لاہور کے پہلے بڑے جلسے سے بھی کچھ ماہ پہلے امریکہ کے شہر ڈیلس میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان صاحب سے چند تفصیلی ملاقاتیں ہوئیں۔ اس موقعے پر ڈیلس میں بسنے والے پاکستانیوں کے سامنے عمران خان صاحب نے تحریک انصاف کا مستقبل کے لائحہ عمل کا تعارف اور تفصیلات بیان کیں اور کئی تلخ و شیریں ، تند و تیز سوالوں کے جوابات دیے۔
اس وقت ہمیں ان کی کچھ باتیں بڑی عجیب معلوم ہوئیں، یاد رہے کہ لاہور کے جلسے سے پہلے کم سے کم ہم پردیسی، تحریک انصاف کو ایک بہت ہی چھوٹی جماعت سمجھتے تھے اور ہمیں مستقبل قریب میں اسکی کسی بھی قسم کی قوت بن کے ابھرنے کا وہم و گمان بھی نہیں تھا۔ مگر عمران خان اس وقت بھی جو باتیں کر رہے تھے وہ حیرت انگیز طور پر حرف با حرف سچ ثابت ہوئیں اور ہم نے آج تک ان کو اپنے اس اصولی موقف سے ایک انچ بھی ہٹتے نہیں پایا جس کا اظہار انھوں نے ڈیلس کی ان محفلوں میں کیا تھا۔
عمران خان کا بیانیہ کیا ہے؟ آئے دن اخبارات اور سوشل میڈیا میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے خواتین حضرات اس پر قلم اٹھاتے رہتے ہیں مگر ان کے ناقدین میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جو ان کی درست بات کو سمجھ کر اس پر تنقید کرتا ہو۔
ذیل میں ہم عمران خان پر لگنے والے چند بڑے الزامات کا ان کے درست بیانیئے کی روشنی میں جواب دینے کی کوشش کریں گے۔
پہلا الزام یہ ہے کہ وہ خونی انقلاب کے داعی ہیں اور طالبان کے نقشِ قدم پر چل کہ ریاست کے نظام کو درہم برہم کرنا چاہتے ہیں۔ اس قسم کے انقلابات سے صرف انارکی پھیلتی ہے جس کا خمیازہ پوری قوم کو سالوں بھگتنا پڑتا ہے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ انقلاب نے کبھی کسی قوم کا بھلا نہیں کیا، انقلاب فرانس سے لے کر عرب سپرنگ کے نتائج ،سب اس بات کے گواہ ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ عمران خان نے آج تک انقلاب کو کبھی اپنا نعرہ نہیں بنایا۔ انکا نعرہ انقلاب نہیں تبدیلی ہے۔ تبدیلی جمہوری معاشروں کی ایک مشہور اور پامال اصطلاح ہے جسے آئے دن مختلف انتخابی امیدوار الفاظ بدل بدل کے استعمال کرتے چلے آئے ہیں۔ تحریک انصاف نے کبھی اداروں کو تباہ کر کہ اقدار پر قبضہ کرنے کی بات نہیں کی۔ عمران خان کا تو شکوہ ہی یہ کہ کرپشن سے ادارے تباہ کیے جا رہے ہیں بلکہ برھتی ہوئی بدعنوانی نے بڑی حد تک انھیں غیر فعال اور غیر موثر کر دیا گیا ہے۔ ادارے قانون سازی کے ہوں یا نفاذ کے، انتخاب کے ہوں یا احتساب کے سب کی حالت پوری قوم پر واضع ہے۔ اس صورتحال میں خونی انقلاب کوئی حادثہ نہیں بلکہ ایک قدرتی عمل ہے جس کی رکنے کی واحد امید ،عمران خان کے حامیوں کے نزدیک، تحریک انصاف ہے۔ ظلم اور ناانصافی کی چکی میں پسی ہوئی خاموش اکثریت کو امید ہے کہ اگر تحریک انصاف کامیاب ہوگئی تو شاید ان کے دکھ درد کا کوئی مداوا ہو سکے۔ اسے آپ انکی خام خیالی یا خوش فیمی کہہ لیں، مگر انکے نزدیک ، یہی خوش گمانی اس حادثے کی راہ میں آخری دیوار ہے جسکی تہمت تحریک انصاب پر لگائی جاتی ہے۔
