ہوم << جب چین کا دارالخلافہ لاہور ہوگا - احمد سیال

جب چین کا دارالخلافہ لاہور ہوگا - احمد سیال

محترم دوست اور لکھاری ریحان اصغر سید صاحب آج کے ایڈوانس دور میں خط لکھتے پائے گئے ہیں۔ انہوں نے حالیہ دنوں میں ایک کھلا خط وزیراعظم میاں نواز شریف کے نام لکھا اور اس امید پر قائم ہیں کہ کوئی سیکریٹری اس خط کو اخباری تراشوں کے ساتھ میاں صاحب کی فائل میں لگا دے گا اور ان کی گزارشات میاں صاحب تک پہنچ جائیں گی۔
مجھے انتہائی افسوس ہے کہ ریحان اصغر صاحب نے اتنی محدود سوچ کا مظاہرہ کیا، حالانکہ امیرالمؤمنین میاں صاحب کو اس خط کے لکھے جانے سے پہلے ہی اپنے وجدان کے ذریعے پتہ چل چکا تھا، لیکن پھر بھی جیسے ہی دلیل ڈاٹ پی کے پر یہ خط شائع ہوا میاں صاحب کے دل کی گھنٹیاں بج اٹھیں۔ میاں صاحب نے اپنے اردگرد سب سے منحوس شخصیت تلاشی جو اس خط کا جواب دے سکے تو معلوم ہوا اس کو تو وزارت سے ہٹا دیا گیا ہے۔ اس کے بعد یہ قرعہ فال مینگو مین کے نام نکلا کہ اس گستاخانہ خط کا ہو بہو جواب دیا جائے اور اس خط کو کسی ذلیل ڈاٹ پی کے پر چھپوایا جائے۔ تو جواب حاضر ہے.
مکرمی ریحان اصغر سید صاحب!
آپ کا خط ملا۔ آپ کے شکوے شکایت سن کر شدید حیرت ہوئی کہ آپ پاکستان کے کس حصے میں رہ رہے ہیں، جہاں آپ کو ان تمام تکالیف کا سامنا ہے کیونکہ ہماری اطلاعات کے مطابق تو پورے ملک میں امن و امان کا دور دورہ ہے اور اب تو چین باقاعدہ ہماری پالیسیوں سے متاثر ہو کر اپنے ملک میں ہمارے تجربات سے فائدہ اٹھانے کے لیے شہباز شریف کو بلانے کا فیصلہ کر رہا ہے، بلکہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ چین کا درالخلافہ لاہور کو ڈکلیئر کر دیا جائے۔ آپ کے اعتراضات اور خدشات کا تفصیلی جواب نیچے دیا گیا ہے غور سے پڑھ کر اپنی اوقات میں واپس آ جائیں۔
پہلے تو اس الزام پر ہمیں سخت اعتراض ہے کہ کم و بیش تیس سال سے ہم پنجاب پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ یہ اس بات کی نفی ہے کہ اقتدار اعلی کی سزاوار صرف اللہ تعالی کی ذات ہے۔ ہم کون ہوتے ہیں حکمران۔ جب ہم حکمران ہی نہیں تو پھر غربت، ناانصافی، بےروزگاری اور صحت جیسے مسائل ہم کیسے حل کر سکتے ہیں۔
دوسرا الزام پہلے سے بھی زیادہ قابل اعتراض ہے کہ ہم نے 2013ء کے انتخابات میں وعدے کیے تھے۔ جناب والا! آپ کی اردو اتنی کمزور ہوگی، ہمیں اندازہ ہی نہیں تھا۔ لگتا ہے آپ نے اردو کی مشہور ضرب المثل نہیں پڑھی ”وہ وعدہ ہی کیا جو ایفا ہو جائے“، اس اعتراض کے جواب میں صرف اتنا کہیں گے کہ آپ اردو کی کسی اچھے استاد کے پاس ٹیوشن پڑھیں۔
تیسرا الزام تو بالکل لغو ہے کہ حمزہ شہباز اور مریم نواز سرکاری اختیارات استعمال کرتے ہیں۔ آپ سب جانتے ہیں کہ کل اختیارات کس ادارے کے پاس ہیں اور ان اختیارات کو کون استعمال کرتا ہے۔ میں تو نہاری اور پائے کے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے گھبرا جاتا ہوں اور اپ امور مملکت کے فیصلوں کے بارے میں الزامات پر الزامات لگائے جا رہے ہیں۔
اس خط میں کرپشن اور مالی بدعنوانی کے حوالے سے لگائے گئے الزامات کا جواب آپ کے خط میں ہی موجود ہے۔ آپ نے لکھا کہ بجلی کا سرکلر ڈیٹ 500 ارب تھا اور اب وہ صرف 400 ارب ہے تو یہ ہماری کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنایا تو وہ اپنے حکمران خود چن لیں گے اور ہم ان کی خدمت سے محروم ہو جائیں گے، اس لیے کدی سوچنا وی نا کہ علیحدہ صوبہ بنے گا، آخر ہم عوام کی خدمت کے جذبے سے سرشار کدھر جائیں گے۔
اور آخر میں آپ نے احتساب کی بات کر کے سارے خط کا وہ حشر کیا ہے جو شاندار ماش کی دال میں ایک کنکر کر دیتا ہے۔ الحمدللہ میرا باپ امیر اور شہباز کا باپ غریب تھا لیکن میں نے کبھی شہباز کو اس بات کا احساس نہیں ہونے دیا اور اس کو ہمیشہ برابر کا حصہ دیا ہے۔ اس سے آپ ہماری انصاف پسندی کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔
اور آخر میں آپ کو تنبیہ کی جاتی ہے کہ اگر آئندہ خط لکھنا ہو تو صالح ظافر کی شاگردی اختیار کریں، ورنہ سرکار کا وقت ضائع کرنے پر آپ کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
والسلام
آپ کا خیر اندیش
احمد سیال