ہوم << سی پیک اور ہماری درفنطنیاں - ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

سی پیک اور ہماری درفنطنیاں - ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

عاصم اللہ بخش ہمارے ایک دوست ہیں، شہباز. درآمدات (امپورٹ) کے کاروبار سے وابستہ ہیں. خاصے کامیاب کاروباری اور خوشحال افراد میں ان کا شمار ہوتا ہے.
ایک بار دوستوں کی بیٹھک میں گپ شپ کے دوران فرمانے لگے کہ امپورٹ میں مسابقت کا رجحان بہت زیادہ ہے اور کچھ نا کچھ ”ہاتھ“ دکھانا پڑتا ہے تاکہ درآمدی لاگت کم سے کم رہے. اس کی ایک صورت انڈر انوائسنگ یا مصنوعات کی کیٹیگری میں ہیر پھیر بھی ہے. بالعموم کامیابی سے سارا کام ہو جاتا ہے لیکن بعض اوقات کسٹم حکام اعتراض لگا کر کنسائنمنٹ روک بھی لیتے ہیں. پھر کیا ہوتا ہے؟ ایک اور دوست نے پوچھا. ”ہونا کیا ہے“ .. کہنے لگے، ”پیسے جیب میں ڈالے اور پہنچ گئے متعلقہ افسر کے پاس“. بس ایسے ہی؟ میں نے کہا، آپ کو یہ خطرہ نہیں ہوتا کہ اگر وہ افسر بگڑ گیا تو ؟؟ فرمایا، ہاں یہ امکان تو بہرحال موجود رہتا ہے. لیکن اپنے 30 سالہ کیرئیر میں میرا تجربہ تو یہ ہے کہ ہمیشہ کام ہوا، بگاڑ نہیں.
اس واقعہ کا مقصد کسٹم افسران پر کسی قسم کی رائے زنی ہرگز نہیں. اس کا خیال کسی اور تناظر میں آیا. توجہ بس یہ دلانا ہے کہ ”کرنا“ ڈرنے سے کہیں بہتر ہے.
جس تناظر کا ذکر اوپر ہوا اس کا تعلق اس قومی رویہ سے ہے جو مختلف معاملات میں ہم اپناتے ہیں. الیکشن کا انعقاد ہو، بھارت سے تعلقات یا میگا پراجیکٹس کا میدان. تشکیک، تشویش اور خدشات ہمیں گھیرے رہتے ہیں. اس سب کے باوجود اگر وہ کام مکمل ہو جائے تو ہمیں یہ سب ”خطرات“ یاد بھی نہیں رہتے البتہ ہم اگلے کسی مسئلہ کو اسی طرح سوہان روح بنا کر اس کی بال کی کھال کرنے میں جت جاتے ہیں.
90ء کی دہائی میں دو پراجیکٹس سامنے آئے، موٹروے اور کالا باغ ڈیم. موٹروے پر قریباً پوری ایک دہائی یا تو ہم اس کی افادیت و ضرورت پر بحث کرتے رہے یا اس بات پر کہ اسے 4 لین ہونا چاہیے کہ 6. لیکن جب وہ مکمل ہو گئی تو سب باتیں پس منظر میں چلی گئیں اور اس منصوبہ کے حامی و مخالف یکساں اس سے فائدہ اٹھانے لگے.
دوسری جانب کالا باغ ڈیم کا منصوبہ اتنا خوش قسمت ثابت نہ ہوا. کہیں ملکی سلامتی کا مسئلہ بنا کر پیش کیا گیا اور کہیں فیڈریشن ٹوٹ جانے کا امکان. پھر ولی خان صاحب نے تو راست اقدام کا اعلان فرما دیا اور اس ڈیم کو بم سے اڑا دینے کا کہا. نتیجہ، سب کام ٹھپ.
یہی کام اِن دنوں سی پیک کے ساتھ جاری ہے. کہیں اس سے احساس محرومی جنم لے رہا ہے تو کہیں اسے چین کی غلامی سے تعبیر کیا جا رہا ہے. کوئی سمجھا رہا ہے کہ اس سے کوئی معاشی فائدہ نہیں تو کوئی سب معاملہ کو ہی ڈھکوسلہ اور سیاسی سٹنٹ بتا رہا ہے.
