جب ایان علی کا ”رنگے ہاتھوں“ پکڑے جانے والا واقعہ سامنے آیا، تو مجھے علم ہوا، کہ ایان علی کوئی ماڈل ہے۔ ہمارا معاشرہ ایسا ہے کہ ہمیں گریبان میں جھانکنے کا بہت شوق ہے؛ خاص طور پہ جب یہ گریبان کسی عورت کا ہو۔ سوشل میڈیا پہ تو جو غلاظت پھیلائی گئی، سو پھیلائی گئی، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے بھی خُوب مسالا چھڑکا۔ میں کوئی پارسا نہیں کہ کہوں میں کچھ بُرا نہیں دیکھتا، بُرا نہیں کہتا، بُرا نہیں سُنتا۔ آپ مجھے نارسا کہ لیں۔ بے خبر سمجھیے۔ مجھے پروپگنڈا سُننے، دیکھنے سے بالکل دل چسپی نہیں رہی۔
ہمارے یہاں مخالفین یا سیاست دانوں کو بدنام کرنے کی جو مہم چلائی جاتی ہے، ایان علی جیسے اسکینڈل اس کی مثال ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا، کہ سیاست دان خامیوں سے پاک ہیں، لیکن سیاست دان نہیں، تو کون ہے، جس کے ہاتھ صاف ہیں؟ (افواہوں کے مطابق سیاست دان کا مال لے جاتے) رنگے ہاتھوں پکڑی جانے والی کا چالان عدالت میں پیش کرتے چار پانچ یا شاید چھہ مہینے لگا دیے گئے۔ مقصد کیچڑ اچھالنا تھا، اچھالا گیا۔ کیچڑ اچھالنے کا وقفہ بڑھایا گیا۔ (افواہوں کے مطابق ”سیاست دان“ سے بارگینگ کے لیے پریشر بڑھایا گیا) ایسے میں جتنے منہ اتنی باتیں۔ ایک کی چار چار لگائی گئیں۔
شوبز سے وابستہ خاتون تو ویسے بھی پبلک پراپرٹی ہوتی ہے۔ تماش بینوں کی نظر میں وہ کسی فاحشہ سے کم نہیں ہوتی۔ شوبز سے جڑے ہونے کی وجہ سے میں اتنا کہتا ہوں کہ اس میدان میں کام کرنے والے ویسے ہی ہیں، جیسے کسی اسکول، مدرسے، اسپتال، عدالت، پولِس، فوج، کھیل، اور دوسرے اداروں میں کام کرنے والے؛ کام کرنے والیاں۔ بہتان تراشنے والے تو اسکول کالج میں پڑھنے پڑھانے والیوں، اسپتال میں کام کرنے والیوں سے لے کر، ہر اس عورت مرد پہ انگلی اٹھاتے ہیں، جو اپنے گھر کا نہ ہو۔ ایان علی کو چھوڑیے، سوشل میڈیا پہ دیکھ لیجیے، غیر لڑکیوں کی تصویروں کو فوٹو شاپ سے کیسے کیسے ”سنوارا“ جاتا ہے۔ کیا دین دار، اور کیا بے دین؛ کسی کی تخصیص نہیں۔
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پہ الیاس گھمن نامی کسی شخص پر الزام لگایا گیا۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا، میں پارسا نہیں، نارسا ہوں؛ بے خبر کہ لیجیے، تو الیاس گھمن کون ہے، نہیں جانتا۔ میں نے کسی ایسی پوسٹ کو نہیں پڑھا، لیکن ”نیوز فیڈ“ میں آدھا ادھورا، ایک سطر، دو سطر پہ نظر پڑتی رہی۔ اندازہ ہوا کہ یہ صاحب دین کے معلم مشہور ہیں، اور ان سے ایک دُنیا واقف ہے۔ کچھ دین دار دوستوں کے بیان نظر سے گزرے، جن کا خلاصہ یوں ہے، کہ کسی پر بنا ثبوت الزام نہیں لگانا چاہیے، کیوں کہ دین کا معاملہ ہے۔ اچھی بات ہے، کسی پہ ایسا الزام نہیں لگانا چاہیے، جس کے آپ گواہ نہیں، یا ثبوت نہ ہو؛ کیوں کہ قانون، اخلاق، اور دین اس کی اجازت نہیں دیتے۔ بہتان مت تراشیں، نشانہ الیاس گھمن نامی دین کا رکھوالا ہو، یا ایان علی ماڈل/اداکارہ۔
دین کے معلمین نے ایان علی پہ لگاے جانے والے بہتانوں کی کبھی مذمت نہیں کی۔ دین کے اساتذہ نے سیاست دانوں پر لگاے گئے بہتانوں کی کبھی مذمت نہیں کی۔ کچھ نے ایسا کیا ہوگا، لیکن اکثریت کی بات ہو رہی ہے۔ کاش دین کے معلم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے ہوتے، اور ایک دوسرے کا مقام طے کرنے کے بجائے اخلاق سنوارنے پہ توجہ دیتے۔ اس پہ زور ہوتا کہ اے دین دارو! مسٹر ٹین پرسینٹ کہتے ہو، تو ثبوت مہیا کرنا ہوگا، ورنہ یہ بہتان ہے، اور بہتان کا گناہ یہ، سزا یہ مقرر ہے۔ کسی مریم کو گھر سے بھاگتے نہیں دیکھا، کسی سیتا وائٹ کی بچی کے تم گواہ نہیں ہو، ثبوت نہیں ہے، تو خاموش رہو۔ جن کے پاس ثبوت ہے، انھیں بولنے دو۔ لیکن ایسا کب ہوا؛ نہیں ہوا۔ ہوتا تو دین دلوں میں اترتا، فرقہ پرستی کی میل نہ جمتی؛ لیکن معلمین اخلاق کا وہ نمونہ نہ پیش کر سکے؛ ایسا بھی ہو سکتا ہے، اس میں میری بے خبری کا، نارسائی کا عمل دخل ہو۔
صاحب! دین کے معلمین کو بہتان کی تشریح کرنا اب یاد آیا ہے، جب انگلی ان کی طرف اٹھی ہے؟۔ ایان علی، بے نظیر، آصف علی زرداری، مریم نواز، سیتا وائٹ عمران خان، شیخ رشید کے اسیکنڈل اور ڈھیروں نام، ان کی باری ان کا ایمان نہیں جاگا، تو کوئی بات نہیں۔ لیکن اے معصوم دین دارو، یہ بات سچ ہے، کہ کسی پہ بہتان لگانے سے پہلے ہزار بار سوچنا چاہیے، اگر آپ پر، آپ ہی کے متعلق، یا آپ کی عزیز ترین ہستی کے بارے میں بہتان کی ایسی ہی گٹھڑی رکھ دی جاے، تو آپ یہ بوجھ اٹھا کر کتنی دور تک جا سکیں گے؟۔ کیا آپ دین کی تعلیمات سے دور رہ کر دین دار کہلانا پسند کریں گے؟
(ظفر عمران تمثیل نگار، ہدایت کار، پروڈیوسر ہیں.)
تبصرہ لکھیے