اتوار کے دن اخبارات اور سنڈے میگزین پڑھ کر فارغ ہوا ہی تھا کہ موبائل فون کی گھنٹی بجی۔ نمبر اجنبی، آواز بھی ناآشناتھی، کوئی صاحب خانیوال سے بول رہے تھے۔ ایک دردناک داستان انہوں نے سنائی۔ وہ خود ہیپاٹائٹس سی کے مریض تھے اور ان کے بھائی کو ایک پیچیدہ بیماری لاحق تھی۔ نام تو مجھے سمجھ نہیں آیا، مگر یہ اندازہ ہوگیا کہ مہلک بیماری تھی۔ انہوں نے اپنے مسائل کا ذکر کیا اور یہ کہ سرکاری سطح پر مدد کا کوئی انتظام نہیں ہو رہا، بیت المال سے مدد مل جائے یا کوئی مخیر شخص انجیکشن کا خرچہ اٹھا سکے۔ ان کی داستان الم سنی، تسلی دی اور وعدہ کیا کہ کچھ ہوسکا تو کروں گا، مگر ساتھ ہی صاف گوئی سے انہیں بتا بھی دیا کہ مجھے روزانہ اسی طرح کے فون، ای میلز اور میسجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قارئین سمجھتے ہیں کہ شاید صحافی بہت بااختیار اور بااثر ہوتے ہیں۔ یہ بات ظاہر ہے درست نہیں، ہر ایک کی محدودات ہوتی ہیں اور میرے جیسے گھلنے ملنے سے گریز کرنے والے صحافی کے تعلقات نسبتاً زیادہ محدود۔ ان صاحب سے غلط نہیں کہا تھا، تقریباً ہر روز کسی نہ کسی مصیبت زدہ کا فون آ جاتا ہے، کوئی دوست کسی ستم گزیدہ کی خبر سناتا ہے یا پھر فیس بک پر لوگ رابطہ کرتے ہیں۔
عام آدمی کے لئے سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ اسے یہ علم نہیں ہوپاتا کہ کس ادارے سے اسے کس طرح مدد ملے گی۔ وہ بے چارہ اپنی تکلیف اور پریشانی سے نجات کے لئے ہر دروازے پر دستک دیتا اور جہاں سے امید کی کرن دکھائی دے، اس طرف لپک جاتا ہے۔ افسوس کہ انہیں ہر جگہ ناکامی اور نامرادی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چند دن پہلے بڑے بھائی صاحب نے ایک دوست کا کیس بتایا۔ ان صاحب کو میں بھی اچھی طرح جانتا ہوں، نجیب سید زادے، جو کسی کے آگے ہاتھ بھی نہ پھیلا پائیں، ان کی اہلیہ محترمہ کینسر کی بیماری میں مبتلا ہوگئیں۔ بہاولپور میں کینسر کے حوالے سے ایک سرکاری ہسپتال سے علاج کرا رہے ہیں، ظاہر ہے اخراجات خاصے زیادہ ہیں، انہوں نے ہسپتال سے منظوری کرا کر بیت المال سے مدد حاصل کرنے کے لیے ایک فارم بھجوایا ہے۔ پیپلزپارٹی کے دور میں ضیا کھوکھر صاحب وزیراعظم ہائوس میں ایڈوائزر تھے، وہ ایسے کیسز بیت المال کے اس وقت کے سربراہ زمرد خان سے منظور کرا دیتے تھے۔ محترم ڈاکٹر امجد ثاقب سے میں نے رابطہ کیا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب سماجی خدمت اور ایثار و قربانی کا پیکر ہیں۔ میں نے کبھی انہیں کسی کی مدد کرنے سے انکاری نہیں پایا۔ مسئلہ ان کا بھی یہ ہے کہ ان کی قابل رشک سماجی تنظیم اخوت کا اپنا ایک خاص دائرہ کار ہے اور وہ اسی کی حد میں رہ کر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے صرف یہ کہا کہ بیت المال وفاقی محکمہ ہے اور اخوت کا تعاون پنجاب حکومت سے ہے، تاہم کسی کو کہنا کہلانا پڑے تو میں حاضر ہوں۔ کچھ اپنی مصروفیت اور کچھ ڈاکٹر امجد ثاقب کی غیر معمولی مصروفیت کے ڈر سے معاملہ دوبارہ ان تک لے نہیں گیا۔ اگرچہ اندازہ ہے کہ وہ نجیب سید خاندان کیسے کرب سےگزر رہا ہوگا۔
