پنجاب کے چھوٹے سے شہر ڈسکہ سے جرمنی جانے والا پچیس سالہ خزیمہ نصیر جرمنی کے ہسپتال میں بےکسی کی حالت میں صرف ایک دفعہ اپنے والدین تک پہنچ چانے کی خواہش دل میں لیے اپنی زندگی کی بازی ہار گیا۔ آنکھوں میں سہانے مستقبل کے خواب سجائے خزیمہ ایک سال سال قبل ایران، ترکی، یونان اور یورپ کے دیگر راستوں سے ہوتا ہوا جرمنی پہنچا تھا۔ اس بھیانک اور طویل سفر کے دوران ایرانی بارڈر پر وہ اور اس کے ساتھی پکڑے بھی گئے اور خزیمہ کی ایک ٹانگ میں گولی بھی لگی اور وہ ایران کے ایک ہسپتال میں زیر علاج بھی رہا۔ اس کے ساتھی تو ملک بدر کر دیے گئے مگر اس کو آزاد کر دیا گیا۔ اس نے سفر جاری رکھا اور یورپی ممالک کے غیر قانونی راستوں سے سفر کرتا ہوا جرمنی پہنچ گیا۔
جرمنی آنے کے صرف چندماہ بعد ہی اسے شدید بخار ہوا اور اس کی ایک ٹانگ بہت زیادہ سوج گئی تھی۔ یہ اس کی وہی ٹانگ تھی، جس پر ایران میں اسے گولی لگی تھی۔ جب اسے ایک ہسپتال میں داخل کرایا گیا تو تفصیلی معائنے پر بتایا چلا کہ وہ سرطان کا مریض ہے۔ ہسپتال میں ایک ماہ تک زیر علاج رہنے کے بعد اسے کولون کے ایک بڑے ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ اس ہسپتال میں ڈاکٹروں کو پتہ یہ چلا کہ خزیمہ نہ صرف ہڈیوں کے سرطان میں مبتلا ہے بلکہ اس کی یہ بیماری تب تک بہت خطرناک حد تک پھیل چکی تھی۔ پھر سرطان کے علاج کے لیے اس کی کئی طرح کی کیموتھراپی بھی کی گئی لیکن کینسر بڑھتا گیا اور آخر کار ڈاکٹروں کو اسے بتانا پڑا کہ وہ اس کا مزید علاج نہیں کر سکتے۔ اپنا آخری وقت اپنے والدین کے ساتھ گزارنے کی خواہش لیے نو مارچ 1992ء کو ڈسکہ میں پیدا ہونے والا خزیمہ جو ابھی 25 برس کا بھی نہیں ہوا تھا کہ جمعہ 4 نومبر کو صبح 10 بج کر 48 منٹ پر اپنے آخری سفر پر روانہ ہوگیا۔ جرمنی میں رہنے والے چند دردمند پاکستانیوں نے اس کی والدہ کو جرمنی بلانے کے لیے ویزے کے حصول کی کارروائی بھی شروع کی مگر قانونی پیچیدگیوں کے باعث مکمل نہ ہو سکی۔ اس پردیس میں ایک نوجوان اپنوں کو پکارتا اللہ کے حضور پہنچ گیا۔
خزیمہ کی موت نے مجھ جیسے لاکھوں لوگوں کو رونے پر مجبور کردیا۔ خزیمہ کے بارے میں مجھے معلومات ایک سرچ کے دوران جرمنی کی سرکاری اردو ویب سائٹ سے ملیں۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ بدقسمت خزیمہ کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟ ہمارے حکمران یا اس کے والدین؟ ریاست کے ہر شہری کی تعلیم، روزگار اور کفالت کی ذمہ دار حکومت ہوتی ہے، اگر حکمران خزیمہ اور اس جیسے لاکھوں نوجوانوں کو روزگار فراہم کر دیں تو شاید کوئی اور خزیمہ اپنی ماں کے زیور فروخت کرکے سہانے مستقبل کے خواب سجائے پردیس نہ جائے۔ ماں باپ کیا کریں، جس باپ کو بڑھاپے میں اس لیے نیند نہ آتی ہو کہ چار جوان بیٹیوں کے جہیز کا کس طرح بندوبست کرنا ہے تو اس کا بیٹا اپنے والدین کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا، پھر اس کے پاس ایک ہی حل ہے یا تو گن اٹھا کر ڈاکو بن جائے یا پھر خزیمہ کی طرح دھکے کھاتا جرمنی چلا جائے اور ہمیشہ کے لیے ماں باپ سے دور ہوجائے ۔اب بھی وقت ہے کہ حکمران اور اپوزیشن دھرنا دھرنا کھیلنے کے بجائے عوام کو ریلیف دیں تاکہ آئندہ کوئی اور خزیمہ پردیس میں ایڑیاں گڑ رگڑ کر مرنے پر مجبور نہ ہو۔ یاد رکھنا! اگر آپ یہ نہ کر سکے تو روزقیامت خزیمہ کی ماں کا ہاتھ ہوگا اور آپ کا گریبان ہوگا۔
تبصرہ لکھیے