ہوم << باچاخان کی نواسی کی مودی سے مدد کی اپیل - نور الہدیٰ شاہین

باچاخان کی نواسی کی مودی سے مدد کی اپیل - نور الہدیٰ شاہین

%d9%86%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d9%84%db%81%d8%af%db%8c-%d8%b4%d8%a7%db%81%db%8c%d9%86 عوامی نیشنل پارٹی کے بانی اور عدم تشدد کے علمبردار خان عبدالغفار خان المعروف باچاخان کی نواسی یاسمین نگار نے پاکستان سے علیحدگی اور پختونستان کے قیام کے لیے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے مدد کی اپیل کی ہے۔ بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز سے بات کرتے ہوئے یاسمین نگار نے کہا ہے کہ بھارت کی جانب سے بلوچ علیحدگی پسندوں کی مدد خوش آئند ہے۔ اب وقت آیا ہے کہ ہندوستان پختونوں کے لیے الگ وطن ’’پختونستان‘‘ کے قیام میں ہماری مدد کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس سلسلے نریندر مودی سے ملاقات کرکے ان سے باقاعدہ درخواست کریں گے کہ ہمیں پاکستان سے آزادی دلائی جائے اور ہمارے لیے عالمی سطح پر آواز اٹھائی جائے۔ یاسمین نگار آج کل بھارتی شہر کلکتہ میں مقیم اور ایک خود ساختہ ’’ پختوادبی ٹولنہ‘‘ یعنی پشتو ادبی انجمن کی سربراہ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بہت جلد پشتونوں پر پاکستانی مظالم کے خلاف کلکتہ میں احتجاجی مظاہرے کرکے بھارت سمیت عالمی برادری کی توجہ اس جانب مبذول کرائیں گے۔
یاسمین نگار خان کے ہندوستان ٹائمر کو دیے گئے انٹرویو کا لنک
پاکستان کے مقتدر حلقوں نے یاسمین نگار کے بھارتی اخبار کو دیے گئے انٹرویو پر تاحال کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔

کلکتہ میں مقیم یاسمین نگار خان
کلکتہ میں مقیم یاسمین نگار خان
قوم پرستوں اور خود باچا خان کے گھرانے سے یہ پہلی آواز نہیں ہے. بلوچستان، سندھ اور خیبرپختونخوا کی قوم پرست ماضی میں بھی علیحدگی مسلح تحریکیں چلا چکے ہیں۔ عدم تشدد کے علمبردار خان عبدالغفار خان کو سرحدی گاندھی بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی زندگی میں ہی ان کے فرزند خان عبدالولی خان اوراجمل خٹک نے پختونستان کے قیام کے لیے پاکستان کے خلاف مسلح جدو جہد کی۔ جس کو باچاخان کی خاموش حمایت حاصل رہی۔
عبدالولی خان نے اس مقصد کے لیے افغانستان کے صدر سردار دائود سے مدد کی درخواست کی۔ یہ بھٹو کا دور تھا۔ سردار دائود نے ابتدا میں پس و پیش کے بعد قوم پرستوں کی مدد پر رضا مندی ظاہر کی۔ اس کے بعد ابتدائی طور پر پختونخوا کے قوم پرستوں کو خفیہ طور پر عسکری ٹریننگ کے لیے افغانستان اور روس بھیجا گیا جن میں زیادہ تر پختون اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے نوجوان شامل تھے۔ ان تربیت یافتہ نوجوانوں کے لیے الگ تنظیم تشکیل دے کر اس کانام پشتون زلمے رکھا گیا۔ ان میں سے متعدد آج کل عوامی نیشنل پارٹی میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔
سردار دائود کی نگرانی میں افغانستان کے مختلف علاقوں میں عسکری تربیتی مراکز قائم کیے گئے اور پختون نوجوانوں کو تربیت دے کر واپس پاکستان بھیجا جاتا رہا۔ ان تربیت یافتہ نوجوانوں نے ملک کے طول عرض میں عوامی مقامات اور سرکاری املاک کو بموں سے اڑانا شروع کردیا۔ وزیراعلی سرحد حیات شیرپائو کو بھی قتل کیا گیا. بعد ازاں بلوچستان، سندھ اور بھٹو کی پھانسی کے بعد ان کے بیٹوں شاہنواز بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو نے بھی اپنے جوانوں کو افغانستان میں تربیت دلاکر پاکستان میں تخریب کاری کرائی۔ بھٹو کے بیٹوں نے الذوالفقار کے نام سے دہشت گرد تنظیم بنائی تھی۔ اسی تنظیم کے دہشت گردوں نے پی آئی اے کا جہاز ہائی جیک کرکے افغانستان میں اتارا اور طیارے میں سوار میجر طارق رحیم کو قتل کردیا۔
افغانستان میں عسکری کیمپ کے مرکزی انچارج اجمل خٹک رہے جو پشتو کے شاعر بھی تھے۔ جمعہ خان صوفی ان کے ساتھ اسسٹنٹ کے طور پر کام کرتے رہے۔ اس دوران افغانستان میں بغاوت ہوئی اور سردار دائود مارا گیا تاہم قوم پرست بدستور افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں تخریبی کارروائیاں کراتے رہے۔
اس جدوجہد لاحاصل میں ناکامی کے بعد جمعہ خان صوفی نے گزشتہ سال ’’فریب ناتمام‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں اس مہم جوئی کی تمام تر تفصیلات موجود ہیں۔

Comments

Click here to post a comment