جموں وکشمیر میں 1947ء سے جاری تحریک آزادی کے دوران قوم کے ہر طبقہ اور ہر خطہ سے وابستہ لوگوں نے قربانیوں کی عظیم داستان رقم کی ہے۔ مزاحمتی تحریک کے نقطہ نظرسے اگرچہ شہادتیں اس کا سرمایہ افتخار ہوتی ہیں جو اس کی مضبوطی کا باعث بنتی ہیں تاہم انسانی فطرت کے نزدیک کسی شخص کا حقِ زندگی تلف کرنا مکروہ ترین اعمال میں شمار ہوتا ہے۔ اسی لیے کسی مقصد کے لیے جان کی قربانی پیش کرنے کو عظیم ترین قربانی تصور کیا جاتا ہے۔ اپنے پیدائشی حق کے حصول کی خاطر جموں و کشمیر کے لوگوں نے یہ عظیم قربانی پیش کرنے سے بھی کبھی گریز نہیں کیا اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔
البتہ میری نظر میں اس پوری تحریک کے دوران جو سب سے زیادہ تکلیف دہ قربانیاں اس قوم سے جبراً وصول کی گئیں، وہ ایک تو ہماری عفت مآب خواتین کی عصمت کو تار تار کر دینا اور دوسرا، نوجوانوں کی آنکھوں کو نشانہ بنا کر اُن کو بینائی کی نعمتِ عظمیٰ سے محروم کر دینا ہے۔ جان کی قربانی پیش کرنے والے تو ایک ہی بار مرتے ہیں لیکن اگر معاشرے نے مظلومین کے ان دو طبقوں کی سماجی، معاشی اور سب سے بڑھ کر جذباتی حوصلہ افزائی نہ کی تو یہ اپنی زندگی میں بار بار مرتے رہیں گے۔ اگر قوم نے اپنے ان محسنوں کو شایان شاں وقار سے نہیں نوازا تو ہماری جدوجہد آزادی کے یہ ’’نظر آنے والے شہید‘‘ مستقبل میں نشان عبرت بن کر دوسروں کو کسی بھی جائز جدوجہد سے دور رکھنے کا باعث بن سکتے ہیں۔
سال 2010ء کی عوامی جدوجہد کے بعد کشمیر میں تعینات نیم فوجی دستوں نے یہاں ایک نئے ہتھیار ’’پیلٹ گن‘‘ کو استعمال کرنا شروع کیا۔ اگرچہ اس کے متعلق بتایاجاتا تھا کہ یہ غیر مہلک ہتھیار (Non-Lethal Weapon) ہے، تاہم آج تک پیلٹ گن نے کشمیر میں چودہ نوجوانوں کی جان لی ہے۔ لیکن پیلٹ گن کی اصل تباہ کاری یہ ہے کہ اس نے سینکڑوں افراد کی آنکھوں کو تباہ کر دیا اور اسے جان بوجھ کر اسی مقصد کے لیے استعمال بھی کیا جاتا ہے۔
کشمیر کے موجودہ حالات میں اب تک ہزاروں افراد کی آنکھوں کو زخمی کردیا گیا ہے، جن میں سے اکثر ایک آنکھ اور بہت بڑی تعداد میں لوگ دونوں آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو چکے ہیں۔ یہ ایک ایسا سنگین انسانی المیہ ہے جو ہماری قوم کے حساس اور باشعور طبقہ کی فوری توجہ کا مستحق ہے۔ قومی و ملی کاز کی خاطر متاع عزیز قربان کرنے والے ان افراد کی امداد کے ہر طریقہ پرغور کرنے کی ضرورت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ قوم کے یہ ہیرو ہماری غفلت اور سرد مہری کی وجہ سے معاشرے کے لیے نشان عبرت بن جائیں۔
وقت کی جو سب سے اہم ضرورت ہے، وہ ان متاثرین کی طبی امداد کا مسئلہ ہے۔ ان میں سے بہت سارے ایسے زخمی افراد ہیں جن کو اگر بروقت علاج کی سہولیات میسر آجائیں تو شاید اُن کی بینائی کو بچایا جا سکتا ہے۔ ایسے افراد کو اگرمناسب مالی امداد کے ساتھ ساتھ صحیح طبی رہنمائی فراہم کی جائے تو اُن کی بینائی کو واپس لایا جا سکتا ہے۔ پیلٹ متاثرین میں سے بہت سارے ایسے بھی ہیں جن کی دونوں آنکھوں کو ناقابل تلافی حد تک نقصان پہنچایا گیا اور جن کے متعلق ڈاکٹر صاحبان نے واضح کر دیا ہے کہ اُن کی بینائی واپس لوٹ آنا اب کرشمہ ہی ہوگا۔ ایسے افراد درجنوں کی تعداد میں ہیں اور اگر اُن کے متعلق قوم نے غفلت کا مظاہرہ کیا تو نہ صرف یہ عنداللہ ایک قابلِ مواخذہ مجرمانہ فعل ہوگا بلکہ تحریک آزادی کو بہت حد تک نقصان پہنچانے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ ان میں ایسے نوجوان بھی ہیں جن کے سامنے ابھی پوری زندگی پڑی ہے۔ ان کی تعلیم، روزگار اور خاندانی زندگی آباد کرنا ا ب صرف اُن کا ذاتی مسئلہ نہیں رہا بلکہ پوری قوم کا مسئلہ بن چکا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہماری باغیرت قوم کے لیے یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ جو قوم اپنی بےسروسامانی کے باوجود سات دہائیوں سے طاقتور ظالم کے مقابلے میں آزادی کی جدوجہد کو نہ صرف جاری رکھی ہوئے ہے بلکہ اس تحریک کو ایک فیصلہ کن مرحلہ تک لا چکی ہے، اُ س کے لیے اپنے ان محسنوں کی باوقار طریقے پر خبر گیری کرنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ صرف توجہ اور پھر عزم کی ضرورت ہے۔
آج کے جدید دور میں علاج و معالجہ کے بہت سارے طریقے دریافت ہو چکے ہیں۔ اُن میں سے ایک انسانی اعضاء کی پیوند کاری بھی ہے۔ میڈیکل سائنس نے اس شعبے میں آج اس حد تک ترقی کر لی ہے کہ انسان کے گردے اور جگر تک کی پیوند کاری کے ذریعہ جان کو بچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جہاں تک انسانی اعضاء کی پیوند کاری کا مسئلہ ہے، ہمارے علمائے کرام میں سے کچھ کے نزدیک یہ عمل جائز نہیں ہے۔ ان علماء میں مولانا مودودی بھی شامل ہے۔ البتہ علمائے کرام کے ایک بہت بڑے طبقے نے انسانی اعضاء کی پیوندکاری کو نہ صرف حلال بلکہ مستحسن عمل قرار دیا ہے۔ ان میں سے سر فہرست علامہ یوسف القرضاوی ہیں جو اپنی ایک تصنیف میں اس طرح رقمطراز ہیں،
’’انسانی اعضاء کا عطیہ کرنا جائز ہے یا ناجائز، اس سلسلے میں کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ چونکہ انسان اپنے جسم کا مالک نہیں ہوتا ہے اور اس میں کسی قسم کے تصرف کا حق اسے حاصل نہیں ہے، اس لیے جس چیز کا وہ مالک نہیں ہے اسے وہ عطیہ بھی نہیں کرسکتا ہے۔ لیکن اس مسئلے کو ایک دوسرے زاویے سے بھی دیکھا جاسکتا ہے اور وہ یہ کہ انسانی جسم اگرچہ اللہ کی ملکیت ہے لیکن اللہ ہی نے انسان کو اس بات کا حق عطا کیا ہے کہ فائدہ اور نفع کی خاطر اس ملکیت میں وہ اپنی مرضی سے تصرف کر سکے۔ مثال کے طور جسم کی طرح مال و دولت بھی اللہ کی ملکیت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بطور امانت انسان کو عطا کیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے: اور انہیں اللہ کے اس مال میں سے دو جو اُسی نے تم کو عطا کیا ہے. (النور۔ ۳۳) اس آیت میں واضح طور پر یہ بات کہہ دی ہے کہ اس نے جو مال ہمیں عطا کیا ہے وہ دراصل اللہ تعالیٰ کا مال ہے لیکن اس کے باجود اللہ نے ہمیں اس بات کا حق دیا ہے کہ ہم اپنی مرضی سے اس میں تصرف کرسکیں۔ اس لیے جس طرح مال و دولت کا عطیہ دے کر ہم کسی انسان کی مدد کر سکتے ہیں، اسی طرح اپنے جسم کا عضو کسی ضرورت مند انسان کو دے کر اس کی مدد کر سکتے ہیں۔ لیکن ان دونوں میں فرق یہ ہے انسان اپنی پوری دولت کسی کو عطیہ دے سکتا ہے لیکن اپنا پورا جسم کسی کو عطیہ نہیں دے سکتا، یا کوئی ایسا عضو بطور عطیہ نہیں دے سکتا کہ جس کے عطا کرنے سے خود اس کی جان چلی جائے۔ آج ہم خون کے عطیہ کو جائز قرار دیتے ہیں حالانکہ خون بھی تو انسانی جسم کا ایک حصہ ہے، اور بہت ہی اہم حصہ.