دوسرا الزام یہ ہے کہ سیاسی تبدیلی سے قوم کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔ سیاسی تبدیلی سے کبھی صالح معاشرے وجود نہیں پا سکتے۔ صالح معاشرے کا وجود صرف قوم کی تعلیم و تربیت سے ایک طویل تدریجی عمل کے بات ہی ممکن ہو سکتا ہے۔
یہ بات دراصل دو باتوں کو آپس میں خلط ملط کرنے کا نتیجہ ہے۔ صالح معاشرہ کا خواب مذہبی جماعتیں دیکھتی اور دکھاتی آئی ہیں۔ سویت یونین کے جبری نطام کے نفاذ اور اسکی وقتی کامیابی سے ہمارے مذھبی رہنماوٗں کو بھی یہ گمان ہوا کہ اگر کفر کا نطام نافذ ہو سکتا ہے تو اسلامی نظام کا جبری نفاذ کیوں ممکن نہیں۔ اسلامی ریاست ، اسلامی حکومت اور اسکے نتیجے میں قائم ہونے والا ایک صالح معاشرہ اور صالح قوم، یہ سب ان مذہبی جماعتوں کے خواب ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
مجھے کئی ملکوں میں رہنے اور جانے کا اتفاق ہوا ، میں نے آج تک کسی ملک میں نہ تو صالح قوم دیکھی اور نہ ہی صالح معاشرہ۔ ہوسکتا ہے انبیاً کی زیرِ نگرانی ایسی کوئی صورتحال پیدا ہو جا تی ہو مگر صالح قوم آج کل کے دور میں وہ اسم ہے جس کا کوئی مسمیٰ نہیں۔ میں نے ہر قوم میں ایک ہی تناسب سے دیانتدار اور بددیانت لوگ پائے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں مضبوط ادارے اور قانون کی بالادستی ہے جو ان معاشروں کو صالح معاشروں سے قریب کردیتی ہے۔ یہی وجہ کے ہمارے جیسے غیرصالح لوگ ان ملکوں میں جا کر بغیر کسی تدریجی عمل سے گزرے راتوں رات سو فیصد صالح بن جاتے ہیں۔
عمران خان کی جدوجہد کا مقصد صالح قوم یا معاشرے کا قیام نہیں بلکہ موجودہ نظام کے عملِ تطہیر کے آغاز ہے۔ وہ کوئی نیا نظام نہیں چاہتے بلکہ اسی نطام کے اعلی عہدوں کو بددیانت اور چورنگرانوں سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ اس نظام کے لیے فرشتے دستیاب نہیں اور نہ ہی مغرب کی ترقی یافتہ اقوام کے اداروں کو فرشتے چلا رہے ہیں، مگر صرف ایک ایماندار وزیر اعظم اور اسکی حکومت، اداروں کو اس طرح طاقتور بنا سکتی ہے کہ پھر ان کو دوبارہ بے راہ روی کی اُس روش پر ڈالنا آسان نہیں ہوتا، جس پرپڑے ہمارے ادارے اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کی ترقی یا فتہ جمہوریتوں اور انکے مضبوط اداروں کے پیچھے کسی نہ کسی دور میں آنے والے، عمران خان جیسے افراد کا نام ہے۔ ان لوگوں کے آنے سے معا شرے یا قومیں صالح نہیں ہو جاتیں، بلکہ چوری اور بددیانتی اعلی ترین عہدوں کا شعار نہیں رہتا۔ قانون سازی سے اداروں کو حقیقی اور دائمی آزادی و خود مختاری دی جاتی ہے جس کے نتیجے میں سزا و جزا کا نظام کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔
اس اصلاحی عمل میں ناممکن ہے کہ تمام چہرے نئے ہوں۔ اس میں لازمی پچھلے ادوارکی بندربانٹ سے مستفید ہونے والے لوگ بھی نظر آئیں گے۔ ان میں سے کچھ وہ ہونگے جو حقیقتاً تائب ہوگئے ہوں، کچھ وہ جو نئی اقدار کو معیار مان کر اس کے دھارے میں شامل ہونا چاہتے ہوں اور کچھ وہ جو ایمانداری کا لبادہ اوڑھ کر موقع کی تلاش میں ہوں۔ مگر چاہے چہرہ نیا ہو یا پرانا، اس اصلاحی عمل میں ہر مجرم کے ساتھ ، سیاسی اثرو رسوخ سے آزاد ادارے بے لاگ انصاف کریں گے۔
