ہمیں آزادی مل گئی ہماری بلند بختی ہے لیکن جن ہندوؤں سے ہم علیحدہ ہوئے، ان کی ایک ایک عادت ہمارا تمدن بن کے رہ گئی ہے. بلکہ اس سے بھی کہیں آگے رواج اور مذہب تک ان کی مماثلت کو اختیار کر لیا گیا ہے.
مسلمانوں کی بھی کچھ عادات ہندو مذہب کے لوگوں نے اختیار کیں لیکن مسلمان جو اس دین کو ماننے کے دعویدار ہیں، جو آفاقی ہے، جو لاثانی ہے، جو پوری انسانیت کی فلاح کا پیغام لے کر آیا ہے. جو دنیا تو بدل سکتا ہے لیکن دنیا اسے نہیں بدل سکتی، لیکن ہماری ستر سالہ آزاد قوم کی کیا ہی بات ہے کہ ہم نے اس ناممکن امر کو بھی سچ کر دکھایا ہے.
ہندو مذہب میں موسیقی ان کے عقیدے کا اہم ترین جزو ہے اور ہم نے اسے روح کی غذا ٹھہرا دیا ہے، جبکہ وہ ہندو ہیں اور ہم مسلمان ہیں.
ان کے برہمن کا درجہ سب سے اعلی اور برتر ہے خواہ وہ زمانے کا بدترین شخص ہی کیوں نہ ہو، بعینہ ہمارے ہاں بعض لوگوں کو یہ درجہ حاصل ہے جو تمام تر جرائم سے مستثنی ٹھہرتے ہیں..
حالانکہ جس مطہر شخصیت پر اس دین کو اتارا گیا، جو اس کے امین اور پوری انسانیت کے لیے رحمت اللعالمین بن کر آئے، انہوں نے ایسی تمام تر لکیروں کو مٹا دیا تھا کہ کسی کو کسی پر کسی طور فوقیت حاصل نہیں ماسوائے تقوی کے یعنی جو جتنا متقی وہ اللہ کا اتنا ہی مقرب بندہ ہوگا، اگر حسب ناموں سے حدائق بخشش کی الاٹمنٹ ہوتی تو محبوب سبحانی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کتنے ہی عزیزوں کو جہنم کا ایندھن بننے سے بچا لیتے.
ہندو معاشرے میں عورت کو کبھی کتے کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے اور کہیں بندر کے ساتھ بیاہ دیا جاتا ہے.
اور ہمارے معاشرے میں بھی ایک وقت تک کچھ اسی طرح کی مشق ہوتی رہی کہ جب وڈ وڈیروں کا اپنی برادری میں کسی رشتہ کا بندوبست نہ ہو پاتا تو بیٹیوں کو قرآن پاک کی منکوحہ بنا دیا جاتا گوکہ اب یہ پریکٹس مفقود ہوگئی ہے لیکن ایک وقت تک اس کا بہت چرچا تھا.
شادی کے موقع پر ہلدی، مایوں، سہرا، ڈانڈیا یہ وہ اور جانے کیا کیا، یہ سب وہاں کی پیداوار ہیں اور اب یہاں مستعمل ہو چکی ہیں.. کہاں وہ اگنی کے گرد سات پھیرے لے کر ماتھے میں سندور بھرنے والے اور کہاں یہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی اک اک ادا پر جان وارنے کے دعویدار جن کے مرشد کی بیٹی کا نکاح ہوا تو اس کی سادگی دنیا کے لیے مثال بن گئی.
ریسیپشن کے نام پر بدنام زمانہ ٹولیوں کو بلوا کر رقص و سرور کی محفلیں سجانا مسلمانوں کے سوا تو سب کو زیب دے سکتا ہے لیکن بحیثیت مسلمان یہ تمام تر امور ہماری مسلمانی پر سوالیہ نشان بن کر ابھرتے ہیں. کیونکہ ہمارے ہاں رشت ازدواج کلام الہی اور طرز رسول پر مبنی ہوتا ہے اور نکاح نامی عبادت سے قبل اللہ رب العزت کے قانون کی دھجیاں بکھیر کر اس کا نام لے کر جوڑا جانے والا رشتہ برکت سمیٹے تو کیسے، پھلے پھولے تو کس طرح، مؤمن گھرانہ جنم لے تو کیسے؟
ہندو معاشرے میں گیتا اور وید قسموں تک محیط ہے، شادی کے موقع پر اچھے شگون کے لیے اس سے جڑی طرح طرح کی رسمیں بھی کی جاتی ہیں اور ہم بحمدللہ مسلمان بچی کو قرآن کی تعلیم ٹھیک طرح سے دی ہو یا نہ دی ہو، اسے قرآن کے سائے میں رخصت کرکے خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں..
