے بد ترین سیلاب میں جو تباہی ہوئی اس کا ذمہ دار کون تھا؟۔ فلڈ جوڈیشل کمیشن نے سیلاب اور تباہی کا ذمہ دار حکومت پنجاب کے افسران کو قرار دیا تھا اور کمیشن نے واضح طور پر لکھا کہ حکومت وسیب کے تمام سیلاب متاثرین کو ان کے نقصانات کے معاوضے ادا رے ، سیلاب کے ذمہ دار افسران کو بر طرف کر کے ان کے خلاف کاروائی کرے مگر نہ صرف یہ کہ محکمہ آبپاشی کے افسران کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی بلکہ ان کو ترقیاں ملیں اور کسی سیلاب متاثرین کو کوئی معاوضہ نہ ملا۔ وسیب نے منگلہ ڈیم متاثرین ، تربیلا ڈیم متاثرین، اسلام آباد کیپٹل متاثرین ، اوکاڑہ چھاونی متاثرین ، پٹ فیڈر متاثرین ، سندھ آباد کار متاثرین اور نہ جانے کتنے جھوٹے سچے متاثرین کو اپنی آغوش میں لاکھوں ایکڑ رقبے دیئے ، مگر وسیب کے سیلاب متاثرین کو آج تک کسی جگہ کوئی کلیم نہیں ملا۔

آج وسیب کے بہت سے علاقے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں، مائوں کے لخت جگر ، لاکھوں مالیت کے مال مویشی اور سینکڑوں گھر پانی میں بہہ گئے ہیں ، لوگ کھلے آسمان تلے بے یار و مدد گار پڑے ہیں مگر کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔ وسیب کے سیلاب متاثرین کا مطالبہ ہے کہ جن علاقوں میں سیلاب آیا ہے ، ان کو آفت زدہ قرار دے کر زرعی قرضے ، آبیانہ اور بجلی کے بل معاف کئے جائیں، سیلاب میں جن لوگوں کے گھر اور گھر کی چادیواری منہدم ہوئی ، ان کو گھر بنوا کر دیئے جائیں اور وسیب کے لوگوں کو ان کا صوبہ دیا جائے تاکہ وہ اپنے صوبے کے مسئلے خود حل کر سکیں ۔ لاہور میں وزیر اعلیٰ کی کامیابی کا جشن منایا جا رہا تھا تو دوسری طرف وسیب میں سیلاب سے قیامت برپا تھی، سرائیکی میں ایک کہاوت ’’ او مردی رہے او مست رہے ‘‘، لوگ مر رہے ہیں اور حکمرانوں کو اپنے اقتدار کی پڑی ہے ۔

آج سے صرف دو تین ماہ پہلے وسیب میں کپاس کی فصل کاشت ہو رہی تھی مگر پانی نایاب تھا، ہر طرف سے العطش العطش کی صدائیں آ رہی تھیں، وسیب کی یہی قسمت ہے کہ وہ کبھی پیاس سے مرتا ہے اور کبھی سیلاب سے ،سرائیکی شاعر امان اللہ ارشد نے اس منظر کا دردناک منظر کھینچا ہے: میڈی روہی سنج تیڈا بیلا بر ایں سال تباہیں پھیہ ماریئے ہر جھوک تباہ ویران ہنبھا ایویں لگدے پھیرا دیہہ مایئے ودے بے گھر تھی تے رُلدے ہوں ساکوں وقت دی گردش دریہہ ماریئے ڈوہیں مویوں ارشدؔ پانی توں تیکوں چھل ماریئے میکوں تریہہ ماریئے

Comments

Click here to post a comment