ایک بڑا الزام یہ ہے کہ وہ فوج کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں۔ پہلے دھرنے میں امپائر کی انگلی اور جنرل پاشا سے روابط کے گیت دن رات گائے جاتے ہیں۔ یہ وہ افواہ ہے جو بغیر کسی ثبوت کے خبر بنی اور خبرِ مشہور اور خبرِ متواتر کے درجات سے گزرتی ہوئی اب قطعی علم کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔ اس الزام کی عمران خان متعدد بار تردید کر چکے ہیں، وہ واضع طور پر کہہ چکے ہیں کہ اگر فوجی حکومت آئی تو وہ اسکی مخالفت بھی کریں گے اور احتجاج بھی۔ مجھے ان کی اس بات پر اس لئے بھی یقین ہے کیونکہ انھوں نے کئی سال قبل ڈیلس کی ملاقاتوں میں ہمیں بتایا تھا کہ حکومتی ٹولا یہ تمام ہتھکنڈے استعمال کرے گا اور اگر وہ انصاف کے تمام راستے مستود پائیں گے، تو سڑکوں پر احتجاج کریں گے۔
اس کے باوجود اگر اس الزام میں ذرا بھی حقیقت ہے تو کوئی بھی جمہوریت پسند اسکا دفاع نہیں کر سکتا۔ ہم یہ حسن ظن رکھتے ہیں کہ یہ سب افوائیں بے بنیاد ہیں اور اگر یہ سچ ثابت ہوئیں تو ہم سب سے آگے بڑھ کر عمران خان کے خلاف احتجاج کریں گے۔
ایک طبقہ وہ بھی جو کہتا ہے کہ یہ سب باتیں درست ہونگیں مگر ہمیں عمران خان کے طریقے سے اختلاف ہے۔ انھیں عدالت اور دوسرے احتسابی اداروں میں جانا چاہیے اور عدلیہ کے فیصلے کا انتطار کرنا چاہیے۔ دوسرا یہ کہ عمران خان نے انتخابی اصلاحات کو پس پُشت ڈال دیا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی جدوجہد کا واحد مقصد اقتدار کا حصول ہے۔
پہلی بات تو یہ کہ تحریک انصاف عدالت سمیت تمام احتسابی اداروں کا دروازہ کھٹکا چکی ہے مگر کزشتہ احتجاج کے نتیجے میں انتخابی اصلاحات پر قائم ہونے والے عدالتی کمیشن کے فیصلے سے ظاہر ہے کہ عدلیہ نے اپنے فیصلے میں انتخابی نظام کی تمام خرابیوں اور کمزوریوں کا اعتراف کیا مگر نظریہ ضرورت کی پیروی میں اسکے خلاف کوئی بھی کاروائی کرنے سے پرھیز کیا۔ تحریک انصاف کا موقف ہے کہ حکومتی ٹولا اس طرح کے تاخیری حربوں میں الجھا کر مہلت حاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ اصلاحات کو ٹالا جا سکے اور کسی نہ کسی طرح اسی نظام کی کمزوریوں سے فائدہ اُٹھا کر ایک الیکشن اور جیتا جاسکے۔ تحریک انصاف عدالتی کاروائی کے ساتھ ساتھ احتجاجی سیاست سے وہ ماحول تخلیق کرنا چاہتی ہے جس کے دباوٗ میں آکر ادارے اپنی ذمہ داری پوری کرنے پر مجبور ہو سکیں۔ اس کے علاوہ ان کی نظر میں اس کرپٹ مافیا سے نپٹنے کا، ان کی نظر میں، کوئی اور راستہ نہیں۔ موجودہ احتجاجی مہم کا مقصد حکوآمتی جماعت کو اقتدار سے محروم کرنا نہیں بلکہ وزیرِ اعظم کو انصاف کے کٹہرے میں لانا ہے جن پر پانامہ لیکس میں بدعنوانی نہ سہی پر کم سے کم اثاثوں کے باب میں غلط بیانی بلا شک و شبہ، ثابت ہو چکی ہے۔
ٓآپ مندرجہ بالا تمام دعووں کودیوانے کی بڑ قرار دے کر ماننے سے انکار کرسکتے ہیں، انھیں جھوٹ اور دھوکا قرار دے سکتے ہیں پر خدارا جو بات عمران خان کر رہے ہیں اس کو سمجھ کر اسی بات پر تنقید کریں۔ اپنے تئیں چند کمزور اور ناقابل دفاع نظریات بنا کر ان پر ٹارگٹ پریکٹس نہ فرمائیں۔
تبصرہ لکھیے