بعض لوگ یہ بھی اعتراض کرتے ہے کہ سلف صالحین میں سے کسی نے بھی عضو کے عطیے کے سلسلے میں کوئی کلام نہیں کیا ہے، اور نہ اسے جائز قرار دیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم سلف صالحین کے نقش قدم پر چلیں۔ ان کے اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ سلف صالحین کے زمانے میں اعضا کی پیوند کاری کا کوئی تصور نہیں تھا۔ جب یہ کام ان کے زمانے میں ہوتا ہی نہیں تھا تو اس سلسلے میں بھلا وہ کلام کیسے کرتے؟ دورِ حاضر میں ہم بہت سارے ایسے کام کرتے ہیں جو سلف صالحین نے نہیں کیے تھے کیوں کہ ان کے دور میں ان چیزوں کا وجود ہی نہیں تھا۔ اعضا کی پیوند کاری بھی ان چیزوں میں سے ایک ہے۔
اعضا کی پیوندکاری کے سلسلے میں علمائے کرام نے یہ قید مقرر کی ہے کہ کوئی ایسا عضو عطیہ نہیں کیا جاسکتا جس سے عطیہ کرنے والے کی اپنی جان خطرے میں پڑنے کا احتمال ہو۔ مثلاً دل، دونوں گردے، پورا جگر، یا کوئی ایسا ظاہری عضو جس کا تعلق انسان کی فطری زینت کے ساتھ ہو مثلاً آنکھیں ، ناک، کان وغیرہ۔ البتہ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ جس طرح انسانی اعضا کو عطیہ کرنا جائز ہے اسی طرح انسانی عضو کو وصول کرنا بھی جائز ہے اور یہ ضروری نہیں ہے کہ کسی انسان کو کوئی عضو عطیہ کرنے والا اس کا اپنا کوئی رشتہ دار ہی ہو۔ بلکہ علماء کے نزدیک ایک مسلمان غیر مسلم سے عضو حاصل بھی کر سکتا ہے اور اس کو عطیہ بھی دے سکتا ہے۔ آج دنیا بھر میں اس کام کے لیے آرگن بینک (Organ Bank) قائم کیے گئے ہیں، جہاں لوگ اپنی وصیت کے مطابق مرنے کے بعد اعضا عطیہ کرتے ہیں۔ کوئی بھی انسان جائز طریقہ سے اپنی ضرورت کے مطابق ان آرگن بینک سے رابطہ کر کے مدد حاصل کرسکتا ہے۔ فوت شدہ انسان سے متعلق اوپر بیان کی گئی قید نہیں ہے بلکہ اُس کے اہم اعضا اور زینت بخشنے والے اعضا دونوں کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس بارے میں علامہ یوسف القرضاوی کی رائے یہ ہے کہ:’’ نیست و نابود ہونے کے بجائے مرنے والے کا کوئی عضو کسی ضرورت مند کے کام آجائے تو یہ عمل یقینا قابل و تحسین اور باعث اجر و ثواب ہے۔ قرآن و سنت میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جس سے عطیہ دینے کی ممانعت ثابت ہورہی ہو۔‘‘ (فتاویٰ یوسف القرضاوی)
جہاں تک آنکھ کی پیوندکاری کا مسئلہ ہے تو اس سلسلے میں بھی علماء کے ایک طبقے نے اجازت دی ہے، مثال کے طور پرملائیشیا اور سنگاپور کی علما کونسلوں نے آنکھ اور کارنیہ (Cornea) کی پیوند کاری سے متعلق فتوے دے کر اس کو جائزقرار دیا ہے۔ ۱۹۹۵ء میں سنگا پور کی فتویٰ کمیٹی برائے مذہبی اُمور نے اپنے ایک فتوے میں کارنیہ کی پیوندکاری کو جائز قرار دیا۔ اسی طرح نیشنل فتویٰ کونسل برائے ملائیشیا نے بھی اپنے ایک فتوے میں کارنیہ کی پیوندکاری کو جائز قرار دیا ہے۔
