ہوم << نہیں - محمد کفیل اسلم

نہیں - محمد کفیل اسلم

کفیل اسلم یہ جمعہ کا دن تھا۔ صبح اٹھا، آج بھی فجر کی نماز رہ گئی۔ امی ابو نے نماز نہ پڑھنے پر میری کھنچائی کی، چند جملے جنہیں میں نے ایک کان سے سنا اور دوسرے سے نکال دیا۔ جلدی میں ناشتہ کیا۔ جلدی جلدی کپڑے بدلے، موزے اور جوتے پہنے، اپنا حلیہ دیکھنے کو آئینے پر ایک حتمی نظر ڈالی، اور گھر سے کالج کے لیے نکل گیا۔ چند منٹ کی رائیڈنگ کے بعد کالج پہنچا۔
گزشتہ 5 سالوں سے باقاعدہ شعبہِ تدریس سے وابستہ ہوں۔ کالج کی کلاسز نمٹانے کے بعد میرا رُخ اپنی موٹرسائیکل کی طرف تھا۔ مجھے ایک جگہ جلدی پہنچنا تھا۔ لہذا میرے قدم قدم تیز تیز بائیک کی جانب اٹھ رہے تھے۔ سوچا کام سے فارغ ہوکر جمعہ کی نماز میں وقت سے پہلے پہنچوں گا مگر آج بھی یہ مشکل لگ رہا تھا۔ بائیک میں پٹرول تھا لہذا پٹرول پمپ کی لائن میں لگنے اور انتظار کی کوفت سے بچ گیا۔ بائیک کو چابی لگائی اور جمپ کھڈوں کی پروا کیے بغیر میں فراٹے بھرتا مین شاہراہ پر آگیا۔ اب میں تھا، صاف ستھری، خالی سڑک اور چوتھے گئیر میں اڑتی ہوئی میری میلی مگر سبک رفتار سی ڈی 70 موٹرسائیکل۔
بمشکل 5 تا 7 منٹ کی مسافت طے کر پایا ہوں گا کہ سڑک کنارے بھیڑ لگی نظر آئی۔ سوچا کہ ہوگا کوئی معاملہ لوگوں میں۔ ممکن ہے کوئی جھگڑا ہوا ہوگا یا چھوٹا موٹا حادثہ، مگر میرے دماغ میں نجانے کیا سمایا کہ میں نے بائیک سڑک کنارے روکی اور بھیڑ میں گھس گیا۔ اگلا منظر جو میری گنہگار آنکھوں نے دیکھا تو یوں لگا جیسے میری ٹانگوں میں جان نہیں رہی، منہ سے بےاختیار نکلا ”استغفراللہ“. خوف کے مارے میرا حلق خشک سا ہوگیا۔
میں نے دیکھا کہ لوگوں کے بیچ دو نوجوان لڑکے فٹ پاتھ پر موت و زندگی کی کشمکش میں پڑے ہیں۔ ناک و منہ سے خون ابل ابل کر باہر آ رہا تھا۔ مکھیاں تھیں کہ خون پر مسلسل بھنبھنا رہی تھیں۔ پاس کھڑے تباہ حال رکشے اور دو موٹر سائیکلوں کو دیکھ کر مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ تصادم کس شدت کا ہوا ہوگا۔ نوجوانوں کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں مگر وہ ہوش میں نہیں تھے۔ شاید عالمِ نزع سے گزر رہے تھے۔ ان کے جسم پر زیبِ تن کپڑے بڑی طرح ادُھڑ چکے تھے جبکہ تیسرا نوجوان موقع پر زخموں کی انتہائی اذیت نہ سہہ پایا اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر وہیں دم توڑ گیا۔ مجھے نہیں اندازہ کہ موت کی سختی کے وقت مرنے والے نے کس تکلیف سے اپنی روح عزرائیل کے سپرد کی ہوگی اور ان دونوں قریب المرگ نوجوانوں پر کیا گزر رہی تھی جو اپنی آخری سانسیں لے رہے تھے مگر اب میں اپنے اس کام کو یکسر بھول چکا تھا جس کے لیے میں کالج سے عجلت میں نکلا اور جلد از جلد پہنچنے کو بےتاب اڑا جارہا تھا۔ میری سب جلد بازی ہوا ہوچکی تھی۔ سوچ رہا تھا کہ ان کو بھی کتنی جلدی ہوئی ہوگی۔ یہ بھی کتنی رفتار سے کسی جگہ پہنچنے کا ارادہ رکھتے ہوئے ہوں گے۔
لوگ ایمبولینس کو کال کرچکے تھے۔ میں مزید وہاں رُک نہیں پا رہا تھا۔ میرا دل اچاٹ ہوگیا۔ دل کیا یہیِں کہیں بیٹھ جاؤں۔ کچھ دیر میں اپنے منتشر اعصاب کو قابو کیا۔ روڈ کراس کی اور واپس بائیک پر آکر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بُت بنا کچھ سوچتا رہا ایک لمبی آہ لی، بائیک کو کک لگائی اور گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ راستہ میں، میں خود سے پوچھ رہا تھا: کفیل؟ ٹھیک اِسی لمحے تمھیں کوئی حادثہ اپنی لپیٹ میں لے لے اور تم یہیں دم توڑ جاؤ تو کیا تم خود کو اللہ کے سامنے کھڑے ہونے کا اہل سمجھتے ہو اور کیا تمھارا معاملہ اللہ اور اس کے بندوں سے ٹھیک ہے؟
مجھے میرے ضمیر نے بغیر کسی تاخیر کے جواب دیا: نہیں

Comments

Click here to post a comment