اللہ کا قانون ہے کہ وہ اپنی ہر نعمت سے اپنے ہر بندے نہ نوازتا ہےنہ ہی احتساب کرتا ہے،محاسبہ اسی نعمت کا کرے گا جو وہ عطا کرے گا۔اسے ہم یوں بھی کہ سکتے ہیں کہ ہر فرد کا امتحان اللہ تعالیٰ ایک ہی سوالیہ پرچہ دے کر نہیں لے رہا،ہر بندے کی طبیعت ومزاج دوسرے سے مختلف ہے،حالات ومسائل میں تفاوت ہے۔
بلال رضی اللہ تعالیٰ کو ان کی غلامی قبول اسلام سے روک سکی نہ اس ضمن میں آنے والے مصائب ہی نے انہیں کسی قسم کے ڈپریشن میں مبتلاء کیا بلکہ مستقبل میں دین پر استقامت اور ثابت قدمی نے دین ودنیا میں سرخرو کر دیا۔پھر غزوہ تبوک میں پیچھے رہ جانے والے ان مخلص اہل ایمان کے مسائل و معاملات اور قسم کے تھے، بظاپر دیکھا جائے توشدید ڈپریس کر دینے والا سوشل بائیکاٹ ان کا اللہ کے رسول اور ساتھی اہل ایمان کی جانب سے ہوا۔بظاہر تو یہ بھی لگتا تھا کہ دائرہ حیات ان پر جتنا تنگ کر دیا گیا ہے ،یہ مسلمانوں سے بد ظن ہو جائیں گے۔۔۔لیکن نہیں ۔۔۔وقت کے فراعین نے اس بظاہر نظر آنے والی ذلت کو حوالہ بنا کر انہیں عیش وعشرت کی پیشکش کی ،لیکن قربان جائیے اس اخلاص پر انہوں نے سزا کو شفقت و محبت سمجھ کر گوارا کیا تاوقتیکہ کہ اللہ کی طرف سے ان کی توبہ قبول کر لی گئی۔
نوٹ کرنے کے قابل بات یہ بھی ہے کہ نہ وہ خود ڈپریس ہوئے اور نہ ہی اور صحابہ نے اس سزا پر اپنے دلوں میں کوئی خوشی محسوس کی۔۔۔اک اصلاح کا جذبہ تھا جو ہر دل میں پنہاں تھا۔اور اعلان مغفرت ہوتے ہی خوشی کی ایسی لہر دوڑی کہ قلم بیان کرنے سے عاجز ہے۔۔۔گویا ایمان نہ تو ڈپریس ہونے دیتا ہے اور نہ ہی ڈپریشن کا مؤجب بننا گوارا کرتا ہے۔پھر اللہ مالک الملک جو ساری کائنات کا خالق ہے۔۔۔زبردست منتظم ہے،اور بحثیت مسلمان یہ ہر کسی کا عقیدہ ہے کہ اللہ سمیع و بصیر دلوں کے راز تک سے ،سرگوشیوں ، تمناؤں ، آرزوؤں سے واقف ہے۔۔۔کیسے کسی انسان کے ساتھ نا انصافی کر سکتا ہے۔۔۔کیسے دعاؤں کو رد کر سکتا ہے۔۔۔کیسے کسی کو بے یارو مددگار چھوڑ سکتا ہے۔۔۔کیسے اپنی نعمتوں سے محروم کر سکتا ہے۔۔۔۔اس کی عطائیں کیسے مخصوص لوگوں پر ہو سکتی ہیں۔وہ آپ کو کبھی مایوس نہیں کر سکتا۔بس اس دارفانی میں اپنے پرچے پر نظر رکھیے۔۔۔ یقیناً ہمیں دوسرے کا پرچہ تبھی آسان لگتا ہے جب ہمارے اپنے ایمان میں کمزور واقع ہوتی ہے،ورنہ تو ہر بندہ جو اس دار الامتحان میں آیا ہے ،کسی نہ کسی طور آزمایا ہی جا رہا ہے۔۔۔البتہ سوالیہ پرچے پر ایک کی طبیعت ومزاج،حالات و واقعات ومسائل کے متقاضی ہیں،اس حکیم و خبیر کی طرف سے دیئے گئے ہیں جس کی عدالت کو کوئی جج کرنے والا نہیں ۔۔۔۔اور جس کی مینجمنٹ پر حقیقتا کوئی معترض نہیں ہو سکتا۔
مشیت الٰہی اور رضائے الٰہی کا باریک فرق آپ کو بہت سی الجھنوں سے بچا سکتا ہے۔۔۔ 'حسابا یسیرا' کی آرزو آپ کو بہت بار سنبھالا دے سکتی ہے۔۔۔بس اس کی حکمت و مصلحت کے آگے سرنڈر کر دیجئے . ان شاءاللہ وہ آپ کے لئے کافی ہو جائے گا۔ آپ کو بھٹکنے سے ،مایوسی سے بچا لے گا۔ بلا شبہ آپ کے لئے وہی کرے گا جس میں آپ کے لئے دونوں جہانوں کی خیر ہے اللہ آپ کا حامی وناصر ہو۔۔۔
تبصرہ لکھیے