اس سلسلے میں ایک اہم بات کو ذہن نشین کرنا ضروری ہے۔ وہ یہ کہ اگرعام حالات میں آنکھ کی پیوندکاری کی اجازت نہ بھی ہوتی تب بھی کشمیر کے خصوصی حالات اس مسئلہ پر مقامی پسِ منظر میں نئے اجتہاد کا تقاضا کر رہے ہیں۔ یہاں کے حالات اس بات کا تقاضا کر تے ہیں کہ ہمارے علمائے کرام اس مسئلہ میں قوم کی رہنمائی فرمائیں۔ اس وقت اس بات کو ملحوظِ نظر رکھیں کہ کشمیر میں یہ مسئلہ کوئی ایک یا دو انسانوں کو درپیش نہیں ہے بلکہ یہاں بہت بڑی تعداد میں لوگوں کو اس آفت میں ظلم کی بنیاد پر مبتلا کیا گیا ہے۔ اس لیے عام احکام سے آگے بڑھ کر یہا ں مقامی حالات کے مطابق اجتہاد کی ضرورت ہے۔
اسلامی شریعت میں موجود مختلف احکامات ز مان ومکان اور پسِ منظر کی منفرد خصوصیات کی وجہ سے یکسان نہیں رہتے بلکہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ علمائے سلف میں سے مالکی مسلک سے تعلق رکھنے والے امام شہاب الدین القرافی کایہ قول قابلِ غور ہے کہ ’’کسی خاص تمدن یا پسِ منظر میں وجود میں آنے والے احکامات، حالات میں تبدیلی کے ساتھ تبدیل ہوتے جائیں گے۔ اگر تمدنی پسِ منظر میں تبدیلی آگئی تو پھر احکام و قوانیں کی تنفیذ میں بھی تبدیلی ناگزیر ہے۔‘‘
علمائے کرام ایسے ناگزیرحالات میں ملت کی رہنمائی کرتے رہے ہیں اور موجودہ سنگین حالات میں ریاست کے علماء کو بالخصوص اس جانب توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ جنگ زدہ خطوں میں ناگریز حالات میں علمائے کرام نے منفرد فتوے دیے ہیں، مثال فلسطین کی دی جاسکتی ہے جہاں علماء کرام نے اس قسم کے منفرد فتوے دے کرعوام کے مسائل کا ازالہ کرنے کی راہ نکالی ہے اور دنیا کے بڑے بڑے دینی مراکز نے اُن پر کوئی اعتراض نہیں جتلایا۔ جموں و کشمیر میں سرگرم مزاحمتی و دینی تنظیمیں، تجارتی انجمنیں، دانشور اور دیگر غیر سرکاری انجمنیں اس سلسلے میں اقدام کرکے ایک قومی فنڈ قائم کرسکتے ہیں اور اس فنڈ کی ہی بنیاد پر پیلٹ متاثرین کے علاج و معالجے اور آنکھوں کی پیوند کاری کے لیے نہ صرف اُن کی حوصلہ افزائی کی جاسکتی ہے، بلکہ اس کام کو انجام دینے کے لیے ریاست کے اندر ہی بنیادی اور ضروری ڈھانچہ قائم کرنے کی جانب بھی پہل ہوسکتی ہے۔
(عمر سلطان اسلامی جمعیت طلبہ مقبوضہ کشمیر کے سابق ناظم اعلی ہیں اور حالیہ تحریک آزادی کشمیر میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں)
تبصرہ لکھیے