وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید نے مدارس کے خلاف نفرت کا اظہار کرتے ہوئے انھیں جہالت کی فیکٹریاں قرار دیا تھا. اہل مدارس نے اس پر بھرپور احتجاج کیا، کئی مضامین لکھے گئے کہ مدارس میں کتاب وسنت کی تعلیم دی جاتی ہے اور وزیر صاحب کے اپنے خیالات تو خود یکسر جہالت و بدگمانی پر مشتمل ہیں. ہمارے ملک میں یہ روایت جڑ پکڑتی جا رہی ہے کہ جسے اسلام سے کوئی گلہ ہو، کوئی ایسی آزادی چاہیے جو دین میں موجود نہ ہو، کسی کو فحاشی و عریانی کی اجازت قرآن و حدیث سے نہ مل سکے، کسی کو نماز روزے اور دیگر عبادات اچھی نہ لگیں اور ان پر عمل کرنے کو دل نہ کرے تو وہ آسان حل ڈھونڈ تا ہے یعنی مولوی ، مدرسے اور اہل دین پر تنقید کرکے دل کی بھڑاس نکال لیتا ہے. کسی نے کیا سچ کہا کہ لوگ اسلام کو گالی دینے سے گھبراتے ہیں اس لیے مولوی کو گالی دے کر کام چلا لیتے ہیں. یہی حرکت وفاقی وزیراطلاعات نے بھی کی تھی.
اہل مدارس نے اس پر احتجاج کیا مگر اسلام مخالف سوچ رکھنے والوں کو گزشتہ دنوں سامنے آنے والے میٹرک بورڈز کے امتحانات کے نتائج میں منہ توڑ جواب ملا ہے. ملتان، فیصل آباد اور ساہیوال بورڈ کے نتائج کے مطابق آرٹس گروپ کے پہلی تمام پوزیشنز مدارس کے طلبہ نے حاصل کی ہیں. جی ہاں! مدارس کے طلبہ نے عصری علوم میں بھی اپنی ذہانت کا لوہا منوایا ہے. اب شرم سے ڈوب مرنا چاہیے توہین آمیز سوچ رکھنے والوں، سیکولر طبقے، اور مدارس و اہل دین پر تنقید کرنے والے نام نہاد سکالرز کو. مدارس کے طلبہ نے اربوں کے فنڈز استعمال کرتے سرکاری سکولز اورمہنگے پرائیوٹ سکولز کے طلبہ کو کہیں پیچھے چھوڑ ا ہے. شاید آپ کے علم میں ہو کہ مدارس میں سکول کی تعلیم سے متعلقہ انگریزی، ریاضی اور دیگر مضامین جزو وقتی انداز میں پڑھائے جاتے ہیں، یعنی مدارس کے طلبہ قرآن وحدیث کے اپنے نصاب کی تعلیم کے ساتھ ساتھ کچھ وقت عصری تعلیم کو دیتے ہیں بلکہ اکثر تو آخری ایک دو ماہ میں تیاری کرکے امتحانات میں بیٹھتے ہیں. دوسری جانب سرکاری و پرائیوٹ سکولز میں طلبہ و طالبات کی مکمل توجہ اور وقت صرف اور صرف امتحان کی تیاری کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مدارس کے طلبہ کی ٹاپ پوزیشنز اس لیے بھی حیران کن ہیں کہ انھوں نے تھوڑے وقت، کم وسائل، اور اپنی دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ یہ کارنامے سرانجام دیے ہیں ۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ کہ بڑے سرکاری و پرائیوٹ سکولز کی طرح انھیں اعلی تعلیم یافتہ اور مہنگے اساتذہ کی خدمات بھی میسر نہیں ہوتیں کیونکہ مدارس کچھ زیادہ معاوضہ نہیں دے پاتے.
ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ بالعموم غریب گھرانوں کے بچے ہی مدارس میں زیر تعلیم ہوتے ہیں. ساہیوال بورڈ میں اول پوزیشن حاصل کرنے والے محمد مصعب کے والد محمد سعید پھل کی ریڑھی لگاتے ہیں. اس بچے کو تعلیمی اخراجات نہ ہونے کی وجہ سے سکول سے ہٹوا کر مدرسے میں داخل کرایا گیا تو اس نے اپنی ذہانت کے بل بوتے پر کم ترین وسائل میں ڈویژن بھر میں اول پوزیشن حاصل کی. مدارس کے باقی طلبہ کی کہانیاں بھی اس سے ملتی جلتی ہیں کہ ایسے غریب گھرانوں کے بچے کہ جن کے پاس سکول جانے کے وسائل تک نہیں تھے، وہ مدارس میں تھوڑی سے توجہ اور تھوڑے وسائل کے ساتھ ٹاپ پوزیشنز حاصل کرنے میں کامیاب رہے. مدارس کے ان طلبہ نے حکومت کے بنائے گئے نظام تعلیم، نصاب اور طریقہ امتحان میں اپنی صلاحیت کا لوہا منوا کر ثابت کر دیا ہے کہ ان کا تعلق ’’ جہالت کی فیکٹریوں‘‘ سے نہیں بلکہ علم و شعور کے سرچشموں سے ہے. مدارس، علمائے کرام اور اہل دین کے بارے میں غلط فہمیاں رکھنے والوں کی عقل بھی ٹھکانے آجانی چاہیے کہ وہ خود کو ماڈرن سکالر بننے کے شوق میں تنقید بند کریں بلکہ حکومت کو چاہیے کہ اپنی تعلیمی ماہرین کی مدارس کے ان اساتذہ سے ملاقاتیں کرائے جن کے شاگرد کم وسائل اور جزوقتی تیاری کے ساتھ ٹاپ پوزیشنز حاصل کرنے میں کامیاب رہے.
حکومت اگر ملک میں معیار تعلیم کو بہتر بنانا چاہتی ہے تو مدارس کے ہونہار طلبہ کی بھی سرکاری سطح پر بھرپور سرپرستی کی جائے. خاد م اعلی صاحب اکثر ذہین طلبہ کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں، ان کی خدمت میں عرض ہے کہ ذرا اس طرف بھی نظرڈالیں. ہمارے معاشرے کی بہتری اور ملکی ترقی کا راز بھی یہی ہے کہ اہل دین کے بارے میں غلط فہمیوں اور منفی پروپیگنڈے کے بجائے ان پراعتماد کرکے انھیں معاشرے کے فعال کارکن کے طور پر تسلیم کیا جائے. محنت و لگن اور ذوق و شوق سے اعلی ترین پوزیشنز حاصل کرنے والے ان ہونہار بچوں کو مبارکباد
تبصرہ لکھیے