سوویت یونین کے خلاف جنگ کے لئے امریکہ اور حکومت پاکستان کی طرف سے پاکستان کو فرنٹ لائن اسٹیٹ اور پھر فاٹا کو بیس کیمپ بنانے کا نقصان یوں تو پورے پاکستان کو ہوا لیکن سب سے زیادہ تباہی کا سامنا فاٹا کو کرنا پڑا ، جس کا پورا سماجی حلیہ بگڑ گیا۔ پھر نائن الیون کے بعد کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے فرنٹ لائن اسٹیٹ بن جانے اور پھر ڈبل گیم کا نقصان بھی پورے پاکستان کو ہوا اور ہورہا ہے لیکن فاٹا اور پختونخوا کے نقصانات اور تباہیوں کا کوئی شمار نہیں۔ فاٹا کے لوگ پہلے عسکریت پسندوں کے ہاتھوں ذلیل ہوئے، مارے گئے اور بے گھر کئے گئے اور پھر ملٹری آپریشنوں کے ذریعے ان کو ان سب کا سامنا کرنا پڑا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون کے ذریعے پاکستان کے خزانے میں پچھلے دس سالوں میں پچاس ار ب ڈالر سے زیادہ رقم پاکستان آئی لیکن ایک ارب ڈالر بھی قبائلیوں پر خرچ نہیں ہوئے۔ جو تھوڑی بہت رقم وہاں گئی بھی ، وہ گورنروں ، پولیٹکل ایجنٹوں اور منتخب ایم این ایز اور سینیٹرز کی جیبوں میں چلی گئی۔ ظلم کی انتہا دیکھ لیجئے کہ پچھلے تین سالوں کے دوران قبائلی علاقوں کے انسانوں پرفی کس اتنی رقم بھی خرچ نہیں ہوئی جتنی کہ باقی پاکستان کے انسانوں پر فی کس خرچ ہوتی رہی ۔
زبانی کلامی دعویٰ نہیں بلکہ سرتاج عزیز صاحب کی سربراہی میں قائم فاٹا ریفارمز کمیشن کی سفارشاتی رپورٹ میں واضح لکھا گیا ہے ۔ اس رپورٹ کے مطابق 15۔2014 کے بجٹ میں جہاں باقی پاکستان کے شہریوں کے لئے فی کس 18995روپے مختص کئے گئے ، وہاں فاٹا کے عوام کے لئے فی کس 7855 روپے فی کس مختص کئے گئے ۔ اسی طرح 14۔2013ء کےبجٹ میں باقی پاکستان کے شہریوں کے لئے فی کس 15606 روپے مختص کئے گئے تو فاٹا کے شہریوں کے لئے فی کس 7492روپے مختص کئے گئے ۔ یہی صورت حال ان سے پچھلے سالوں کی بھی رہی اور مکرر عرض ہے کہ باقی پاکستان میں اگر سو میں بیس روپے کرپشن کی نذر ہوتے ہیں تو فاٹا میں یہ شرح سو میں اسی کی ہے ۔ فاٹا کے ساتھ یہ ظلم ہورہے ہیں لیکن کوئی اس کے خلاف آواز اٹھارہا ہے اور نہ باقی پاکستان یا دنیا اس طرف متوجہ ہورہی ہے ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ فاٹا کی مخصوص آئینی حیثیت اور قومی دھارے سے اس کا باہر ہونا ہے اور اس ظلم کے خاتمے کا نقطہ آغاز یہی ہوگا کہ اسے قومی دھارے میں لاکر وہاں پر بھی اسی طرح کا نظام لاگو کیا جائے جس طرح کہ باقی پاکستان میں ہے لیکن افسوس کہ موجودہ حکومت نے اس میں مجرمانہ تساہل سے کام لیا۔ ہوناتو یہ چاہئے تھا کہ حکومت سنبھالتے ہی پہلی فرصت میں اس عمل کا آغاز کردیا جاتا لیکن چونکہ میاں محمد نوازشریف صاحب اصلاً وزیراعظم اسلامی جمہوریہ وسطی پنجاب ہیں ، اس لئے گورنر کی تقرری سے لے کر آئی ڈی پیز کی بحالی تک اور ترقیاتی عمل سے لے کر فاٹا کو قومی دھارے میں لانے تک، کسی معاملے میں بھی انہوں نے کوئی دلچسپی نہیں لی ۔
سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے بعد قومی قیادت نے فوجی قیادت کے دبائو پر جو نیشنل ایکشن پلان بنایا اس میں فاٹا اصلاحات کی شق بھی شامل تھی لیکن پھر بھی وزیراعظم کی عدم دلچسپی کا یہ عالم رہا کہ اپنے وزراء پر مشتمل کمیٹی کے نوٹیفکیشن میں دس ماہ لگائے اور پھر جب دہشت گردی کے ایک اور سانحہ کی وجہ سے فوج کی طرف سے پھردبائو آیا تو انہوں نے نومبر 2015ء میں سرتاج عزیز صاحب کی سربراہی میں سیاسی اور انتظامی اصلاحات کے لئے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ۔ واضح رہے کہ نیشنل ایکشن پلان کا اعلان 25دسمبر 2014کو ہوا تھا لیکن وزیراعظم نے کمیٹی کا نوٹیفکیشن دس ماہ بعد یعنی8نومبر2015ء کو جاری کیا۔ فاٹا اور پختونخوا کی نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے ہم جیسے طالبعلموں کو اس پر اعتراض رہا لیکن اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ مارچ 2016 میں تیار کرلی اور حقیقت یہ ہے کہ مجموعی طور پر اچھی اور قابل عمل رپورٹ ہے تاہم پھر اس رپورٹ کو سامنے نہیں لایا جارہا تھا اور اس کے لئے ہمیں ایک اور بڑے سانحے کا انتظار کرنا پڑا ۔ سانحہ کوئٹہ کے بعد یہ رپورٹ پارلیمنٹ میں بحث کے لئے پیش کی گئی جس پر ان دنوں بحث ہورہی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ اب وہاں پر کوئی اور نہیں بلکہ وزیراعظم صاحب کے دو سیاسی پراکسیز یعنی محمود خان اچکزئی صاحب اور مولانا فضل الرحمان صاحب اس کے خلاف میدان میں آگئے ہیں اور وہ اس کمیٹی کی اہم ترین سفارش یعنی فاٹا کے خیبر پختونخوا میں ادغام کی مخالفت کررہے ہیں ۔ گویا اپنی حکومت کی ، اپنے ہی وزیراعظم کی بنائی گئی کمیٹی کی ، تیار کردہ سفارشات کی مخالفت کرکے وہ اس رپورٹ کو متنازع بنارہے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلے گا اس تنازع کی آڑ لے کرحکومت کا عرصہ پورا ہوجائے گا اور فاٹا کے لوگ اسی طرح ذلیل ہوتے رہیں گے جب کہ یہ علاقے باقی پاکستان کے لئے وبال جان بنے رہیں گے ۔
میں پہلے بھی ’’جرگہ‘‘ میں کئی مرتبہ تفصیل سے لکھ چکا ہوں اور ہر فورم پر اس کا دفاع کرنے کو تیار ہوں کہ فاٹا کے ادغام کو روکنے کے لئے روایات، خصوصی اسٹیٹس اور دیگر اسی طرح کی چیزوں کی آڑ لے کر جو دلائل پیش کئے جارہے ہیں ، وہ بہانہ سازی کے سوا کچھ نہیں۔ سرتاج عزیز کمیٹی نے فاٹا کے منتخب نمائندوں اور عوام سے میاں نوازشریف کے مقر ر کردہ گورنر کی موجودگی میں مشاورت کی ہے اور وہ کمیٹی اس نتیجے تک پہنچی ہے کہ اکثریت صوبے کے ساتھ ادغام چاہتی ہے ۔ خود فاٹا کے پارلیمنٹرین نے 2015ء میں جو بل ایوان میں داخل کرایا ہے ، اس میں ادغام کا آپشن سرفہرست ہے ۔ میں خود اس مہمند قبیلے سے تعلق رکھتا ہوں جو پاکستان اور افغانستان میں منقسم ہے اور جس کو ایزمنٹ رائٹس(Easement rights) حاصل ہیں ۔ اب جب وہاں کے لوگوں کے منتخب نمائندے یا پھر ہم جیسے عوام کی اکثریت ادغام کے حق میں ہے تو پھر کسی اور کو کیا اعتراض ہے ۔ ملک کی تین بڑی جماعتیں یعنی مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف بھی حامی ہیں اور جہاں تک ریفرنڈم کا تعلق ہے تو کیا ریفرنڈم کروا کر فاٹا کے لوگوں کی رائے پوچھی گئی تھی جب وہاں پر طالبان اور مجاہدین کے ٹھکانے بنائے گئے اور کیاکسی ملٹری آپریشن سے پہلے قبائلی عوام کی رائے لی گئی تھی۔ جو سیاسی لیڈر آج مذموم مقاصد کے لئے فاٹا کے پختونخوا میں ادغام کی مخالفت کررہے ہیں وہ اس وقت کہاں تھے؟ ۔ انہوںنے قبائلی عوام کو ساتھ لے کر اور قبائلی روایات کو بروئے کار لا کر طالبانائزیشن یا ملٹری آپریشنوں کا راستہ کیوں نہیں روکا ؟۔ یا چلیں آج ہمت کرکے ، قبائلی عوام کو بجٹ میں سے تو ان کا جائز حصہ دلوادیں ۔
