میڈیکل سائنس کامل طور پر مادی علم ہے۔ یہ جذبات اور احساسات کو بھی کیمیائی مادوں کی ترتیب اور تخریب میں پرکھتی ہے۔ طبی دنیا کے مطابق خوشی کی تعریف مکمل جسمانی اور ذہنی آسودگی ہے۔ جب انسانی جسم مکمل طور پر پر سکون ہو تو جسم میں ایک مادہ ”سیروٹونن“ (serotonin) بنتا ہے جو خوشی کا احساس دلاتا ہے۔
فزیالوجی کی اس دلیل سے انکار ممکن نہیں مگر یہ خوشی کی بہت سے ماخذ کا احاطہ نہیں کرتی۔
غم ظاہری طور پر تکلیف دہ کیفیت کا نام ہے مگر اس کی گہرائی میں سرور اور لذت چھپی ہوئی ہے۔
غم کی تعریف اور حسن بیاں سے غزل جنم لیتی ہے۔ شاعری کسی بھی زباں میں ہو، جتنا مقبول اظہار کرب ہوا ہے، اتنی اور کوئی جنس نہیں۔
میر سے لے کر ساغر صدیقی تک، سب نے کیا لکھا، ہجر، کرب، گریباں چاک، نالہ، آہ و زاری۔
افسانوں میں دیکھیں تو المیہ ،طربیہ سے کہیں اوپر نظر آتا ہے، کبھی آپ کو کسی افسانے میں نارمل لائف اور روٹین کی زندگی نظر نہیں آتی، کیوں کہ غم جیسا مجذوب نظر کوئی نہیں۔ المیہ میں سے لکھاری خوشی نچوڑ کر قاری کو پلاتا ہے۔ طربیہ تو کھلا ہوا پھول ہے، اس کا رس تو تحلیل ہو گیا ہوتا ہے۔
موسیقی میں 90 فیصد کلام یاس اور درد کے بیاں پر منحصر ہے۔ مہدی حسن سے لے کر عطااللہ عیسی خیلوی تک، کسی نے خوشیوں کے شادیانے نہیں گائے، سب غم کی مالا جپتے ہیں، اور خوب جپتے ہیں۔
کوئی بھی تخلیق ہو، جتنا غم مقبول ہوتا ہے خوشی کا اس کے دور دور تک نام نہیں۔ پیشہ ورانہ تصویر ساز سورج کے ڈوبنے کے اداس منظر منظر قید کرتے ہیں اور خوب داد پاتے ہیں۔ کبھی کسی نے طلوع آفتاب کے منظر کی کیوں نہ تصویر کشی کی، اور اگر کی بھی ہے تو پذیرائی نہ ہونے کے برابر کیوں رہی۔
درحقیقت انسانی نفس کا فلسفہ اپنی ہی معکوس سمت میں رواں ہے۔ وہ غم کے جذبات سے خوشی کا احساس کشید کرتا ہے۔ اس عرق کو پی پی کر وہ خود مسرت حاصل کرتا ہے۔جس سے وجود مسرور ہو جاتا ہے، میڈیکل سائنس اس کو بیان کرنے سے قاصر ہے۔
(محمد عمار بیگ آزاد جموں و کشمیر میڈیکل کالج باغ کے طالب علم ہیں)
تبصرہ لکھیے