ہوم << موبائل چیٹ روم نے ایک بچی کی زندگی تباہ کر دی - راجہ احسان

موبائل چیٹ روم نے ایک بچی کی زندگی تباہ کر دی - راجہ احسان

موبائل کمپنیوں نے جب چیٹ رومز متعارف کرائے تو کچھ من چلوں نے اسے وقت گزاری کا ذریعہ بنا لیا، ایسی وقت گزاریاں کبھی کبھار جذباتی رشتوں میں بدل جاتی ہیں، اور وہی جذباتی رشتے یا تو حقیقی رشتوں میں بدل جاتے ہیں یا اپنے پیچھے رنج و الم اور یاس و حسرت چھوڑ جاتے ہیں. کوئی پتھر دل تو اسے برداشت کر جاتا ہے مگر کچھ حساس دلوں کا روگ بن جاتا ہے، کوئی اپنے احباب میں ان جھوٹی محبتوں اور توڑے ہوئے دلوں کا تذکرہ تفاخر سے کرتا ہے تو کوئی پچھتاوے کا ضبط ٹوٹ جانے پر نم آلود آنکھوں سے اپنے ستم کی داستاں شرمندگی کے احساس کے ساتھ کسی ہمدرد کے گوش گزار کرتا ہے، پچھتاوے اور شرمندگی کا یہ احساس ہی انسانیت کی دلیل ہے.
ایسا ہی کچھ واقعہ میرے دوست اور شاہ تاج کا ہے. 2008ء کے اواخر میں میرے دوست نے وقت گزاری کے لیے موبائلز کے چیٹ روم یوز کرنے شروع کیے، جہاں اس کی گفتگو ایک چودہ سالہ لڑکی سے شروع ہوئی جو کسی نِک نیم سے چیٹ روم یوز کرتی تھی، اس لڑکی کو میرے دوست کی باتیں اچھی لگنے لگیں اور وہ روزانہ میرے دوست کا چیٹ روم میں انتظار کرنے لگی، جوں ہی وہ روم میں جاتا، یہ اس سے گفتگو شروع کر دیتی، آہستہ آہستہ اعتماد کی فضا پیدا ہوئی تو اس نے میرے دوست کو اپنا اصلی نام شاہ تاج بتایا اور اپنا فون نمبر دے دیا. اب شاہ تاج میرے دوست کے ساتھ روزانہ رات کو فون پر بات کرنے لگی، اور گفتگو کا دورانیہ بڑھتے بڑھتے پوری رات تک چلا گیا، شام آٹھ ساڑھے آٹھ سے لے کر صبح آٹھ تک بات کرنا، ان کا تقریباً روز کا معمول بن گیا. میرے دوست کی نظر میں شاہ تاج ایک بچی تھی، وہ اس سے باتیں بھی بچوں والی ہی کرتی، اپنی دن بھر کی مصرفیات، اپنی سہیلیوں کی باتیں اور گھر کے حالات کا ذکر، جبکہ میرا دوست بھی اس سے انتہائی خوش اخلاقی سے پیش آتا اور اس کے کھانے پینے، سونے جاگنے کے بارے میں استفسار کرتا رہتا.
اس دوران میرے دوست کی چیٹ گروپ میں ایک اور لڑکی سے راہ و رسم بڑھی، وہ ایم ایس سی سائیکالوجی کی سٹوڈنٹ تھی، شعر و شاعری میں دلچسپی رکھتی تھی، دونوں کے مزاج ایک جیسے تھے، اس نے بھی میرے دوست کو اپنا نمبر دے دیا اور پھر میرا دوست اس سے بھی فون پر بات کرنے لگا، میرا یہ فلرٹ قسم کا دوست اپنی وقت گزاری کے لیے یہ سب کچھ کرتا مگر دوسری طرف ایک عورت کا دل تھا جو ذرا سی توجہ کا طالب تھا جو میرے دوست کی جانب سے بھرپور انداز سے مل رہی تھی.