بات صرف ایک دو یا چند ایک کیسز کی نہیں، معاملہ بہت گمبھیر اور پریشان کن ہے۔ حکومت پر بھی یقیناً دبائو زیادہ ہے، مگر صحت کے شعبے میں خاص طور سے غیر معمولی توجہ اور سرمایہ مختص کرنے کی ضرورت ہے۔ مہلک امراض میں مبتلا افراد کی تعداد کروڑوں تک پہنچ چکی ہے۔ کینسر ہی کے لاکھوں مریض ہیں۔ لاہور میں شوکت خانم ہے، مگر اس کے پاس وسائل کی قلت ہے، کتنے مریض وہ داخل کر سکتے ہیں؟ انمول کے کینسر ریسرچ ہسپتال سے بہت سے مریضوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے، مگر کینسر کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے حساب سے شوکت خانم کی طرح کے کم از کم درجن بھر مزید ہسپتال بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ کام کوئی ایک فرد نہیں کر سکتا۔ حکومت کو ادھر توجہ دینی چاہیے۔
کینسر تو خیر ایک بہت بڑی مصیبت ہے ہی،ہیپا ٹائٹس بی اور سی نے پاکستانی عوام میں خوفناک انداز میں جڑیں پھیلا لی ہیں۔ محتاط اندازے کے مطابق ہر دس میں سے ایک پاکستانی کو ہیپاٹائٹس سی یا بی (عام الفاظ میں کالا یرقان) ہے، یعنی کم سے کم دو کروڑ افراد متاثر ہیں۔ علاج کے لئے انتظامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پچھلے اتوار کو روزنامہ دنیا لاہور کے ایڈیٹر ندیم نثار کے بڑے بھائی کی قرآن خوانی تھی۔ مرحوم ہیپاٹائٹس سی کے مریض تھے، دیر سے تشخیص ہوئی، اگرچہ سینئر ڈاکٹرز سے علاج جاری تھا، مگر پیچیدگیاں بڑھ گئی تھیں، انہیں خون کی الٹی آئی اور پھر ڈیتھ ہوگئی۔ قرآن خوانی کے بعد وہاں بیٹھے تھے۔ دو تین ڈاکٹرز بھی موجود تھے۔ دنیا میگزین کے لئے ہیلتھ کالم لکھنے والے ڈاکٹر جاویداقبال ملک نے بتایا کہ ہیپاٹائٹس سی کے جن مریضوں کا جگر سکڑ جائے، وہ دوبارہ ٹھیک نہیں ہوسکتا۔ ان میں سے اکثر مریضوں کے ساتھ یہ مسئلہ درپیش آتا ہے کہ خوراک کی نالی کا آخری حصہ وائرس کے حملہ سے متاثر ہوجاتا ہے اور پھر خون کی الٹی یا الٹیاں آتی ہیں۔ ایسے مریضوں کو فوری ٹریٹمنٹ کی ضرورت پڑتی ہے، گیسٹرو انٹرالوجسٹ اس مسئلے کو ڈیل کرتا ہے، پہلے اندر ٹیوب ڈال کر خون روکا جاتا ہے اور پھر ایسے مریضوں کو ہنگامی بنیاد پر خون لگانا چاہیے تاکہ خون کی کمی کی وجہ سے دیگر اعضا بیکار نہ ہوجائیں۔ ایک اور ڈاکٹر نے لقمہ دیا، بدقسمتی سے لاہور کے کسی ہسپتال کی ایمرجنسی میں اس کی ٹریٹمنٹ موجود نہیں ہے۔ دوسرے الفاظ میں اگر کسی مریض کے ساتھ یہ مسئلہ درپیش ہو تو اگر وہ خوش نصیب ہے تو دن کے پہلے حصے میں وارڈ میں جا کر اس کی بچت ہوسکتی ہے، شام کو یا رات کو ایسا ہوا تو پھر اس کی موت یقینی ہے۔ اس لئے ہسپتالوں کے ایمرجنسی سینٹرز میں اس طرح کے مریضوں کے علاج کا بندوست ہونا بہت ضروری ہے۔ ہیپا ٹائٹس کے مریضوں کے دو ٹیسٹ بیس پچیس ہزار تک مہنگے ہیں، اس مرض کے علاج کے لئے ادویات اور خاص کر انجیکشن سب سڈی کے بعد دستیاب ہوں۔ ہر ڈویژن میں ایک ہیپاٹائٹس سنٹر ہو، جو مریض ہے، وہ وہاں سے مفت یا سستے داموں انجیکشن لگوا سکے۔
