غلبہ مغرب کی نوعیت و ماہیت کی کوئی تفہیم اس فکری و اعتقادی چیلنج کا ذکر کیے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی جو جدید مغربی فکر نے مذہب اور مذہبی اعتقادات کے حوالے سے کھڑا کر دیا ہے۔ اس چیلنج کو درست طور پر سمجھنے کے لیے جدید مغربی فکر کے ارتقا پر نظر رکھنا ضروری ہے جو قرون وسطیٰ میں ابتداء مسیحی مذہبی فکر سے بےاعتنائی اور بعد ازاں اس کے خلاف بغاوت کے نتیجے میں وجود میں آئی۔ نشاۃ ثانیہ کی تحریک کے زیر اثر مغربی فکر میں کائنات اور انسان کے حوالے سے اہم ترین سوالات کا جواب مذہب سے قطع نظر کرتے ہوئے محض عقل، انسانی فطرت، فلسفیانہ غور وفکر اور تجربہ و مشاہدہ سے حاصل شدہ معلومات کی بنیاد پر تلاش کرنے کا رجحان پیدا ہوا۔ اس رجحان نے ابتدا میں مذہب کی حقیقت اور مذہبی شعور کا فی نفسہ انکار کرنے کے بجائے ”فطری مذہب“ کے فلسفہ کی شکل اختیار کی اور روایتی مذاہب کو مذہبی تجربہ و احساس کا حتمی ماخذ تسلیم کرنے کے بجائے انسان کے فطری احساسات پر انحصار کرنے پر زور دیا۔ آگے چل کر اٹھارہویں صدی میں تحریک تنویر میں مذہبی تصور کائنات و تصور انسان کو بالکلیہ مسترد کر دیا گیا اور مذہبی علم کو کسی بھی درجے میں حقیقت کی معرفت کا کوئی ذریعہ تسلیم نہ کرتے ہوئے انسان کے دور جہالت کی پیداوار قرار دیا گیا۔ مذہب کو زمانہ قدیم کے توہمات سے پیدا شدہ جہالت کے ہم معنی اور سائنس کے دریافت کردہ تازہ حقائق سے متصادم ہونے کی بنیاد پر سرے سے ناقابل التفات تصور کیا جانے لگا۔ اس طرز فکر کے منطقی نتیجے طور پر مغربی ذہن تمام کائناتی، نفسی اور سماجی مظاہر کی توجیہ کے لیے متبادل نظریات اور فلسفوں کی طرف متوجہ ہوا اور یوں رفتہ رفتہ حیات وکائنات سے متعلق مذہبی نظریے کی مکمل نفی کر کے لا دینی نظریات اور فلسفوں پر استوار علوم وفنون کا ایک پورا نظام کھڑا کر دیا گیا جو انسانی فکر وعمل کے ہر ہر دائرے کی ایک خاص رخ پر تشکیل کرتا ہے اور جس میں مذہبی فکر یا مذہبی تصورات اب حیات وکائنات کی تفہیم کے لیے زاویہ نظر فراہم کرنے کے بجائے خود انسانی فکر کے ایک معروض (Subject) کی حیثیت سے زیر غور آتے ہیں۔ جدید مغربی فکر کے تمام اہم تصورات، نظریات، فلسفے اور فکری تحریکات بنیادی طور پر مذہب اور مذہبی علم سے بغاوت پر مبنی ہیں اور ان کا اساسی محرک انسانی ذہن کے سامنے مذہبی مقدمات کے متبادل مقدمات پیش کرنا رہا ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ صورت حال بطور ایک مذہب اور بطور ایک کامل تصور حیات، اسلام کے لیے ایک زبردست چیلنج کا درجہ رکھتی ہے، اور اس کا سامنا کرنا مسلم فکر و دانش کی اولین ذمہ داری قرار پاتی ہے۔ اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کا ایک بنیادی اور اہم دائرہ تو علم الکلام ہے۔ علم الکلام کی اصطلاح علمی و فنی لحاظ سے ایسے جدلیاتی مباحث کے لیے استعمال کی جاتی ہے جن میں کسی مخصوص الٰہیاتی اور اعتقادی مسئلے کا اثبات یا تردید مقصود ہو۔ تاہم اپنے اصل مقصد کے لحاظ سے دیکھا جائے تو مسائل و مباحث کو براہ راست موضوع بحث بنانے کے علاوہ ایسی عمومی حکمت عملی وضع کرنا اور اس کے خط و خال کی وضاحت کرنا بھی اس علم کے دائرے میں ہی شمار ہوگا جس کا مقصد غلط نظریات اور باطل فلسفوں کے منفی اثر سے ذہنوں کو بچانا اور اسلامی عقائد ونظریات کی حقانیت اور صداقت کا یقین دلوں میں راسخ کرنا ہو۔ یہ پہلو عام طور سے علم الکلام سے متعلق تحریروں میں زیر غور نہیں لایا گیا، جبکہ غور کیا جائے تو انسانوں کے مزاجوں اور طبائع کے فرق اور جدید تہذیبی ونفسیاتی رجحانات کے تناظر میں ایسے راہ نما اصول متعین کرنے کی ضرورت اس علم کے اصل مقصد کے لحاظ سے بے حد واضح ہے جن کی روشنی میں ملحدانہ فکر سے متاثر اذہان کو مختلف اور متنوع طریقے اختیار کرتے ہوئے مذہب کی طرف مائل کیا جا سکے اور ان کے ذہنوں سے شکوک وشبہات کے کانٹے چنے جا سکیں۔
اس ضمن میں تجربے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جدلیاتی انداز میں براہ راست کسی مسئلے پر مباحثہ یا مناظرہ کا طریقہ بیشتر افراد کے لیے زیادہ مفید نہیں ہوتا۔ علمی و عقلی بحث و مباحثہ کی ایک خاص سطح پر اپنی اہمیت اور افادیت ہے اور فکر و دانش کی سطح پر مؤثر عقلی انداز میں حق کے اثبات اور باطل کی بےمائیگی واضح کرنے کی ضرورت و افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، تاہم جہاں تک انفرادی سطح پر متاثرین کی اصلاح کا تعلق ہے تو ان کے لیے براہ راست موضوع پر مناظرہ یا مباحثہ کا طریقہ بسا اوقات الٹا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس ضمن میں بیسویں صدی کے ممتاز عالم اور دانش ور مولانا عبد الماجد دریابادی نے اپنی آپ بیتی میں جو اپنے ذاتی تجربات بیان کیے ہیں، وہ بے حد مفید اور قابل توجہ ہیں اور الحاد سے متاثر نئی نسل کو مخاطب بنانے کے لیے نہایت اہم نفسیاتی اور دعوتی اصولوں کی نشان دہی کرتے ہیں۔ (دیکھیے: آپ بیتی، مجلس نشریات اسلام کراچی، ۱۹۹۶، صفحات ۲۳۳ تا ۲۵۴)
ذیل میں مولانا کی آپ بیتی کے متعلقہ ابواب سے چند اقتباسات نقل کیے جاتے ہیں:
