اکثر پنچھی سورج ڈھلنے کے بعدراستہ بھٹک جاتے ہیں۔ اب ہر کسی کو جگنو نہیں ملتا جو اسے گھر لے آئے۔ ایسا ہی کچھ میرے ساتھ ہوا۔
’’یہ غلط ہے۔ ہم اپنا فرض نہیں بھلا سکتے۔ اس سب میں اگر کسی کی جان چلی گئی تو؟ یہ اپنے پیشے سے غداری ہے۔‘‘
’’میں نہیں چاہتا کہ میرے بچوں کا بچپن بھی میری طرح محرومیوں میں گزرے۔ا ور مجھے ہر قیمت پہ ان کے خواب پورا کرنے ہیں بس۔‘‘ میرے لہجے میں درشتی نمایاں تھی۔
’’اچھا تو جو خواب اماں نے دیکھا تھا وہ؟ انہوں نے اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کے تمہیں پڑھا کے اپنا خواب سینچا کہ تم مسیحا بن کے زندگی بانٹو نہ کہ اپنے پیر طمع کے دھاگوں سے باندھو۔‘‘
’’تم ہمیشہ دلائل اچھے دیتے ہو، پر جان لو کہ کتابی باتیں حقیقت میں کوئی جگہ نہیں رکھتیں۔ مزید لیکچر کا موڈ نہیں میرا۔ چلتا ہوں، کل بہت کام ہے۔‘‘ میں نے کوٹ اٹھایا اور کمرے سے باہر نکل آیا۔
میں اور عمر زمانہ طالب علمی سے دوست تھے۔ ہم دونوں کے مزاج میں بھلے ہی زمین وآسمان سا فرق تھا پر ہماری دوستی نیلے سمندر سے زیادہ گہری تھی۔ اماں مجھ سے زیادہ اس کی طرفداری کرتی تھی، شاید وہ جانتی تھیں کہ عمر مجھے کبھی گرنے نہیں دے گا۔ وقت پر لگا کے گزر گیا اور ہم دونوں جو سکول میں خالی سرنج میں پانی ڈال کر ڈاکٹر ڈاکٹر کھیلتے تھے، اپنی محنت سے ایم بی بی ایس ڈاکٹربن گئے۔ میں اور عمر الگ الگ اسپتالوں میں جاب کرنے لگے۔ روزبروز بڑھتی مہنگائی، گھر کے اخراجات ، بچوں کی ننھی خواہشیں سب پورا کرنے کے لیے تنخواہ ناکافی تھی۔ میں پریشان تھا۔ انہی دنوں میرے اسپتال کے ڈاکٹر بھی ہڑتال کرنے کا پروگرام بنارہے تھے۔ آخر اچھی تنخواہیں اور مراعات ہمارا حق ہے۔میں نے جب عمر کو بتایا تو اس کا ردعمل شدید تھا کہ ہمارے لیے ہمارا فرض زیادہ اہم ہے۔ اپنے مطالبے پیش کرنے کے اور بھی طریقے ہیں۔ کئی معصوم جانیں بروقت علاج نہ ملنے پہ ضائع ہو سکتی ہیں۔وغیرہ وغیرہ۔ پر مجھے آنکھوں پہ ذاتی مفاد کی بنذھی پٹی سے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا اور پہلی بار ہماری دوستی میں گہری دراڑ پڑی تھی ۔
...............................................
ہڑتال شروع کیے تیسرا دن تھا جب نور نے گھبرائی آواز میں فون پہ کہا کہ معصب سیڑھیوں سے گر گیا ہے اور اس کے سر پہ خاصی چوٹ آئی ہے۔ میں بھاگم بھاگ گھر پہنچا۔ اسے گاڑی میں لٹایااور اسپتال کا موڑ لیا۔
اور ابھی یہاں ایمرجنسی وارڈ کے باہر عجب سماں ہے۔ بیشتر ڈاکٹرز ہڑتال پر ہیں۔
’’خدا کے لیے میرے بچے کو بچا لو۔ دیکھو اس کا کتنا خون بہہ رہا ہے۔ ڈاکٹر! کوئی تو میری سنو۔۔‘‘ مسیحائوں کو ڈھونڈھتے اس بوڑھے کی آنکھ میں امید کے بجھتے چراغ دیکھنے کی مجھ میں تاب نہیں۔ روم ون او سیون کے مریض کی بگڑتی حالت پہ اس کی نو سالہ بیٹی کی آنکھیں روتے ہوئے سوال کر رہی ہیں کہ کیوں اس کے بابا کو دوا نہیں دی جا رہی؟ میرے سامنے سٹریچر پہ ایک نوجوان زخمی پڑا ہے اور اس کے اہل خانہ ڈاکٹر کے نہ ہونے پہ چیخ وپکار کر تے چارہ گر کی راہ تکتے غم کی تصویر بنے کھڑے ہیں۔
اپنے کانوں سے دلخراش صدائیں سنتا اپنی نظروں میں گرتا جا رہا ہوں۔ میری نظروں کے سامنے گزرے چند دن یہ یتا رہے ہیں، گذشتہ دنوں بھی یہاں کے درودیوار ایسی ہی صورتحال کے گواہ بنے ہیں۔
’’یہ اپنے پیشے سے غداری ہے۔‘‘
’’احتجاج کے اور بھی راستے ہیں۔‘‘
’’اگر کسی معصوم کی جان چلی گئی تو؟‘‘
مجھے عمر کی کہی اک اک بات یاد آ تی گئی۔ اور میری ہتھیلیوں پہ میری آنکھ سے بہتا پانی جمع ہوتا گیا۔
میں اپنے مفاد کے لیے اپنا اصل مقام بھول بیٹھا تھا۔اپنے فرض کو چھوڑ کے بہتر مستقبل کے خواب سجا رہا تھا۔ اپنی خودغرضی پہ اپنی دوستی قربان کرنے چلا تھا کہ بروقت عقل پر پڑے پتھر ہٹ گئے۔
آدھے گھنٹے بعد معصب نے آنکھیں کھولیں تومجھے احساس ہوا کہ میری توبہ رب تعالی کے حضور قبول ہوگئی ہے۔ اور اب اپنے مفاد کی پٹی اتارے میں اپنا فرض ادا کرنے مریضوں کی جانب بڑھ رہا ہوں۔ آخر مجھے اس جگنوکا قرض بھی تو اتارنا ہے جس نے مجھے راہ دکھائی ہے۔
تبصرہ لکھیے