’’علم کا سفر‘‘ نامی کتاب کہنے کو تو ایک انجینئر پلس ٹاؤن پلانر کی داستانِ حیات ہے جسے صنفی اعتبار سے خودنوشت سوانح عمری کہا جاتاہے لیکن اس میں جو روانی، دلچسپی، اثر انگیزی اور تجزیاتی صلاحیت صفحہ ،صفحہ اور سطر در سطر اپنا اظہار کرتی نظر آتی ہے اُس نے اس کتاب کو علم سے زیادہ عالم کے سفر کی روداد بنا دیا ہے ۔
ڈاکٹر انیس الرحمن نے اپنی زندگی کے پہلے سترہ برس برٹش انڈیا کے مختلف علاقوں میں گزارے کہ اُس وقت تک نہ تو آزادی کا بگل بجا تھا اور نہ ہی تقسیم کا آوازہ بُلند ہوا تھا، سو کتاب کے پہلے حصے میں اُن سے زیادہ اُن کے بزرگوں کا تذکرہ ہے جس سے اُن کی خاکہ نگاری کی صلاحیت بہت کھل کر سامنے آتی ہے اور آگے چل کر جب وہ تعلیم ، معاش اور حصولِ علم کے سلسلے میں پوری دنیا میں گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں تو وہاں بھی اُن کا یہ جوہر اپنی جھلک دکھاتا رہتا ہے کہ وہ باتوں باتوں میں چند جملوں کے اندر اُن کرداروں کو نمایاں کرکے آگے بڑھتے جاتے ہیں جو کسی بھی حوالے سے اُن کی اس داستانِ حیات کا حصہ بنتے ہیں، اُن کی نثر بہت رواں دواں ہونے کے ساتھ ساتھ واقعہ نگاری کا فریضہ بھی بہت خوب صورتی سے انجام دیتی نظر آتی ہے اور چھوٹی چھوٹی بظاہر عام سی باتوں میں ہم نوجوان انیس الرحمن کے اُس کردار کے پہلوؤں کو بنتا اور مضبوط ہوتا دیکھتے ہیں جس کا عملی اظہار اُن کی 92سالہ زندگی کو اپنے حصارمیںلیے ہوئے ہے۔
خاندان کی پاکستان منتقلی کے بعد وہ وسائل کی کمی کے باعث اپنے علم کے سفر کو جاری رکھنے کے لیے مختلف طرح کے امتحانات سے گزرے ایک طرف اپنے ملک کے بیوروکریٹ اور مقتدر افراد تھے جن میں سے چند ایک کے علاوہ سب نے اُن کے راستے میں روڑے اٹکانے اور دیواریں اُٹھانے کا کام بڑی دل جمعی سے کیا لیکن اپنی ذات پر اعتماد اور اللہ کی رحمت پر اُن کے بھروسے کے سامنے یہ سب رکاوٹیں ایک ایک کرکے ہٹتی چلی گئیں۔
وہ انجینئر سے ٹاؤن پلانر کیسے بنے اور پھر اسی شعبے میں ڈٹے رہنے کی وجہ سے انھیں کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس کتاب میں اُن سب کا حال بہت اختصار آمیز سلیقے سے کیا گیا ہے لیکن اس بیان کی سب سے عمدہ اور خوب صورت بات یہی ہے کہ انھوں نے اپنی عزتِ نفس کی حفاظت کے لیے تو کبھی ظلم کے سامنے ہتھیارنہیں ڈالے مگر نیلسن منڈیلا کی طرح ہر آزار دہندہ کو خوش دِلی سے معاف کر دیا، دوسری اہم بات جو اس کتاب سے ہمارے آپ کے علم میں اضافہ کرنے والی ہے وہ یہ ہے کہ معاشی اور مجلسی طور پر ہر طرح کی سہولت اور فراوانی کے حصول کے بعد بھی انھوں نے اپنے موجود درویش کو اس کی رَو میں بہنے نہیں دیا، حصولِ تعلیم کے زمانے میں اُنہیں کس کس طرح کی تنگ دستی ، مفلسی اور امتحان کا سامنا کرنا پڑا اس کا احوال بھی انھوں نے بہت کھل کر اور بڑے مزے لے لے کر بیان کیا ہے۔
اپنی پی ایچ ڈی کی تکمیل کے لیے انھیں امریکا کی انتہائی سرد اور برفیلی راتوں میں لڑکیوں کے ہاسٹل کی چوکیداری بھی کرنا پڑی امریکا جانے کے لیے پانچ ہزار میں اپنی کار بیچنے اور مسلم ٹاؤن میں اپنا ذاتی گھر بنانے کے سلسلے میں مقروض ہونے کے مسائل سے گزرنا پڑا یہ اور اس طرح کے اور بہت سے واقعات انسانی عزم ، حوصلے، دریادلی اور کردارکی مضبوطی نے کتاب کے درمیان اور آخرمیں کئی ایسے کرداروں کا ذکر کیا ہے جو کسی نہ کسی وجہ سے معروف اور مشہور ہیں مگر ایک داستانوی نما کردار سلطانہ ڈاکو کے بارے میں اُن کی تحریر بلاشبہ معلومات اور دلچسپی کا ایک چونکا دینے والا مجموعہ ہے۔
ہمارے بچپن میں بہرام ڈاکو اور سلطانہ ڈاکو کا ذکر اکثر سننے میں آتا تھا، جس کا ماحصل یہ تھا کہ یہ ڈاکو امیروں کو لوٹنے اور غریبوں کی مدد کرتے تھے اور یہ کہ ان کی شخصیات پر ایک نامعلوم سا پردہ بھی لٹکتا رہتا تھا جس کی وجہ سے اُن کی اصلیت کا ٹھیک طرح سے پتہ نہیں چلتا مگر ڈاکٹر انیس الرحمن کی اس کتاب سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ سلطانہ ڈاکو نہ صرف اُن کے ایک بزرگ سے ملا بلکہ جس کی گرفتاری کے لیے انگلینڈ سے فریڈرک ینگ نامی افسر کو بلایا گیا تھا اس نے اسے پکڑنے اور موت کی سزا سنوانے کے بعد اُسی کے سات سالہ بیٹے کو پالا پوسا، اُسے اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلینڈ بھجوایا اور وہ واپس آکر برٹش انڈیا میں آئی جی پولیس کے عہدے پر فائز ہوا۔
جہاں تک اُن کی تحریر کی روانی ، نگاہ کی تیزی اور بصیرت کا تعلق ہے اُسے سمجھنے کے لیے ان چند سطروں کا مطالعہ ایک مثال اور سند کا کام کرے گا۔ ’’انسانی زندگی اور دریا کے دورانیے میں ایک اور مماثلت یہ ہے کہ دونوں صرف آگے کی طرف بڑھتے ہیں، پیچھے کبھی نہیں لوٹتے، ان کی رفتار تیز یا دھیمی تو ہوجاتی ہے لیکن ساکت کبھی نہیں ہو تی جب تک وہ کسی جھیل یا سمندر کی نذر ہوجائیں یا اپنے خالقِ حقیقی سے جاملیں جس طرح دریا زمین پر بہتے ہیں لیکن کبھی کبھی نظروں سے اوجھل ہوکر زیر زمین بلوچستان کی کاریز کی صورت بھی بہتے ہیں اسی طرح انسان بھی شہادت کے بعد نظروں سے اوجھل ہوکر جیتے ہیں جس طرح دریا کا وجود پیاسی زمین سیراب کرنے آیا ہے اسی طرح اللہ نے دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں۔ اور بقول ابراہیم بن ادھم ’’میں اُس کا بندہ بنوں گا جس کو اللہ کے بندوں سے پیار ہوگا‘‘
یہ کتاب ’’اُردو ڈائجسٹ‘‘ میں قسط وار چھپ کر مقبولیت کی بہت سی منزلیں طے کرچکی ہے اور یہ بات بڑے اعتماد سے کہی جاسکتی ہے کہ اس کی موجودہ صورت بھی پسندیدہ اور مقبول ہوگی۔
تبصرہ لکھیے