میری عاجزانہ رائے میں یہ طرز عمل مناسب نہیں.
کسی بھی منصوبہ کو درست وقت پر سرانجام دینے سے پہلوتہی کسی صورت مناسب نہیں خواہ اس کے لیے تاویل بظاہر کتنی ہی ثقہ کیوں نہ لگے. وقت گزر جائے تو قافلے راہ بدل لیتے ہیں، راستے ویران ہو جاتے ہیں، آبادیاں اجڑ جاتی ہیں. آج ہم نے تو کالا باغ ڈیم نہیں بنایا، لیکن اسی دریا پر بھارت اس سے بھی بڑا بند، نمو بازگو، بنا رہا ہے. لیکن اب کیا ہو سکتا ہے، گیا وقت واپس نہیں آ سکتا. چاہیے یہ تھا کہ کالا باغ ڈیم بنایا جاتا اور ایک ایک بم فی کس، جناب ولی خان اور محترم قادر مگسی صاحب کے ہاتھ میں تھما کر کہا جاتا کہ جناب اس منصوبہ کو ایک سال چل لینے دیں، اس کے بعد آپ کا ایک بھی خدشہ درست ثابت ہو تو جہاں دل چاہے بم لگا کر اس منصوبے کو اڑا دیں. ایک بم کم پڑ جائے تو مزید بھی حاضر کر دیے جائیں گے. یقین مانیں، منصوبہ ہی چلتا، بم کبھی نہ پھٹتا.
سی پیک پر بھی کرم فرمائی کی ضرورت محسوس ہونے لگی ہے.
آپ حکومت کی ایک نہ مانیں، نہ ہی چین کی بات پر بھروسہ کریں.. مگر اپنے دشمنوں کا عزم تو دیکھیں، جس تندہی سے وہ یہ منصوبہ ناکام بنانے پر تلے ہیں، وہ کچھ پیغام نہیں دے رہی؟ کم از کم ان کا مان تو رکھیں کہ وہ یہ سب آپ کی محبت میں نہیں کر رہے. صرف اس خدشہ پر کر رہے ہیں کہ اس سے آپ کو فائدہ ہوگا. ان کے خدشہ کے برابر ہی اپنے اندر امید پیدا کر لیجیے کہ اس سے پاکستان کا کچھ بھلا ہوگا تب ہی مہربانوں کو بلوچستان اور گلگت بلوچستان کا غم دبلا کیے دے رہا ہے. بلوچستان کا کچھ بھی تعلق کشمیر کے واقعات سے نہیں. یہ بلوچستان کا محل وقوع اور سی پیک میں اس کی کلیدی حیثیت ہے جو باعث مروڑ ہے.
اس مسئلہ کا حل بھی وہی ہے جو کالا باغ ڈیم کا ہو سکتا تھا. ایک ایک بم ان تمام حضرات کو پکڑا دیں جنہیں اس کے متعلق خدشات ہیں. انہیں یہ بھی بتا دیں کہ بھائی اسے ایک سال چل لینے دیں. اس کی ذمہ داری آپ اٹھائیں. آپ کا ایک بھی خدشہ بھی درست ہوا تو جہاں سے دل کرے اڑا دیجیے گا اسے. آخر خنجراب سےگوادر تک کے پی کے اور بلوچستان سے گزرے بغیر کوئی زمینی راستہ مجھے تو معلوم نہیں جس سے گوادر تک پہنچا جا سکے. سو دل پسند جگہ سے اسے ختم کر دیجیے گا. لیکن فی الحال اسے مکمل ہو لینے دیں. مغربی روٹ پاکستان کی اسٹریٹیجک ضرورت ہے اس کے بغیر یہ نہیں بنے گا. آپ صرف اس روٹ کی حفاظت کا بیڑا اٹھائیے کیونکہ امن و امان صوبائی مسئلہ ہے.
ذمہ دار حلقے ان تمام بموں کو اپنے ریکارڈ سے آؤٹ مت کریں. یہ سب بم واپس آئیں گے. یہ نہیں چلیں گے، منصوبہ چلے گا اور پاکستان آگے بڑھے گا. پورا پاکستان، اور سب پاکستانی. ان شاءاللہ.