”ایک عزیز کے پاس ایک انگریزی کتاب محض اتفاق سے دیکھنے میں آ گئی۔ جوں جوں آگے بڑھتا گیا، گویا ایک نیا عالم عقلیات کا کھلتا گیا اور عقائد واخلاق کی پوری پرانی دنیا جیسے زیر و زبر ہوتی چلی گئی! کتاب مذہب پر نہ تھی، نہ بظاہر اس کا کوئی تعلق ابطال اسلام یا ابطال مذاہب سے تھا۔ اصول معاشرت وآداب معاشرت تھی۔ نام تھا: Elements of Social Science ۔ کتاب کیا تھی، ایک بارود بچھی ہوئی سرنگ تھی۔ حملہ کا اصل ہدف وہ اخلاقی بندشیں تھیں جنھیں مذہب کی دنیا اب تک بطور علوم متعارفہ کے پکڑے ہوئے ہے اور ان پر اپنے احکام کی بنیاد رکھے ہوئے ہے، مثلاً عفت وعصمت۔ کتاب کا اصل حملہ انھیں بنیادی اخلاقی قدروں پر تھا۔ کتاب کی زد ہر ایسی قدر پر پڑتی تھی جو مذہب اور اخلاق کو ہمیشہ عزیز رہے ہیں۔ پروپیگنڈے کا کمال بھی یہی ہے کہ حملہ براہ راست نہ ہو، بلکہ اطراف و جوانب سے گولہ باری کر کے قلعہ کی حالت کو اتنا مخدوش بنا دیا جائے کہ خود دفاع کرنے والوں میں تزلزل و تذبذب پیدا ہو جائے اور قدم از خود اکھڑ جانے پر آمادہ ہو جائیں۔“ (ص ۲۳۴ تا ۲۳۶)
”اسلام اور ایمان سے برگشتہ کرنے اور صاف وصریح ارتداد کی طرف لانے میں ملحدوں اور نیم ملحدوں کی تحریریں ہرگز اس درجہ موثر نہیں ہوئیں جتنی وہ فنی کتابیں ثابت ہوئیں جو نفسیات کے موضوع پر اہل فن کے قلم سے نکلی ہوئی تھیں۔ بظاہر مذہب سے کوئی تعلق ہی نہیں رکھتی تھیں، نہ نفیاً نہ اثباتاً۔ اصلی زہر انھیں بظاہر بےضرر کتابوں کے اندر کھلا ہوا ملا۔ مثلاً ایک شخص گزرا ہے ڈاکٹر ماڈسلی (Maudesley)۔ اختلال دماغی اور امراض نفسیاتی کو بیان کرتے کرتے یک بیک وہ بدبخت مثال میں وحی محمدی کو لے آیا اور اسم مبارک کی صراحت کے ساتھ لکھ گیا کہ مصروع شخص کے لیے یہ بالکل ممکن ہے کہ وہ اپنا کوئی بڑا کارنامہ دنیا کے لیے چھوڑ جائے۔“ (ص ۲۴۰)
مولانا نے الحاد سے واپسی کے ذہنی سفر کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بدھ مت، تھیو سوفی، ہندو فلسفہ وتصوف اور مختلف ہندو مفکرین کی تحریریں پڑھنے کا ذکر کیا ہے اور اسے اسلام کی طرف واپسی کا پہلا مرحلہ قرار دیاہے۔ لکھتے ہیں:
”ڈیڑھ دو سال (۱۹ء، ۲۰ء) کے اس مسلسل مطالعہ کا حاصل یہ نکلا کہ فرنگی اور مادی فلسفہ کا جو بت دل میں بیٹھا ہوا تھا، وہ شکست ہوگیا اور ذہن کو یہ صاف نظر آنے لگا کہ اسرار کائنات سے متعلق آخری توجیہ اور قطعی تعبیر ان فرنگی مادیین کی نہیں، بلکہ دنیا میں ایک سے ایک اعلیٰ و دل نشین توجیہیں اور تعبیریں اور بھی موجود ہیں۔ اسلام سے ان تعلیمات کو بھی خاصا بعد تھا، لیکن بہرحال اب مسائل حیات، اسرار کائنات سے متعلق نظر کے سامنے ایک بالکل نیا رخ آ گیا اور مادیت، لا ادریت و تشکیک کی جو سربفلک عمارت برسوں میں تعمیر ہوئی تھی، وہ دھڑام سے زمین پر آ رہی۔ دل اب اس عقیدہ پر آ گیا کہ مادیت کے علاوہ اور اس سے کہیں ماورا و مافوق ایک دوسرا عالم روحانیت کا بھی ہے۔ حواس مادی محسوسات، مرئیات و مشہودات ہی سب کچھ نہیں، ان کی تہہ میں اور ان سے بالاتر ”غیب“ اور مغیبات کا بھی ایک مستقل عالم اپنا وجود رکھتا ہے۔ قرآن مجید نے بالکل شروع میں جو ایمان کا وصف ایمان بالغیب بتا دیا ہے، وہ بہت ہی پرحکمت ومعنی خیز ہے۔ پہلے نفس ”غیب“ پر تو ایمان ہو، پھر اس کے جزئیات وتفصیلات بھی معلوم ہوتے رہیں گے۔ ہمارے مولوی صاحبان کو اس منزل و مقام کی کوئی قدر نہ ہو، لیکن درحقیقت یہ روحانیت کا اعتقاد، ایمان کی پہلی اور بڑی فتح مبین مادیت، الحاد وتشکیک کے لشکر پر تھی۔“ (ص ۲۴۷، ۲۴۸)
”اسی دور کی ابھی ابتدا ہی تھی کہ مولانا شبلی کی سیرۃ النبی کی جلد اول پریس سے باہر آ گئی۔ کتاب شبلی کے قلم سے تھی۔ موضوع کچھ بھی سہی، کیسے نہ اس کو شوق سے ہاتھوں سے کھولتا اور اشتیاق کی آنکھوں سے پڑھتا۔ کھولی اور جب تک اول سے آخر تک پڑھ نہ لی، دم نہ لیا۔ دل کا اصلی چور تو یہیں تھا اور نفس شوم کو سب سے بڑی ٹھوکر جو لگی تھی، وہ اسی سیرۃ اقدس ہی کے متعلق تو تھی۔ مستشرقین و محققین فرنگ کے حملوں کا اصل ہدف تو ذات رسالت ہی تھی۔ خصوصاً بسلسلہ غزوات و محاربات، ظالموں نے بھی تو طرح طرح سے دل میں بٹھا دیا تھا کہ ذات مبارک نعوذ باللہ بالکل ایک ظالم فاتح کی تھی۔ شبلی نے (اللہ ان کی تربت ٹھنڈی رکھے) اصل دوا اسی درد کی کی، مرہم اسی زخم پر رکھا۔ اور کتاب جب بند کی تو چشم تصور کے سامنے رسول عربی کی تصویر ایک بڑے مصلح ملک وقوم اور ایک رحم دل و فیاض حاکم کی تھی جس کو اگر جدال و قتال سے کام لینا پڑا تھا تو پھر بالکل آخر درجہ میں، ہر طرح پر مجبور ہو کر۔ یہ مرتبہ یقینا آج ہر مسلمان کو رسول و نبی کے درجہ سے کہیں فروتر نظر آئے گا اور شبلی کی کوئی قدر و قیمت نظر میں نہ آئے گی، لیکن اس کا حال ذرا ا س کے دل سے پوچھیے جس کے دل میں نعوذ باللہ پورا بغض و عناد اس ذات اقدس کی طرف سے جما ہوا تھا۔ شبلی کی کتاب کا یہ احسان میں کبھی بھولنے والا نہیں۔“ (ص ۲۴۸)
”ہندو فلسفہ اور جوگیانہ تصوف نے گویا کفر و ایمان کے درمیان پل کا کام دیا۔ اس معروضہ کو وہ متقشف حضرات خاص طور پر نوٹ کر لیں جو ہندو فلسفہ کے نام ہی سے بھڑکتے ہیں اور اسے یکسر کفر و ضلالت کے مرادف قرار دیے ہوئے ہیں۔ ہدایت کا ذریعہ بھی اسے بآسانی بنایا جا سکتا ہے۔ اور یہ حضرات اپنے جوش دین داری میں شبلی اور محمد علی لاہوری کی خدمت تبلیغ کو سرے سے نظر انداز نہ کر جائیں، میں نے تو دونوں کی دست گیری محسوس کی بلکہ اسپرٹ آف اسلام والے جسٹس امیر علی کے کام کو بھی حقیر نہ سمجھیں حالاں کہ وہ بےچارے تو قرآن مجید کو شاید کلام محمد ہی سمجھتے تھے۔ اپنی سرگزشت کا تو خلاصہ یہی ہے کہ جس فکری منزل میں، میں اس وقت تھا، حضرت تھانوی جیسے بزرگوں کی تحریروں کو ناقابل التفات ٹھہراتا، ان کی طرف نظر تک نہ اٹھاتا اور ان کے وعظ وتلقین سے الٹا ہی اثر قبول کرتا۔ غذا لطیف وتقویت بخش ہی سہی، لیکن اگر مریض کے معدہ سے مناسبت نہیں ہوگی تو الٹی مضر ہی پڑے گی۔“ (ص ۲۵۵، ۲۵۶)
