ضمیر : آغاز میں کروں گا اور دیکھنا تمہیں لاجواب نہ کر دیا تو کہنا...
میں اتحاد بین المسلمین کے لیے کہتا ہوں کہ
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نِیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کا شغر
نفس : لاجواب اور میں.. تمہاری سوچ ہے بس... لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے ...تم ذرا اس بات کا جواب تو دینا
یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو یہ تو بتاؤ مسلمان بھی ہو
ضمیر : (ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے) کہہ تو صحیح رہے ہو تم... لیکن تمہیں کچھ یاد کروا دوں ذرا...
کبھی اے نوجواں مسلم تدبّر بھی کیا تُو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے ایک ٹوٹا ہوا تارا
نفس : ( ہوا میں نیا تیر چلاتے ہوئے ) لگتا ہے خود کو اقبال کا شاہین تصور کیے بیٹھے ہو
تمہیں بتلا دوں کہ
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
ضمیر : میرا موازنہ کرگس سے تو نہ کرو...
اور اسکا جواب دو اب...
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
نفس : واہ شاہین... لگتا ہے مجھے مات ہو جائے گی تم سے...خیر... ابھی کچھ تیر باقی ہیں ترکش میں... پتا چل جائے گا کہ تم کتنے پانی میں ہو
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
اب اس کا جواب تو نہیں ہو گا تمہارے پاس...
ضمیر : بھئی میرے جوان محنتی اور ذہین ہیں تم انہیں چیلنج نہیں کر سکتے تم سے لڑنے پر آئے تو مات پکی سمجھو اپنی... کیونکہ
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہےجوانوں میں
نظر آتی ہے انکو اپنی منزل آسمانوں میں
نفس : واہ بھئی... جواب تو خوب دیا، مزہ آ گیا لیکن..
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
ہنستے ہوئے.. بولو کیا کہتے ہو اب؟
ضمیر : تم کبھی خوش اور مطمئن نہ ہونا بس... مجھے تو بس اتنا کہنا ہے کہ
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
نفس : اچھی کاوش تھی حوصلہ دینے کی...
لیکن صاحب آپ کو کون سمجھائے کہ
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
ضمیر : بھئی عمل کے بغیر تو واقعی زندگی بے کار ہے... کیا فائدہ ایسے علم کا جس پر خود عمل ہی نہ کرے بندہ... میں بھی تمہیں یہی سمجھانا چاہتا ہوں کہ
اے طائر لاہوتی!!اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
نفس : مطلب حلال رزق سے پاپی پیٹ کی آگ بجھاؤں.. حرام کو نکال دوں زندگی سے..
ویسے میرا کام تو تمہیں اکسانا ہے... اب یہ تو تمہارے اپنے ہاتھ میں ہے کہ کیا کرتے ہو
دل کی آزادی شہنشاہی، شِکم سامانِ موت
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شِکم
ضمیر : باتیں اچھی کر لیتے ہو ویسے!!! لیکن یہ مان لو کہ میں قائل ہونے والا نہیں ہوں تمہاری باتوں سے... ہم تو درویش صفت ہیں ہم تو اپنی نہیں مانتے، تیری کیوں مانیں گے
کہاں سے تو نے اے اقبال، سیکھی ہے یہ درویشی
کہ چرچا بادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا
نفس : خوب بے نیاز بندے ہو بھئی... نہ میری سنتے ہو نہ مانتے ہو.. دنیا سے بے نیاز ہو یہ تو چلو مان لیا.. دین سے بے بے زاری کیوں بھئی... نماز کا سوال تو سب سے پہلے ہو گا نا تم سے !!! وہ تو بہت اچھی پڑھتے ہو جیسے
میں جو سر بسجدہ ہوا کبھی، تو زمیں سے آنے لگی صدا تیرا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں
( نفس، ضمیر کو طنزیہ نگاہوں سے گھورتے ہوئے) کیوں سائیں بادشاہ ہے کوئی جواب اب ؟
ضمیر : حاضری تو لگ ہی جاتی ہے نماز پڑھنے سے، نہ پڑھنے سے تو پھر بھی بہتر ہی ہے.. ویسے بھی یہ کہہ کر تم میری نماز پر قبضہ نہیں کر سکتے.. کیونکہ نماز فرض ہے لیکن کیفیت فرض نہیں ہے
یہ بھی تو میرے لیے ہی کہا گیا ہے نا
کہ..
وہ ایک سجدہ جسے تو گِراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
نفس : تمہیں لگتا ہے کہ تم مجھے آسانی سے شکست دے لو گے؟ سوچ ہے تمہاری...
کیا اسکا جواب ہے تمہارے پاس؟
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جو غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن
ضمیر : شکر ہے جو تمہیں بھی شرم آئی ہے کسی بات پر... ورنہ تم تو غلط کام کر کے بھی ہمیشہ ڈھٹائی سے دفاع کرتے ہو اپنی بات کا... خیر اس بات کا جواب تو دینا بنتا ہے اب...
حق بات کہنے سے مومن رک نہیں سکتا
کٹ سکتا ہے سَر خُدارا مگر جھک نہیں سکتا
نفس: ( تھوڑا شرمندہ ہوتے ہوئے )
جو بھی ہے یہ بات تو تمہیں بھی ماننی ہی پڑے گی... ذات پات نے تو جکڑ رکھا ہے تم کو...
فرقہ بندی ہے کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
ضمیر : مجھے پتا تھا تم دکھتی رگ ہی چھیڑو گے تمہارا جواب تو میں نے پہلے سے ہی سوچ رکھا ہے...
توحید کی امانت سِینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا
نفس :
زباں سے کر گیا توحید کا دعوٰی تو کیا حاصل
بنایا ہے نت پندار کو اپنا خدا تو نے
ضمیر : اس کا جواب میں تو ابھی دیتا ہوں اب ہو سکے تو پینترا نہ بدل لینا.. اِسی کا جواب دینا
دین ہو فلسفہ ہو فقر ہو سلطانی ہو
ہوتے ہیں پختہ عقائد کی بنا پر تعمیر
نفس : فوراً پینترا بدلتے ہوئے
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سِی پارہ
ضمیر : کتابیں لکھیں تو خیر ہمارے اجداد نے ہی ہیں ہم اپنی نالائقی اور لاپرواہی کے سبب ان سے مستفید نہ ہو سکے تو یہاں غلطی تو واقعی ہماری ہے... اب میں تمہاری طرح تو ہوں نہیں... کہ اپنی غلطی بھی نہ مانوں.. اور مغربی تہذیب سے اتنا بھی متاثر ہونے کی ضرورت نہیں ہے
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
نفس : یہ بحث میں ہارنا نہیں چاہتا تھا لیکن لگتا ہے مجھے مات ہو چکی ہے
ضمیر :
میں اب اس بحث کو سمیٹنا چاہتا ہوں
خودی کے ساز سے ہے عمر جاوداں کا چراغ
خودی کے سوز سے روشن ہیں امتوں کے چراغ
اے نفس!!! تمہیں ہر وہ شخص شکست دے سکتا ہے جو اپنی زندگی کے مقصد سے آگاہ ہو، جو جانتا ہو کہ اسے زندگی جیسی نعمت سے کیوں سرفراز کیا گیا ہے جو اقبال کے فلسفہء خودی سے واقف ہو جو یہ جان لے کہ اسکی زندگی کی بنیاد لا الہ الا اللہ ہے .
تحریر : آن علی
تبصرہ لکھیے