ابراہیم خلیل اللہ ؑ ایسی شخصیت ہیں جن کا ہر مذہب و ملت میں خاصا احترام دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہمہ جہت شخصیت کے دو اہم پہلو بہت ہی نمایاں ہیں۔ ایک تو یہ کہ اکیلے اور تن تنہا وقت کے طاقت ور ترین بادشاہ کے سامنے اللہ کریم کی واحدانیت اور الوہیت کو واشگاف انداز سے پیش کیا۔ دوسرا پہلو قربانی کے بے مثال جذبے اور حقیقت سے لبریز ہے۔ اس سلسلے میں ان کی کاوشیں امت محمدیہ ﷺمیں واجب اور سنت کے درجے پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے لئے حصول ثواب و درجات کی حیثیت سے مشعل راہ ہیں۔دنیا بھر کے لوگ اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ ان جیسی لازوال مثال کا ظہور تا قیامت ایک خواب ہے۔
دنیاوی زندگی میں انسان کے لیے اولاد اور مال وزرّ محبوب ترین اثاثہ ہے، اور اولاد میں بالخصوص بیٹوں کا رشتہ ایسا ہے جس کو کسی پیمانے سے ناپا نہیں جا سکتا اور وہ بھی اگر بڑھاپے میں ملے توفرط جذبات کی کوئی حدود و قیود نہیں ہوسکتیں لیکن ابراہیم خلیل اللہؑ نے ثابت کیا کہ اللہ کریم کی محبت میں ہر چیز قربان ہے، چاہے مال ہو، اولاد ہو یا اپنی جان ہی کیوں نہ ہو۔ بڑھاپے میں ملنے والی اولاد کو پہلے حکم ِالٰہی سے ایک ایسے غیر آباد علاقے میں چھوڑ آئے جہاں پر زندگی ہی مفقود تھی۔ اسباب ظاہر کررہے تھے کہ چند دن کے بسیرے کے بعد موت یقینی ہے۔ جاتے ہوئے اماں ہاجرہ ؑ نے فقط یہی پوچھنا مناسب سمجھا کہ کس کے سہارے پر چھوڑ کر جا رہے ہیں جوابا اللہ کا نام سن کر خاموشی سادھتے ہوئے توکل علی اللہ کیا۔ ماں جی کا بھروسہ اس قدر تھا کہ اللہ نے اس علاقے پر اپنی رحمتوں کی برکھا نازل فرما دی. فرزند اسمٰعیل کے پیاس سے بلبلانے پر ایڑیوں والی جگہ سے آب زم زم جاری فرما دیا جس سے غیر آباد علاقے میں زندگی پروان چڑھنے لگی۔ بچے کی پیاس دیکھ ماں نے جو قریب کی پہاڑیوں پر اضطرابی حالت میں چکر لگائے وہ حج بیت اللہ کے اہم رکن ٹھہرے۔ بیٹا اسمٰعیل ؑجب لڑکپن میں داخل ہوتا ہے توابراہیم علیہ السلام ملنے آتے ہیں۔ یقینا بیٹے کو سنِّ شعور میں دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ہوگی مگر اللہ کریم نے فورا امتحان لیا کہ کہیں بیٹے کی محبت ہماری محبت پر غالب تو نہیں آگئی؟ بیٹے کی قربانی مانگ لی۔ اہل دانش کے نزدیک ہو سکتا ہے کہ یہ عجیب حکم الہی ہو مگر سیدنا ابراہیم ؑیہ حکم خداوندی بھی پورا کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔ شیطان کے بے شمار حربوں اور چالوں کے باوجود آپ ؑ قربانی کا فریضہ سرانجام دینے پر عملی طور پر آمادہ ہیں۔ کیا ہی عالم ہوگا جب سیدنا اسمٰعیل ؑ کو سیدناابراہیم ؑ لیٹا کر چھری چلانے کے لیے بیٹھے ہوں گے۔ حُبِّ الٰہی کی یہ ادا اورانتہاء شاید ہی آئندہ فلک دیکھ پائے۔ اللہ کریم کی قدرت غالب آئی اور جذبہ ابراہیم کو قبول فرماتے ہوئے جنت سے دنبہ بھیج دیا۔ سیدنا ابراہیم ؑ جذبہِ قربانی سے اس قدر سر شار تھے کہ اللہ پاک نے قیامت تک آنے والے ہر صاحب استطاعت مومن کے لیے اس قربانی کو فرض قرار دے دیا گیا۔