”بڑی خیر یہ ہوئی کہ مجلسی، خانگی تعلقات اپنے عزیزوں اور خاندان والوں سے بدستور باقی رہے۔ اپنے ایک ساتھی کو اسی زمانہ میں دیکھا کہ اپنوں سے کٹ کر مکمل غیروں میں شامل ہوگئے تھے اور رہن سہن تک بالکل ہندوانہ کر لیا تھا۔ میں اپنے کھانے پینے، وضع و لباس اور عام معاشرت میں، بلکہ کہنا چاہیے کہ ایک حد تک جذباتی حیثیت سے بھی مسلمان ہی رہا، البتہ ایک روشن خیال مسلمان۔ اور روشن خیال مسلمان اس وقت نوجوانوں میں کون نہ تھا؟ اور مسلم قومیت سے میری یگانگت کی جڑیں بحمداللہ کٹنے نہ پائیں۔ مسلم قومیت کی نعمت بھی، دین اسلام کے بعد، ایک بڑی نعمت ہے اور کوئی صاحب اسے بے وقعت و بے قیمت نہ سمجھیں۔ مجھے آگے چل کر اس بچی کھچی نعمت کی بھی بڑی قدر معلوم ہوئی۔“ (ص ۲۴۲)
”اکتوبر ۲۰ء میں سفر دکن میں ایک عزیز ناظر یار جنگ جج کے ہاں اورنگ آباد میں قیام کا اتفاق ہوا اور ان کے انگریزی کتب خانہ میں نظر محمد علی لاہوری احمدی (عرف عام میں قادیانی) کے انگریزی ترجمہ و تفسیر قرآن مجید پر پڑ گئی۔ بےتاب ہو کر الماری سے نکالا اور پڑھنا شروع کر دیا۔ جوں جوں پڑھتا گیا، الحمدللہ ایمان بڑھتا گیا۔ جس ”صاحبانہ“ ذہنیت میں اس وقت تک تھا، اس کا عین مقتضا یہ تھا کہ جو مطالب اردو میں بےاثر رہتے اور سپاٹ معلوم ہوتے، وہی انگریزی کے قالب میں جا کر مؤثر و جاندار بن جاتے۔ یہ کوئی مغالطہ نفس ہو یا نہ ہو، بہرحال میرے حق میں تو حقیقت واقعہ بن کر رہا۔ اور اس انگریزی قرآن کو جب ختم کر کے دل کو ٹٹولا تو اپنے کو مسلمان ہی پایا اور اب اپنے ضمیر کو دھوکا دیے بغیر کلمہ شہادت بلا تامل پڑھ چکا تھا۔ اللہ اس محمد علی کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ اس کا عقیدہ مرزا صاحب کے متعلق غلط تھا یا صحیح، مجھے اس سے مطلق بحث نہیں۔ بہرحال اپنے ذاتی تجربہ کو کیا کروں، میرے کفر و ارتداد کے تابوت پر تو آخری کیل اسی نے ٹھونکی۔“ (ص ۲۵۴، ۲۵۵)
اپنی اصلاح کے ضمن میں مختلف حضرات کی کوششوں اور ان کے رائیگاں جانے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”ہاں، مخلصانہ و حکیمانہ کوششیں پھر اگر تھوڑی بہت کسی کی چپکے چپکے کارگر ہوتی رہیں تو بس ان دو ہستیوں کی:
(۱) ایک الہ آباد کے نامور ظریف شاعر حضرت اکبرؒ۔ بحث و مناظرہ کی انھوں نے کبھی چھاؤں بھی نہیں پڑنے دی اور نہ کبھی پند و موعظت ہی کی طرح ڈالی۔ بس موقع بہ موقع اپنے میٹھے انداز میں کوئی بات چپکے سے ایسی کہہ گزرتے جو دل میں اتر جاتی اور ذہن کو جیسے ٹہوکے دے دیتے کہ قبول حق کی گنجائش کچھ تو بہرحال پیدا ہو کر رہتی۔