ڈاکٹر جاوید ملک نے بعد میں مجھے اپنی ایک تحریر بھیجی، جس میں حکومت کے لئے نہایت مفید تجاویز تھیں۔ انہوں نے لکھا کہ جس نہج پر ڈینگی کے علاج کے لئے تمام سرکاری وغیر سرکاری لیبارٹریز کو پابند کیا گیا کہ وہ صرف نوے روپے لے کرسی بی سی رپورٹ تیار کر دیں، اسی طرح ہیپاٹائٹس بی اور سی کے علاج کے لئے بھی یہی پابندی لگانی چاہیے۔ ہیپاٹائٹس بہت زیادہ بڑھ چکا ہے، مگر زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ ابھی لاکھوں بلکہ شاید کئی ملین لوگ ایسے ہیں جو ہیپاٹائٹس کا شکار تو ہوچکے ہیں، مگر انہیں اس کا علم نہیں ہے۔ اس طرح وہ نادانستگی میں یہ مہلک بیماری دوسروں کو پھیلا رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اپنا شیونگ کا سامان، ناخن یا ناک کے بال تراشنے کی چھوٹی قینچی بلکہ شیو کے بعد چہرہ صاف کرنے والا تولیہ بھی الگ رکھنا چاہیے۔ میاں بیوی میں سے ایک مریض ہے تو پھر دوسرے کو لگ سکتا ہے۔ اس کا علاج یہی ہے کہ ہیپاٹائٹس بی، سی کا ٹیسٹ سستا کیا جائے اور ہر ایک کوپابند کیا جائے کہ وہ یہ ٹیسٹ کرائیں۔ سکولوں، کالجز، یونیورسٹیز، سرکاری ونیم سرکاری ملازمیں، نجی اداروں غرض ہر شعبے میں اس پابندی کو لازمی قرار دیا جائے۔ جس طرح موبائل سم لینے کے لئے اتنی سخت پابندیاں ہیں کہ اب بائیومیٹرک ٹیسٹ اور شناختی کارڈ کی کاپی کے بغیر سم لینا مشکل ہوچکا، اسی طرح کی پالیسی ہیپاٹائٹس کی سکریننگ کے لئے نافذ کرنا چاہیے۔
ایک اور اہم تجویز یہ تھی کہ بال کٹوانے یا شیو کے لئے نائی یا باربر کے پاس اپنی کٹ لے کر جایا جائے۔ ہیر ڈریسر ایسوی ایشن پر یہ پابندی لگائی جائے اور وقتاً فوقتاً چیک کیا جائے کہ بال کاٹنے والے باربر صاحبان کیا گاہکوں کو اپنی کٹ لے کر آنے کا پابند کر رہے ہیں؟ معلوم ہوا کہ بالوں کی قینچی، ریزر، کنگھی وغیرہ کا سیٹ سستا ہی پڑتا ہے، ہیپاٹائٹس کے مریض لے رکھتے ہیں، کٹنگ کے لئے جاتے وقت اپنا سیٹ ساتھ لے گئے، واپس لیتے آئے۔ ہیپاٹائٹس جیسا سنگین مرض جس قدر پھیل چکا ہے اوراس کے مضمرات کس قدر بھیانک ہوسکتے ہیں، ان کا ہمیں اندازہ ہی نہیں۔ کچھ کام ہمارے مخیر حضرات کے کرنے کے ہیں، مگر بعض کام حکومتوں ہی نے کرنے ہیں۔ ان کے پاس اس کے لئے وسائل ہوتے ہیں اور انتظامی مشینری بھی۔ پنجاب کی صوبائی حکومت کو یہ کریڈٹ بہرحال جاتا ہے کہ اس نے ڈینگی جیسے خطرناک مرض کا بڑی تیزرفتاری سے سدباب کیا اور بڑی حد تک یہ خطرہ ٹل گیا۔ ہیپاٹائٹس کے حوالے سے بھی اسی جذبے اور سپرٹ سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
تبصرہ لکھیے