طالبان ملاکنڈ ڈویژن میں بھی آئے اور ملٹری آپریشن وہاں پر بھی ہوا لیکن چونکہ ملاکنڈ ڈویژن قومی دھارے اور صوبے کا حصہ تھا، اس لئے دو سال کے اندر اندر وہاں معاملہ ختم ہوگیا ، طالبان نکالے گئے اور لوگ اپنے گھروں کو واپس چلے گئے ۔ وجہ یہ تھی کہ پارلیمنٹ میں ملاکنڈ کی بات ہورہی تھی، میڈیا شور مچارہا تھا اور کچھ نہ کچھ عدالت بھی حرکت کررہی تھی لیکن چونکہ فاٹا میں یہ تینوں چیزیں نہیں ہیں ، اس لئے پندرہ سال گزرنے کے بعد بھی وہاں زندگی معمول پر نہ آسکی ۔فاٹا کی نئی نسل چاہتی ہے کہ وہ باقی پاکستانیوں کی طرح پاکستانی بنیں ۔ انہیں عزت نفس چاہئے، تعلیم چاہئے ، روزگار چاہئے اور سیاسی و آئینی حقوق چاہئیں جو موجودہ اسٹرکچر میں کبھی ان کو نہیں مل سکتے اور اس کا واحد راستہ پختونخوا اور باقی ملک کے ساتھ ادغام ہے ۔ اس لئے فضول بحث میں وقت ضائع کرنے کی بجائے ہر سیاسی و سماجی لیڈر کا فرض بنتا ہے کہ وہ حکومت پر دبائو ڈالے کہ وہ ان سفارشات پر جلداز جلد عمل درآمد کروائے ۔ اس میں جو کمی بیشی ہے ، وہ دور کی جائے ۔ عمل درآمد والی کمیٹی میں خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ کو بھی شامل کیا جائے تاکہ ادغام کے عمل میں ضروری کوآرڈنیشن ہوسکے۔ موجودہ گورنرکے پی کے دور میں کرپشن بہت بڑھ گئی ہے اور بیماری و بڑھاپے کی وجہ سے ان کی نگرانی میں فاٹا کے ادغام کا مشکل کام کبھی نہیں ہوسکتا ۔
اس کے لئے دبائو ڈالنا چاہئے کہ وزیراعظم میرٹ پر اہل گورنر کا تقرر کریں۔ عبوری دور کے لئے کمیٹی نے ڈویزیبل پول میں تین فی صد حصہ مقرر کرنے کی سفارش کی ہے جو میرے نزدیک کم ہے لیکن اطلاعات کے مطابق اسحاق ڈار صاحب صرف ایک فی صد دینے پر آمادہ ہیں ۔ مولانا صاحب اور اچکزئی صاحب روڑے اٹکانے کی بجائے اپنے وزیراعظم نوازشریف پر دبائو ڈالیں کہ وہ عبوری دور کے لئے ڈویزیبل پول میں فاٹا کا حصہ کم ازکم پانچ فی صد رکھیں۔ اسی طرح آئندہ انتخابات میں فاٹا میں صوبائی اسمبلی کے بھی انتخابات کرائے جائیں تاکہ کے پی اسمبلی میں فاٹا کو نمائندگی مل جائے ۔ فاٹا کے نمائندے صوبائی اسمبلی میں موجود رہیں گے تو صوبے کے ساتھ اس کے ادغام کے عمل میں معاونت بھی کریں گے اور اپنے حقوق کو بھی یقینی بناسکتے ہیں ۔ میاں نوازشریف کی حکومت میں یہ کام ہوا تو فاٹا کی آئندہ نسلوں کے محسن تصور ہوں گے لیکن اگر یہ موقع بھی ضائع کردیا تو ان نسلوں کے سب سے بڑے مجرم تصور ہوں گے۔ مرضی ان کی ہے کہ وہ اپنے لئے محسن کے ٹائٹل کا انتخاب کرتے ہیں یا مجرم کے ٹائٹل کا ۔میاں صاحب یاد رکھیں کہ فاٹا کے لوگ اسوقت دربدر ضرور ہیں لیکن احسان بھولتے ہیں اور نہ اپنے مجرموں کو معاف کرتے ہیں ۔
تبصرہ لکھیے