(۲) دوسری ہستی وقت کے نامور رہ نمائے ملک و ملت مولانا محمد علیؒ کی تھی۔ بڑی زوردار شخصیت ان کی تھی اور میرے تو گویا محبوب ہی تھے۔ کبھی خط میں اور کبھی زبانی، جہاں ذرا بھی موقع پاتے، ابل پڑتے اور جوش و خروش کے ساتھ، کبھی ہنستے ہوئے، کبھی گرجتے ہوئے اور کبھی آنسو بہاتے ہوئے تبلیغ کر ڈالتے۔ ان کی عالی دماغی، ذہانت، علم، اخلاص کا پوری طرح قائل تھا، اس لیے کبھی بھی کوئی گرانی دونوں کی تبلیغ سے نہ ہوئی اور دونوں حق نصح (خیر خواہی) ادا کر کے پورا اجر سمیٹتے رہے۔“ (ص ۲۴۹، ۲۵۰)
”گیتا کے مطالعہ کے بعد سے طبیعت میں رجحان تصوف کی جانب پیدا ہو گیا تھا اور مسلم صوفیا کی کرامتوں اور ملفوظات سے اب وحشت نہیں رہی تھی، دلچسپی پیدا ہوگئی تھی اور خاصی کتابیں فارسی اور اردو کی دیکھ بھی ڈالی تھیں۔ ۱۹۱۹ء کا آخر تھا کہ اپنے ایک عزیز سید ممتاز احمد بانسوی لکھنوی کے پاس مثنوی رومی کے چھ دفتر کان پور کے بہت صاف، روشن و خوشنما چھپے ہوئے دکھائی دیے اور طبیعت للچا اٹھی۔ ان بےچارے نے بڑی خوشی سے ایک ایک دفتر دینا شروع کر دیا۔ کتاب شروع کرنے کی دیر تھی کہ یہ معلوم ہوا کہ کسی نے جادو کر دیا۔ کتاب اب چھوڑنا چاہوں بھی تو کتاب مجھے نہیں چھوڑ رہی ہے۔ یاد نہیں کہ کتاب کتنے عرصے میں ختم کی۔ بہرحال جب بھی ختم کی، تو اتنا یاد ہے کہ دل ممتاز میاں کا نہایت درجہ احسان مند تھا کہ یہ نعمت بےبہا انھی کے ذریعے ہاتھ آئی تھی۔ شکوک و شبہات بغیر کسی رد و قدح میں پڑے، اب دل سے کافور تھے اور دل صاحب مثنوی پر ایمان لے آنے کے لیے بےقرار تھا! (ص ۱۵۲، ۲۵۲)
”۲۳ء کا غالباً ستمبر تھا کہ مکتوبات مجدد سرہندی کے مطالعہ کی توفیق ہوئی۔ بڑا اچھا نسخہ، خوب خوش خط و روشن اچھے کاغذ پر، حاشیہ کے ساتھ (مثنوی کے کان پوری ایڈیشن کی طرح) نو حصوں میں امرتسر کا چھپا ہوا مل گیا۔ اس نے طبیعت پر تقریباً ویسا ہی گہرا اثر ڈالا جیسا تین چار سال قبل مثنوی سے پڑ چکا تھا۔ فرق اتنا تھا کہ مثنوی نے جوش ومستی کی ایک گرمی سی پیدا کر دی تھی۔ بجائے ادھر دھر کی آوارہ گردی اور ہر صاحب مزار و صاحب آستانہ سے لو لگانے کے، اب متعین شاہراہ اتباع شریعت کی مل گئی۔ منزل مقصود متعین ہو گئی کہ وہ رضائے الٰہی ہے، اس کے حصول و وصول کا ذریعہ اتباع احکام مصطفوی ہے۔ مثنوی اور مکتوبات، دونوں کا یہ احسان عمر بھر بھولنے والا نہیں۔ راہ ہدایت جو کچھ نصیب ہوئی، کہنا چاہیے کہ بالآخر انھیں دونوں کے مطالعہ کا ثمرہ ہے۔“ (ص ۲۵۷)
مولانا عبدالماجد دریابادی کی آپ بیتی کا یہ پورا حصہ لائق مطالعہ ہے اور انسانی نفسیات اور تجربے کی سطح پر یہ سمجھنے میں بہت مدد دیتا ہے کہ گمراہ کن نظریات کیسے انسان کے فکر و دماغ کو متاثر کرتے ہیں اور ان کا مداوا کرتے ہوئے کن علمی و نفسیاتی اصولوں کو مد نظر رکھنا چاہیے۔
تبصرہ لکھیے