لوگ کہتے ہیں کہ سائبر کرائم کے بل کی وجہ سے سختی کا دور آیا تو ویب پر لکھنے والے کیا کریں گے۔ میں نے تو سوچ رکھا ہے کہ اپنے پسندیدہ مصنف مولانا روم کی طرح حکایتیں لکھوں گا۔ اس موقع پر ایک حکایت یاد آرہی ہے، اس طرح کی کئی حکایات حکایات کے مختلف مجموعوں میں پائی جاتی ہیں۔ اس لیے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اپنے پڑھنے والوں کو دیگ کا ایک دانہ چکھا دوں.
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بڑا رحمدل بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ اس وقت کسی بادشاہ کے رعایا پرور ہونے یا نہ ہونے سے بادشاہت کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا تھا جیسا آج جمہوریت مختلف اقسام کے خطرات میں گھری ہوتی ہے. ویسے یہ خطرہ کسی زمانے میں اسلام کو درپیش ہوتا تھا اور حبیب جالب کو لکھنا پڑا تھا کہ خطرہ ہے زرداروں کو خطرے میں اسلام نہیں، کیا آج وہ یہ نہ لکھتے کہ خطرہ ہے کرپشن کو خطرے میں جمہوریت نہیں۔
یہ بات تو ویسے ہی آگئی، اصل میں ایک ایسے بادشاہ کی کہانی بیان ہو رہی تھی جو رعایا کے بارے میں بہت متفکر رہتا، جس کے دربار میں ایک زنجیر عدل لٹکی ہوتی، سائل کو دربار میں بلا لیا جاتا اور اس سے پورا انصاف ملتا، پرچہ نویس پورے ملک میں پھیلے ہوئے تھے جو بادشاہ کو متواتر بتلاتے رہتے کہ اس کے انصاف اور حسن انتظام کی وجہ سے عوام کتنی خوش اور مطمن ہے. بادشاہ ہفتے میں دو دن بھیس بدل کر رعایا کا احوال پوچھنے نکل جاتا اور اسے تجربہ ہوتا کہ لوگ اسے کتنا پسند کرتے ہیں اور اس کے انصاف اور حسن انتظام کی کس قدر تعریف کرتے ہیں. بادشاہ کے دربار کے مؤرخ جب بادشاہ کا پہلے بادشاہوں کے ادوار سے موازنہ کرتے تو اس بادشاہ کے کارناموں کا اتنا ڈھیر ہوتا کہ اس کا کسی دوسرے بادشاہ سے موازنہ ہی ممکن نہیں ہوتا۔ بادشاہ ان تمام لوگوں کے سچ بولنے پر خوش ہوتا اور ان کو گاہے بگاہے انعامات سے بھی نوازتا رہتا. اسی طرح راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔
ایک روز بادشاہ نےشکار کا پروگرام بنایا، جیسا کہ ان زمانوں میں ہوتا تھا اور آج تو یہ بھی ممکن نہیں، کہ بادشاہ اپنے پروٹوکول سے الگ ہوگیا اور جنگل میں اکیلا رہ گیا، اس موقع پر اس نے پیاس محسوس کی اور پانی کی تلاش میں ایک جھونپڑی میں پہنچ گیا۔ اس زمانے میں جو لوگ ظلم کے سامنے ہار نہیں مانتے تھے، یا سماج کی ہوس کاریوں میں ضم نہیں ہونا چاہتے تھے، ان کے لیے ایک آپشن ہوتا تھا کہ وہ کہیں جنگل میں جا کر مقیم ہوجائیں جہاں بھٹکے ہوئے مسافروں کی خدمت کریں اور ان کو راستہ بتلائیں۔ چنانچہ بادشاہ اسی طرح کے ایک شخص کا مہمان ہوا، جس نے بادشاہ کی خوب سیوا کی، جب بادشاہ کے پروٹوکول افسران اسے تلاش کرتے ہوئے وہاں پہنچے تو بادشاہ نے اپنے میزبان کو بتلایا کہ اس کا مہمان ایک بادشاہ ہے اور اب اسے اس میزبانی کا صلہ دینا چاہتا ہے۔ میز بان نے بڑی ملائمت سے کہا کہ میں صلے کا طلب گار ہوتا تو جنگل میں ڈیرہ نہ ڈالتا، شہر میں ہی مقیم رہتا۔ بادشاہ نے کہا کہ کوئی تو انعام قبول کرنا ہوگا۔ میزبان نے ایک نظر پروٹوکول افسران پر ڈالی اور بڑے محتاط لہجے میں کہا، بادشاہ سلامت مجھے تو آپ کی عنایت کی اتنی ضرورت نہیں مگر آپ کی ریاست میں ایک نابینا بادشاہ رہتا ہے، اسے آپ کی عنایت اور مدد کی بڑی ضرورت ہے۔ بادشاہ یہ سن کر بہت حیران ہوا۔