یہ قرآن گھروں میں گونجنے اور معاشرے میں پھیلنے کے لیے آیا ہے، اس میں زندوں میں ارتعاش بھرنے کے نسخے ہیں اور ہم اسے قسموں، رٹوں اور قبروں کی زینت بنا چکے ہیں.
اُن کے ہاں مختلف دیوتاؤں کی تصاویر آویزاں ہوتی ہیں اور ہم نے بھی کچھ کو فریم کروا کر گھروں میں ٹانگ رکھا ہے.
وہ کاروبار میں ترقی کے لیے لوہے کو مبارک سمجھتے ہیں اور ہم نے اپنی گاڑیوں اور دکانوں کے ماتھوں پر برکت کے لیے لوہے کے کُھر ٹانگ رکھے ہیں.
ہندو بھی اک مخصوص دھوئیں کو خیر کا موجب سمجھتے ہیں اور لوبان کا دھواں ہمارے ہاں بھی دکانوں میں بڑے شوق سے پھروایا جاتا ہے.
بدشگونی ہندو مذہب کا اہم ترین حصہ ہے جبکہ اسلام اس کی مکمل نفی کرتا ہے لیکن ہمارے ہاں اس بد شگونی کے کانسیپٹ کو بڑی عجلت سے اپنایا گیا ہے، شام کو یہ نئیں کرنا، فلاں وقت کسی کو کوئی چیز نہیں دینی، فلاں جگہ ناخن نئیں تراشنے، یہ بندہ منحوس، وہ جگہ منحوس، وغیرہ وغیرہ.
کسی کے فوت ہو جانے پر تیا ساتا اور چالیسواں اسلام میں کہیں نہیں ہے، غم ضرور ہے تین روز کا لیکن اس میں بھی صبر کی بلا قسم کی تلقین کی گئی ہے، اس طرح سال کے سال برسی کا اہتمام کرنا بھی اسلامی تعلیمات میں کہیں نہیں ملتا، یہ سب بہت بعد کی رسمیں ہیں جو دیکھا دیکھی اپنائی گئیں۔
ان کے ہاں ”گاٶ ماتا“ کی تقدیس بڑی ہی معنی خیز جس کی پیروی میں وہ اس کا ”گوبر اور موتر“ تک حلق سے اتار جاتے ہیں.
جبکہ ہم بھی تہی دست نہیں، رسومات ہمارے ہاں مستعمل ہو چکی ہیں.
اک اور رسم جو آج ہماری معاشرے میں سرایت کر چکی ہے جس میں ہمارا آزاد میڈیا کا کردار پیش پیش ہے، ہندوؤں کا کوئی مر جائے تو لواحقین سمیت تمام تعزیت کرنے والے سفید لباس پہنے ہوتے ہیں، اور اب ہمارے ہان بھی اکثر میتوں میں اس ٹریند کو فالو کیا جاتا ہے بالخصوص ہر پاکستانی ڈرامہ اس کی پریکٹس کرتا نظر آتا ہے۔
ہمارے پڑوسی دیوالی کے موقع پر پٹاخوں سمیت آتش بازی کا اخیر قسم کا مظاہرہ کرتے ہیں جبکہ ہم مسلمان شب برات میں شرلیاں چھوڑنے اور پٹاخے پھوڑنے میں انہیں بھی پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے علماء نہ صرف اس امر سے منع کرتے ہیں بلکہ وعیدیں بھی سناتے ہیں لیکن اس کے باجود ہر سال پچھلے سال سے بڑھ کر بارود جلایا جاتا ہے کیونکہ عوام یا تو انہیں عالم تسلیم نہیں کرتی یا ہم لوگ خود کو ان علماء سے بڑا عالم سمجھنے کا زعم پال چکے ہیں۔
اسی طرح ہندوؤں کے ہاں بھی ایک بھگوان کا سرسری سا تصور موجود ہے لیکن ہر ایک نے اپنی الگ الگ ماں اور دیوتا بنایا ہوا ہے، کوئی ہنومان کا بھگت ہے تو کوئی کرشنا کا پجاری، کسی کی کالی ماں ہے، تو کسی امبے دیوی ہے۔
جبکہ ہم اہل اسلام اس پختہ عقیدے کے متولی ہیں کہ یہ جو جہاں ہمارے سامنے ہیں اور وہ جہاں جو ہم سے بصارت کے اعتبار سے اوجھل ہیں یا علم کے اعتبار سے دور ہیں، ان تمام جہانوں میں موجود تمام تر مخلوقات پر حاکمیت اور تصرف فقط ذات واحد اللہ کے اختیار میں ہے.. موت، حیات، رزق، تنگی، فراخی، حاجت روائی، مشکل کشائی سمیت ہر کام جس میں مخلوق بے بس ہے وہ اللہ سوہنے کے كُن کا محتاج ہے.. اب ہم نے مختار کل اللہ کو تسلیم تو کرلیا لیکن ہم نے بھی اپنے اپنے سہارے پکڑ لیے، اللہ کے ہر چیز پر قادر ہونے کی چِپ ہمارے دماغ میں بلٹن ہے پھر بھی مشکل کے وقت ہم بجائے مسجد کے بجائے کہیں اور دوڑ لگاتے ہیں...
