میں بارہا لکھ چکا ہوں کہ انسان زندگی بھر سیکھتا رہتا ہے اور سیکھنےیا علم حاصل کرنے کا سلسلہ قبر تک جاری رہتا ہے اس لئے علم و تحقیق کی دنیا میں کوئی حرف،حرف آخر نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی انسان کامل علم کے حصول کا دعویٰ کرسکتا ہے۔ میں ایک معمولی سا طالبعلم ہوں اور ہر لمحے سیکھنے(Learning)کی آرزو رکھتا ہوں البتہ میں اس بات کا قائل ہوں کہ بحث یا تبادلہ خیال علمی اور مہذب دائرے کے اندر رہنا چاہئے کیونکہ تنقیص ا ور طنز سے علمی تکبر کا اظہار ہوتا ہے اور علم تکبر نہیں سکھاتا بلکہ عاجزی سکھاتاہے۔ ہاں تکبر صرف اقتدار، اختیار، دولت، عہدے اور شہرت ہی کا نہیں ہوتا، میں نے لوگوں کو’’علم‘‘ کے تکبر میں مبتلا دیکھا ہے۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان کس دن معرض وجود میں آیا۔ میں اپنی بات بعد میں کروں گا پہلے دو معتبر حوالے دے لوں اگرچہ ایسے حوالوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ اس سلسلے میں نہایت معتبر کتاب پاکستان کروینکل مرتبہ عقیل عباس جعفری ہے جس میں پاکستان کے حوالے سے ہزاروں بنیادی دستاویزات (Documents)جمع کردئیے گئے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ کتاب پاکستان کی روزمرہ کی تاریخ ہے۔ اس کتاب کے صفحہ نمبر1پر قائد اعظم کو14اگست 1947کو دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے دکھایا گیا ہے، اسٹیج پر ہندوستان کے آخری وائسرائے ماوئنٹ بیٹن بیٹھے ہیں۔ حکومت برطانیہ کی جانب سے14اگست بروز جمعرات صبح نو بجے دستور ساز اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں ماوئنٹ بیٹن نے آزادی اور انتقال اقتدار کا اعلان کیا۔ قیام پاکستان کے لئے مڈ نائٹMidnightکا وقت طے ہوا تھا۔ پاکستان کروینکل کے صفحہ نمبر1 کے مطابق ’’14اور15اگست کی درمیانی شب مطابق 27رمضان المبارک 1366ھ رات ٹھیک بارہ بجے دنیا کے نقشے پر ایک آزاد ، خود مختاراور دنیائے اسلام کی سب سے بڑی مملکت کا اضافہ ہوا جس کا نام پاکستان ہے‘‘۔
آزادی کا اعلان صبح دستور سازی اسمبلی میں ہوچکا تھا۔ پاکستان کے پرچم کی منظوری دستور ساز اسمبلی سے 12اگست کو لی جاچکی تھی، چنانچہ کراچی میں 14اگست کو قائد اعظم قومی پرچم لہرانے گئے تو مولانا شبیر احمد عثمانی کو ساتھ لے گئے اور انہی سے پرچم کشائی کی رسم ادا کروائی۔ قائد اعظم کے حکم پر ڈھاکہ میں مولانا اشرف تھانوی کے خواہرزادے مولانا ظفر احمد عثمانی نے پاکستان کا پرچم لہرانے کی رسم انجام دی۔ اس کا ذکر بھی اس کتاب کے پہلے صفحے پہ ہی موجود ہے۔ مقصد یہ کہ آزادی اور انتقال اقتدار کا اعلان اور پاکستان کے پرچم لہرانے کی رسم چودہ اگست کو ہوئی اور 14اگست کے دن ستائیسویں رمضان تھی۔ دوپہر دو بجے ماوئنٹ بیٹن دہلی روانہ ہوگئے جہاں اسی رات12بجے بھارت کی آزادی کے اعلان کے ساتھ انہیں گورنر جنرل کا منصب سنبھالنا تھا۔
اس کتاب کے صفحہ نمبر2پر ریڈیو پاکستان کی تصاویر کے ساتھ لکھا ہے’’15-14اگست کی درمیانی شب لاہور، پشاور، ڈھاکا کے ریڈیو اسٹیشنوں سے رات گیارہ بجے آل انڈیا ریڈیو سروس نے اپنا آخری اعلان نشر کیا۔ 12بجے سے کچھ لمحے پہلے ریڈیو پاکستان کی شناختی دھن بجائی گئی اور ظہور آذر کی آواز میں انگریزی اعلان گونجا کہ آدھی رات کے وقت پاکستان کی آزاد اور خود مختار مملکت موجود میں آئے گی۔ رات کے ٹھیک بارہ بجے پہلے انگریزی اور پھر اردو میں یہ الفاظ گونجے’’یہ پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس ہے‘‘۔ فوراً بعد مولانا زاہرالقاسمی نے قرآن مجید کی سورہ فتح کی آیات تلاوت فرمائیں۔ 15اگست کو جمعۃ الوداع تھا اسی دن پاکستان کا پہلا سرکاری گزٹ شائع ہوا اور اسی روز جمعۃ الوداع کے حوالے سے قائد اعظم کا پیغام جاری ہوا۔ان ایام اور تاریخی لمحات کے ایک عینی شاہد سید انصار ناصری صاحب ہیں جو ریڈیو سروس سے وابستہ تھے، انہوں نے3جون تقسیم ہند کے اعلان کے بعد قائد اعظم کی تقریر کا اردو ترجمہ اپنی زبان میں نشر کیا اور تقریر کے آخر میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا ۔ گیارہ اگست سے لے کر14اگست 1947تک وہ قائد اعظم کی تقریروں کے تراجم ریڈیو سے نشر کرتے رہے۔ وہ اپنی کتاب پاکستان زندہ باد کے صفحہ نمبر198پر لکھتے ہیں ’’رمضان المبارک برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے، نزول قرآن پاک کی مقدس رات لیلتہ القدر کی نورانی صبح، جمعۃ الوداع کا مقدس دن، ایسا قرآن السعدین تھا، جب رب ذوالجلال والاکرام نے اپنے محبوب، مکرم حضرت محمد ﷺ کے طفیل ان کے کروڑوں امتیوں کو جذبہ ایمانی اور مثالی اتحاد و برکت سے پاکستان کی وسیع و عریض اسلامی مملکت کی عظیم نعمت عطا فرمائی‘‘۔
بلاشبہ پاکستان کی دستورساز اسمبلی میں آزادی کا اعلان 14اگست کو ہوا، اسی روز پاکستان کے پرچم سرکاری طور پر لہرائے گئے اور 14،15اگست کی نصف شب پاکستان کا قیام عمل میں آگیا، چنانچہ پہلا یوم آزادی 15اگست کو منایا گیا اور آئندہ کے لئے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح کی منظوری سے کابینہ نے پاکستان کا یوم آزادی 14اگست کو منانے کا فیصلہ کیا۔ بلاشبہ 14اگست کو ستائیسویں رمضان تھی۔ اس لحاظ سے کچھ حضرات 14اگست اور15اگست کی رات کو لیلتہ القدر قرار دیتے ہیں جبکہ محترم منیر احمدمنیر صاحب کا کہنا ہے کہ لیلتہ القدر13اور14اگست کی درمیانی شب تھی۔ میں ان سے متفق ہوں۔ ان کی نشاندہی کا شکریہ۔ رمضان مبارک کی آخری راتیں قرآن مجید کے نزول کے حوالے سے اہم اور مقدس ہیں۔ رہا لیلتہ القدر کا مسئلہ تو وہ ستائیسویں رمضان کے ساتھ منسلک نہیں۔ اس خاص اور مقدس رات کے حوالے سے تمام احادیث کا مفہوم ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اسے رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو اور رات بھر عبادت کرو۔ ہندو پاکستان میں لیلتہ القدر کو27ویں رمضان کے ساتھ وابستہ کرلیا گیا ہے جو صحیح نہیں۔ یہ درست ہے کہ بھارت بھی اسی رات آزاد ہوا لیکن کیا بھارت مسلمان ملک ہے، اسلام کے نام پر قائم ہوا ہے، کیا بھارت رمضان، ستائیسویں رمضان اور نزول قرآن کے تقدس کو سمجھتا ہے۔ 14،15اگست 47کی شب بہت سے واقعات ہوئے ہوں گے لیکن ہم بات کررہے ہیں پاکستان کی جسے قائد اعظم نے پریمئر اسلامی ملک اور عالم اسلام کا حصار (Fortress)قرار دیا تھا۔ بھارت تو پہلے سے موجود تھا، بھارت کو تقسیم کرکے دنیا کے نقشے پر جو نیا ملک ابھرا اور معرض وجود میں آیا اس کا نام پاکستان ہے۔ یہ بہرحال ایک تاریخی، منفرد اور عظیم الشان کارنامہ تھا جو اللہ سبحانہ تعالیٰ کی رحمت سے سرانجام دیا گیا اسی لئے میرے درویش استاد و بزرگ پروفیسر مرزا منور کہا کرتے تھے کہ پاکستان پر اللہ پاک کی رحمت کا سایہ ہے۔ میرے محترم کرم فرما ڈاکٹر اسرار احمد کہا کرتے تھے کہ پاکستان اللہ پاک کا انعام ہے۔ وہ قرآن حکیم کی ایک آیت کا حوالہ دے کر کہا کرتے تھے کہ جب انعام الٰہی کی قدر نہ کی جائے تو سزا بھی ملتی ہے۔ یہ اپنے اپنے نقطہ نظر، احساسات و تصورات کا معاملہ ہے جس سے سب کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ میں نے نفس مضمون پر توجہ رکھی اور فروعی باتوں سے صرف نظر کیا کہ مقصد سیکھنا سکھانا ہے پوائنٹ اسکور کرنا نہیں۔
اس کالم کو میں پروفیسر مرزا محمد منور مرحوم ماہر اقبالیات، ماہر تحریک پاکستان اور قائد اعظم کے ان الفاظ پر ختم کرتا ہوں جو انہوں نے اپنی کتاب حصار پاکستان کے صفحہ نمبر194پر لکھے’’لاکھ لاکھ شکر اس خدائے مہربان کا جس نے اولاد آدم کی دائمی ہدایت کے لئے قرآن الفرقان ماہ رمضان کی آخری متبرک راتوں میں سے ایک میں نازل کرنا شروع کیا، اسی طرح لاکھ لاکھ شکر خدائے رحمن کا جس نے رمضان ہی کے ماہ مبارک کی آخری مقدس راتوں میں سے ایک میں امت مسلمہ کو پاکستان کی عظیم الشان نعمت غیر مترقبہ سے نوازا‘‘۔ کیا ہی اچھا ہوکہ ہم یوم پاکستان کے حوالے سے 14اگست کے ساتھ ساتھ ستائیسویں رمضان المبارک کو بھی یاد رکھیں
[…] حصہ اول پڑھنے کے لئے یہاں کلک کرئے […]