شاہ تاج اب بڑی ہوتی جا رہی تھی اور میرے دوست کی عادی، ایک دن اس نے میرے دوست سے اس کی تصویر مانگی جو اس نے ایم ایم ایس پر بھجوا دی، جب میرے دوست نے اس سے تصویر مانگی تو اس نے انکار کر دیا جس کا میرے دوست نے بالکل بھی برا نہیں منایا. اس سلسلے کو دو سال سے زیادہ گزر چکا، شاہ تاج نے ایک دن میرے دوست سے کہا کہ میں محسوس کرنے لگی ہوں کہ میں تمھارے بغیر نہیں رہ سکتی اور مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے. میرے دوست کو، جو شاہ تاج کو بچی سمجھتا تھا، پہلی دفعہ احساس ہوا کہ اب معاملات کچھ اور رخ اختیار کر رہے ہیں، مگر چاہے جانے کا احساس اپنی جگہ ایک لطف رکھتا ہے، اس لیے اس نے شاہ تاج کو منع نہیں کیا جبکہ میرے دوست کا اپنی پسند سے نکاح ہو چکا تھا، یہ سب وقت گزاریاں تھیں.
شاہ تاج کراچی کی رہنے والی تھی، ایک دن میرے دوست کو کسی کاروباری ضرورت کے تحت کراچی جانا ہوا، شاہ تاج بہت خوش ہوئی، اس نے میرے دوست سے ملنے کا پروگرام بنایا، اپنے والد سے شاپنگ کے لیے پیسے لیے جس سے اس کا پروگرام تھا کہ میرے دوست کو کراچی کی سیر و تفریح کرائے گی، دوست رات کراچی پہنچا، صبح انھوں نے ملاقات کرنی تھی مگر اسی رات انتہائی مجبوری کے عالم میں واپس راولپنڈی آنا پڑا اور شاہ تاج کے سب ارمان حسرت میں بدل گئے. شاہ تاج کا میرے دوست پہ اعتماد اور اس کے لیے محبت دن بہ بدن بڑھتی جا رہی تھی ایک دن میرے دوست کو شاہ تاج کا ایم ایم ایس ملا جس میں اس کی تصویر تھی، ساتھ وہی بات کہ ”دیکھنے کے بعد ڈیلیٹ کر دینا“ اور میرے دوست نے ڈیلیٹ کر بھی دی.
شاہ تاج نے کبھی میرے دوست پہ شک نہیں کیا، وہ دوسری لڑکی سے بات کر رہا ہوتا، اور شاہ تاج کو نمبر بزی ملتا تو میرا دوست جو بھی عذر دیتا، وہ اسے خوش دلی سے قبول کر لیتی. میرے دوست کے مطابق شاہ تاج بہت عبادت گزار تھی، عبایہ پہنتی، اہلِ بیت سے محبت کرتی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق.
میرا دوست کا فلرٹ کے لیے بھی انتخاب دوسری لڑکی تھی، ان کی آپس میں ملاقات بھی ہو چکی تھی جبکہ شاہ تاج کے دل میں محبت کی چنگاری آگ کا الاؤ بن چکی تھی، اس کا وزن تھوڑا زیادہ تھا، اب اس نے جِم جانا شروع کر دیا، میک اپ کرنا شروع کر دیا، خود کو سنوارنا شروع کر دیا ”سجنا ہے مجھے سجنا کے لیے“. اس ساری داستاں کو پانچ سال ہونے کو آ گئے. اس دوران شاہ تاج نے میرے دوست سے اپنی ماں سے، بہن سے، اپنی کزنز سے بھی بات کروائی، ان سب کے نمبر بھی میرے دوست کے پاس تھے، شاہ تاج کے پاس تین نمبر تھے، تینوں میرے دوست کے پاس تھے.