منت دونوں قوموں میں ایک بڑی ہی مشترک چیز ہے، ہندومت میں منت کا پرسیپشن تو جو ہے سو ہے لیکن منت کے پورا ہوجانے کے بعد کی اوچھی حرکتیں بھی قابل ذکر ہیں، کوئی ننگے پاؤں دور دراز کا سفر طے کرکے مندر جاتا ہے، کوئی الٹے پیر سیڑھیاں چڑھتا ہے، اور بھولے کا پرساد دیتا ہے ،عین اسی طرح مسلمان جن کی منتیں تو اصولا اللہ سے جڑی ہونی چاہییں، ان کی منتوں کے بھی عجب تیور ہیں، منت بر آئے تو فلاں کی کھیر، فلاں کے چھلے، کہیں جھاڑو دینا کہیں ماتھا ٹیکنا اور جانے کیا کیا۔
ہندو مت میں جادو ٹونا ستاروں کا چلن ہاتھ کی ریکھاؤں کے نشیب و فراز کو خاص حیثیت حاصل ہے.
رشتۂ ازدوج سے قبل بالخصوص اور عمومی معاملات میں بالعموم مہورت نکلوایا جاتا ہے کہ کون سی گھڑی شُبھ رہے گی اور کون سی اشبھ تاکہ منحوس گھڑی سے فرار حاصل کیا جا سکے...
جبکہ اسلام ہر ایسے علم کی نفی کرتا ہے جسے مستقبل جاننے کے لیے بروئے کار لایا جائے، واضح احادیث اور آیات قرآنی موجود ہیں لیکن اس کے باوجود ہم بھی ماتھے اور ہاتھ کی لکیروں کو دکھا کر اپنا مستقبل جاننے کے بہت مشتاق رہتے ہیں، کبھی علم ابجد سے تو کبھی کسی اور علم سے، اب تو اخبارات اور مارننگ شوز میں باقاعدہ ستاروں کی چال چلن کا الگ سے کھاتہ مختص ہوتا ہے...
جبکہ مارننگ شوز والے پالمسٹ کو بلوا رکھتے ہیں جو ہندوؤں کی طرح مسلمانوں کی کنڈلیاں کھول کھول کر سناتے ہیں اور مسلمان بڑے انہماک سے نہ صرف سنتے ہیں بلکہ یقین بھی رکھتے ہیں...
اسی طرح نیا گھر یا نئی دکان لینے کے بعد ہندومت میں پوجا پاٹ کا رواج ہے، ہم مسلمانوں نے بھی اس کی تقلید میں ایک عمل ایجاد کیا جو اب ہمارے ہاں اتنا مقبول ہے کہ کوئی اس کے خلاف بولے تو کفر کا فتوی لازم ٹھہرتا ہے.
ویسے ہم مسلمانوں کےلیے ہندوؤں سے اتنی ہی مماثلت بہت ہے، ورنہ ابھی بھی کریدا جائے تو ہم میں تم میں قرار کی مزید صورتیں نکل آئیں گی، اور میری اپنی مسلمانی بھی مشکوک ہوجائے گی، اس لیے اسی پر اکتفا کرتے ہیں.
باقی بحمد اللہ ہم مسلمان ہیں. کیا ہوا جو ہمارے کچھ اعمال ہندوؤں سے مماثلت رکھتے ہیں، ایسے بھلا قیامت تھوڑی آ جانی ہے.
تبصرہ لکھیے