ابراہیم ؑ واپس دعوتی سرگرمیوں کے لیے روانہ ہوجاتے ہیں۔ عرصہ دراز کے بعد تب تشریف لائے جب نبی اسمٰعیل ؑ جوان تھے اور ان کی شادی اس وادی غیرِ ذی زرعِِ میں آباد ہونے والے قبیلہ بنو جرحم میں ہوچکی ہوتی ہے۔ حکم ِ خداوندی سے دونوں باپ بیٹا بیت اللہ کو اس کی اصل بنیادوں پر تعمیر فرماتے ہیں۔ وقت کے عظیم پیغمبر کئی روز کی مزدوری کرتے ہوئے بیت اللہ کی تعمیر کرنے کے بعد بارگاہِ خداوندی میں دستِ دعا دراز کرتے ہیں کہ اے اللہ !ہم سے یہ خدمت قبول فرما اور اس گھر کو امن کا گہوارہ بنا۔ اور ساتھ ہی دعا فرمائی کہ اس وادی غیرِ ذی زرعِِ میں اپنے گھر کی تعمیر کے بعد یہاں کے باسیوں کے لیے انہی کی نسل سے ایک رسول بھیج جو ان کو تیرے احکامات پڑھ کر سنائے، پھر ان کی روشنی میں تزکیہ نفس کرے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ دعا بھی فرمائی کہ ان کو امن و سلامتی کے ساتھ ساتھ وافر مقدار میں رزق اور پھل عطا فرما۔ اللہ کریم نے ان تمام دعاؤں کو شرف قبولیت دی۔ نبی اسمٰعیل ؑ کی اولاد سے آنحضرتﷺ کو مبعوث فرمایا جو نبیوں کے سردار ہیں اور اس کی امت افضل ترین امت کے مقام پر فائز ہوئی۔ بیت اللہ کو پُرامن و بارونق مقام بنا دیا جن کی فیوض و برکات سے آج ہم لطف اندوز ہو رہے ہیں اور تا قیامت یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔
اللہ تعالی نے سیدنا ابراہیم ؑ کو یہ مشنری زندگی اپنانے پر خلیل اللہ کا لقب عنایت فرمایا۔ اہل دنیا کے لیے تا دمِ آخر امام اور پیشوا بنادیا۔ ان کی دعا کے صلے میں ہمیں امت محمدیہ ﷺمیں جگہ ملی۔ اہل عرب اور تمام دنیا خوشحالی سے فیض یاب ہوئی، ہو رہی ہے اور ہوتی رہے گی۔ دعائے ابراہیمی ؑ کی بدولت اللہ کریم نے سرزمین حجاز کو رزق اور پھلوں کی بہتات سے نوازا۔ قرآن کریم نے ان کی ساری زندگی کا مقصد کچھ یوں بیان فرمایا ہے’’میری نماز، میری قربانی، میرا زندہ رہنا اور میرا مرنا سب اللہ کے لیے ہے‘‘۔ گویا خلیل اللہ کی سیرت طیبہ ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ ہماری زندگی کی ترجیح اول اللہ کریم کی اطاعت و فرمابرداری اور اس کی رضا ورحمت کا حصول ہونا چاہیے۔ زندگی کے تمام پہلوؤں میں یہی اصول لازمی خاصہ ہے۔ اس اصول پر عمل درآمد کے لیے ہر طرح کا رد عمل قبول کر لیں مگر اللہ کی ذات کو ترجیح ثانی نہ بننے دیں۔ ان کی سیرت ہمیں بتاتی ہے کہ کیسے سنِّ شعور میں قدم رکھتے ہوئے باپ کی مخالفت، پھر معاشرے کی مخالفت اور آخر میں دنیاکے طاقت ور ترین بادشاہ کی مخالفت بھی ان کے پائے استقلال میں رخنہ نہ ڈال سکیں۔ دنیا میں چار بڑے حکمران گزرے ہیں جن کی حکومت مشرق سے لے کر مغرب تک پھیلی ہوئی تھی ان میں دو تو مؤمن تھے اور دو کافر۔ نمرود پہلا حکمران تھا جن کی سلطنت بہت بڑی تھی اور اس زعم میں اس نے لوگوں کو سجدے پر مجبور کر دیا تھا۔ دوسر ابخت نصر، مؤمنوں میں حضرت سلیمان ؑ اور حضرت ذوالقرنین ؑ بڑے حکمرا ن ہوئے ہیں۔ ایسے جاہ جلال والے بادشاہ کے سامنے اس کی خدائی کو چیلج کرنا کسی بھی بڑے خطرے سے کم نہ تھا۔ اس کے باوجود کلمہ حق اس انداز میں بلند کیا کہ ذرا بھی ان کے استقلال میں جنبش نہیں دکھائی دیتی۔ ایک مردِحق کا یہ بہت بڑا جہاد ہے کہ حکمت و دنائی کے ساتھ اپنی اور لوگوں کی زندگیوں اور معاشرتی اور سماجی اصولوں کو اللہ وحدہ لا شریک کے احکامات کے تابع بنانے میں صالح کردار ادا کرے۔ اسی میں ہمارے لیے ابدی بقا ہے اور یہی درس ہے تذکرہِ ابراہیم ؑخلیل اللہ کا ہمارے لیے۔ اللہ کریم ہمیں ان کی سیرت طیبہ کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
تبصرہ لکھیے