شاہ تاج میرے دوست سے کہتی کہ جب میری تم سے بات شروع ہوئی تو میں ایک بچی تھی مگر وقت کے ساتھ ساتھ مجھے احساس ہوا کہ مجھے تو تم سے محبت ہوگئی ہے، اور اس کی طرف سے شادی کا مطالبہ شروع ہو گیا جو کہ میرے دوست نے سختی سے رد کر دیا. پھر ایک دن اس کی کال آئی، وہ روتی رہی اور اسے کہتی رہی کہ تم پہلے مرد ہو جو میری زندگی میں آئے اور آخری بھی تم ہی ہوگے، تم دیکھ لینا میں تمھارے بعد کسی سے بھی شادی نہیں کروں گی، اور یہ میری آخری کال ہے، میرے دوست نے اس کے اخلاص اور محبت کے جذبات کے آنسوؤں کو مگر مچھ کے آنسو سمجھا اور کوئی رسپانس نہ دیا، پھر اس کی کال بند ہو گئی.
ایک ہفتے بعد میرے دوست کو احساس ہوا کہ شاہ تاج کی دوبارہ کال نہیں آئی، اس نے شاہ تاج کا نمبر ڈائل کیا تو بند، دوسرا ڈائل کیا تو بند، تیسرا بھی بند ، چند دن تک وہ اس کے نمبر ملاتا رہا مگر بند ملتے رہے، پھر اس نے شاہ تاج کی بہن کا نمبر ڈائل کی،ا وہ بھی بند، اس کی ماں کا ڈائل کیا تو وہ بھی بند، اس کی کزن کا ڈائل کیا تو پک نہیں کیا گیا. اب وہ روز ان نمبروں کو ڈائل کرتا مگر بند ملتے. دوست کو یہ احساس شدت سے ستانے لگا کہ مجھ سے ایک بچی کے ساتھ ظلم ہو گیا ہے، یہ احساسِ شرمندگی اسے چین نہیں لینے دیتی، راتوں کو اٹھ اٹھ کر سگریٹ پینا اور بے چین رہنا، احساسِ جرم کے ساتھ جینا بہت مشکل ہوتا ہے، بظاہر وہ ہر کسی کے ہنستا کھیلتا رہتا ہے، مگر اندر سے گھٹ گھٹ کر جیتا ہے.
جب شاہ تاج کی آخری کال کو دو سال گزر گئے تو میرے دوست کی کال شاہ تاج کی کزن نے پک کر لی، اسے اتنا بتایا کہ شاہ تاج اپنا بالکل بھی خیال نہیں رکھتی، نہ کنگھی نہ میک اپ، نہ سجنا نہ سنورنا، نہ ہی وہ شادی کو تیار ہے، البتہ اس کی ماں نے اس کی زبردستی ایک جگہ منگنی کر دی ہے. میرے دوست نے بہت اصرار کیا کہ ایک بار شاہ تاج سے بات کروا دو، وہ مجھ پر غصے سے برسے، مجھے ملامت کرے، میں اس سے معافی مانگوں ، مگر جواب میں کال ڈراپ کر دی گئی.
اس کے بعد پھر کوئی کال اٹینڈ نہیں کی گئی، میرے دوست نے اب تک وہ نمبر جس سے شاہ تاج سے بات کرتا تھا، آن رکھا ہوا ہے کہ ایک دن شاید شاہ تاج کی کال آ جائے، اور اب وہ اسی احساسِ جرم کے ساتھ جی رہا ہے، یہ کہانی سناتے ہوئے اس کی آواز با بار بھرا جاتی اور آنکھوں میں آنسو ابھر آتے، اور چہرہ شرمسار ہو جاتا، اب اسے اسی بوجھ کے ساتھ جینا ہے کہ اللہ کرے شاہ تاج کی آخری کی کال ابھی باقی ہو.
نہ شکایتیں نہ سوال ہیں، کوئی آسرا نہ ملال ہے
تیری بے رُخی بھی کمال تھی، میرا ضبط بھی کمال ہے

Comments

Click here to post a comment