بادشاہ جب اپنے محل واپس آیا تو اس نے پورے دربار کو متحرک کیا کہ اس نابینا بادشاہ کا کھوج لگائیں، حالانکہ دانشمند وزیر اور مشیروں نے بادشاہ کو بتلایا کہ وہ ایک بےوقوف شخص تھا، اس کی بےوقوفی کی سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ وہ شہر کو چھوڑ کر جنگل میں مقیم ہوا، اس کی باتوں کو اس قدر اہمیت نہ دیں، اگر ایسا کوئی نابینا بادشاہ واقعتا ہماری ریاستی حدود میں ہوتا تو ہمارے پرچہ نویسوں کی نظر سے نہ بچتا۔ ہمیں اس کی پوری تفصیل معلوم ہوتی نہ کہ جنگل میں ایک گوشہ نشین شخص اس بارے بتلاتا۔ دانش مند وزیر نے کہا کہ یہ جنگل میں گوشہ نشین کوئی بزرگ نہیں ہوتے بلکہ یہ وہ شریر ہوتے ہیں جن کو ان کی شرانگیزیوں کی وجہ سے بستی سے نکال دیا جاتا ہے، وگرنہ کوئی یوں تنہا زندگی کیوں گزارتا ہے، بہرحال ان تمام دلائل کے باوجود بادشاہ پوری طرح مطمن نہ ہوا۔ وہ اپنے طور پر کسی نہ کسی ذریعے سے نابینا بادشاہ کی کھوج لگانے کی کوشش کرتا رہا مگر کامیاب نہ ہوا۔
ہفتے میں دو بار بھیس بدل کر شہر گھومنے، لوگوں سے ملنے اور ان سے بےخبری میں بات کرنے کا لطف ہی الگ ہوتا ہے۔ ایک رات کو بادشاہ بھیس بدل کر جانے کے لیے تیار ہوا تو پتہ چلا کہ اس کے دانشمند وزیر کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی ہے، اس کا قابل اعتماد مشیر بھی کسی وجہ سے نہیں آسکا۔ اس لیے آج کا پروگرام کینسل سمجھا جائے۔ اس نے اپنے خفیہ پروٹوکول کو اطلاع دی کہ آج کا پروگرام کینسل ہے۔ مگر رات کے نصف پہر کے گزرنے کے بعد اچانک بادشاہ کی جاگ کھل گئی، کچھ بے خوابی اور کچھ طبیعت کی بے چینی کی وجہ سے بادشاہ نے سوچا کہ آج بھیس تو بدلا ہوا ہے، آج اپنے طور پر شہر کی سیر کرلیتا ہوں، رات کافی بیت چکی تھی، پھر بھی بادشاہ سلامت اپنے محل سے باہر آگئے، بیشتر سپاہی سو رہے تھے یا غنودگی کے عالم میں تھے، وہ بھیس بدلے بادشاہ کو پہچان نہیں پائے جو آج اکیلا ہی محل سے باہر جا رہا تھا۔
محل سے باہر آکر بادشاہ نے چاروں سمت دیکھا، اسے یاد آیا کہ ان تین سمتوں میں ایک سمت ایسی ہے جہاں وہ کبھی نہیں جا سکا۔ بادشاہ نے سوچا آج اسی سمت چلتا ہوں، محل سے کچھ دور ہی گیا تو شہر کا منظر بدل گیا، کچی آبادی، کوڑے کے ڈھیر اور کچے مکانات، بہت سے لوگ باہر سڑک کناروں پر سو رہے تھے، بادشاہ بہت حیران ہوا، اس نے سوچا یا الہی یہ ماجرہ کیا ہے، یہ میرا ہی شہر ہے جہاں دودھ اور شہر کی ندیاں بہتی ہیں، یہ غریب اور نادار لوگ کہاں سے آگئے۔ کچھ دور کے بعد اسے ایک پکا گھر نظر آیا، اس کا دل چاہا کہ اس گھر کے مکینوں سے کوئی بات کرلوں، اس نے دروازہ کھٹکھٹایا، کافی دیر بعد ایک بڑھیا نے دروازہ کھولا اور بولی یہ کون سا پہر ہے دروازہ کھٹکھٹانے کا، بادشاہ نے پانی طلب کیا۔ بڑھیا پانی لے کر آئی اور کہا کہ اس شہر میں تو غریب مسافروں کو پینے کا پانی بھی نہیں ملتا، پانی کے کنوئیں بھی یا تو سرائے والوں کے پاس ہیں یا بادشاہ کے عملے کی نگرانی میں ہیں تو پیسوں کے بغیر کسی کو پانی نہیں لینے دیتے۔ بادشاہ نے کہا یہ تو پانی کی حفاظت کے لیے عملے کو تعینات کیا گیا ہے کہ پینے کا پانی آلودہ نہ ہو، بڑھیا نے کہا بھولے مسافر، آپ کو اس شہر کا کیا پتہ، بادشاہ نے اپنے عملے کو پیسے بنانے کی چھوٹ دی ہے۔ بادشاہ بڑے تعجب سے بولا، اس بادشاہ کے انصاف کی بہت دھوم ہے، اس کی رعایا بہت خوش ہے، بڑھیا نے کہا کون سا انصاف اور کون سی خوشی، ہم محل سے کتنے فاصلے پر ہیں، تم اس آبادی کو دیکھ لو کتنی خوش ہے، اور ہمارے ساتھ انصاف، میرا خاوند دو سال پہلے شہر آتے ہوئے ایک امیر شخص کی تیز رفتار بگھی سے ٹکرا گیا، باوجود پوری کوشش کے آج تک انصاف نہیں ملا کیونکہ اس شخص کی بادشاہ کے دربار تک رسائی ہے اور قاضی اور دانشمند وزیر سے تعلقات ہیں، ہمارے غریب کسانوں اور مزدوروں سے لگان اور دوسرے ٹیکس کے علاوہ نت نئے جرمانے اور ہرجانے لیے جاتے ہیں۔ بادشاہ نے کہا مگر آپ یہ سب باتیں بادشاہ کے نوٹس میں کیوں نہیں لاتے۔ بڑھیا نے کہا کون سا بادشاہ، ہمارا بادشاہ تو نابینا ہے وہ وہی دیکھتا ہے جو اس کے دانشمند وزیر اسے دکھلاتے ہیں اور وہی سنتا ہے جو اس کے درباری اسے بتلاتے ہیں، اسے رعایا کی کیا فکر، بادشاہ نے سنا کہ وہ نابینا بادشاہ تو وہ خود ہے، مگر وہ ہر ہفتے دو دفعہ رات کو بھیس بدل کر رعایا سے گھلنے ملنے کی بات، بڑھیا نے کہا کہ ان راتوں کو سیکورٹی کی وجہ سے عام لوگوں کو شہر کے ان حصوں میں جانے کی اجازت نہیں ہوتی اور بادشاہ ان جگہوں پر جاتا ہے جہاں وزیر اور مشیر لے کر جاتے ہیں اور ان لوگوں سے ملتا ہے جن کو ان وزیروں اور مشیروں نے پہلے سے تیار کیا ہوتا ہے۔ بادشاہ نے کہا یہ مییں نے سنا ہے کہ اس کے پاس پرچہ نویسوں کا پورا انتظام ہے اور اس کے مؤرخ تو اس دور کو انسانوں کی تاریخ کا سب سے اچھا دور قرار دیتے ہیں۔ بڑھیا نے کہا کہ یہ پرچہ نویس تو لوگوں کو ڈرانے اور خوف زدہ کرنے کا کام کرتے ہیں کہ یہ بادشاہ کے جاسوسی کے نظام کا حصہ ہیں۔ وزیر خاص ان پرچوں کی وجہ سے رعایا کی سرکوبی کرتے ہیں، بادشاہ کو تو وہی پوچے دکھلائے جاتے ہیں جن کی وزیر منظوری دیتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ اس رات بادشاہ بڑا غمگین واپس گیا کیونکہ اسے یہ معلوم ہو چکا تھا کہ نابینا بادشاہ اصل میں وہی ہے مگر اس سے زیادہ اہم بات اسے یہ معلوم ہوئی تھی کہ سلطنت میں جو مؤثر انتظام و انصرام کے لیے جو ڈھانچہ بنایا گیا تھا وہ اصل میں مکڑی کا ایک مضبوط جالا تھا جس کو اب وہ توڑ نہیں سکتا تھا۔
تبصرہ لکھیے